برطانیہ کا رنگ بدلتا موسم اور کرکٹ

سلیم خالق  پير 5 جون 2017
اسٹیڈیم میں یہ ماحول دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سب پاک بھارت میچ کو اسی لیے کیش کراتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اسٹیڈیم میں یہ ماحول دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سب پاک بھارت میچ کو اسی لیے کیش کراتے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

’’برطانیہ کے مشہور زمانہ تھری ڈبلیوز میں سے ایک ویدر (موسم) ہے، نسیم صدیقی نے کار کا اے سی آن کرتے ہوئے کہا، اگر کچھ دیر بعد ہیٹر چلانا پڑے تو حیران نہ ہونا‘‘ بعد میں پھر ایسا ہی ہوا اور میں طویل عرصے سے لندن میں مقیم نمائندہ ایکسپریس نیوز کے تجربے کا قائل ہو گیا۔

ہم دونوں لندن سے برمنگھم جا رہے تھے جہاں پاک بھارت میچ ہونا تھا،بذریعہ کار تقریباً 2 گھنٹے کا سفر ہے، پورے راستے ہریالی دیکھ کر وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا، ساتھ نسیم صاحب  سے بھی ہر موضوع پر بات ہوتی رہی، ہوٹل پہنچے تو کچھ دیر بعد یحییٰ حسینی کا فون آ گیا کہ دوست کے ساتھ افطار پر چلنا ہے، جس ریسٹورنٹ میں ہم گئے وہ ان دنوں قومی کرکٹرز کا بھی فیورٹ بنا ہوا ہے، وہاں موجود تختی دیکھ کر پتا چلا کہ 1989میں اس کا افتتاح موجودہ پی سی بی چیف شہریارخان نے کیا تھا، وہ اس وقت برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر تھے، واپس ہوٹل آ کر ٹیم کی خبریں جاننا چاہیں تو پتا چلا کہ پی سی بی آفیشلز کو اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ بھارت سے میچ میں  کارکردگی کیسی رہتی ہے۔

سب لوگ بس اپنے دوستوں کو مفت کی ٹکٹیں باٹنے میں لگے ہوئے تھے، بورڈکے خزانے سے رقم خرچ کر کے ٹکٹیں لی گئیں جنھیں عزیز واقارب میں  تقسیم کیا گیا، میں اس وقت یہی سوچ رہا تھا کہ جو شخص بھاری رقم خرچ کر کے میچ دیکھنے برطانیہ آ سکتا ہے کیا وہ چند سو پاؤنڈ کے ٹکٹ نہیں خرید سکتا،خود میں نے یہاں آنے سے کئی ماہ قبل آن لائن میچ ٹکٹس اپنے دوستوں کیلیے آئی سی سی کی ویب سائٹ سے خریدی تھیں، افسوس جب سیاسی بنیادوں پر تقرریاں ہوںگی تو اپنے آقاؤں کو خوش رکھنے کیلیے بورڈ حکام کو ایسے جتن تو کرنا ہی پڑیں گے پھر مال کون سا اپنی جیب سے خرچ ہو رہا ہے۔

ان بورڈ آفیشلز کا ایک نہ ایک دن تو احتساب ہوگا، شہریارخان اور نجم سیٹھی کیوں برمنگھم آئے، اس سے الٹا کھلاڑی دباؤ کا ہی شکار ہوئے، سری لنکن ٹیم کے منیجر ہی میڈیا کا کام بھی دیکھ رہے ہیں، پی سی بی میڈیا ڈپارٹمنٹ کے تین نمائندے یہاں کیوں موجود ہیں؟ کسی کے پاس جواب موجود نہیں۔ خیر بات کہاں سے کہاں نکل گئی ، پاک بھارت میچ میں موسم کی آنکھ مچولی جاری رہی، اب تک کئی بار کھیل رک چکا، پاکستانی ٹیم نے نہایت غیرمعیاری فیلڈنگ کی، جب آپ کوہلی اور یوراج جیسے بیٹسمینوں کے کیچز ڈراپ کریں گے تو کیسے حریف کو کم اسکور پر آؤٹ کر سکتے ہیں۔

میچ سے ایک رات قبل ہی لندن میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا جس کی وجہ سے ایجبسٹن میں سیکیورٹی سخت کر دی گئی تھی، ہم لوگ صبح سات بجے ہی اسٹیڈیم پہنچ گئے  جہاں پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کے شائقین موجود اور نعرے بازی کر رہے تھے، قومی پرچموںکی بھرمار تھی،بعض لوگ منفرد روپ دھارے ہوئے تھے، چاچا کرکٹ بھی ماحول گرمانے کیلیے موجود تھے لیکن ان کے لباس پر اشتہار دیکھ کر اندازہ ہوا کہ وہ مارکیٹنگ کے معاملے میں کسی بھی کرکٹر سے کم نہیں ہیں۔

ایک اچھی بات یا برطانوی قانون کا ڈر جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے شائقین نعرے بازی کرتے ہوئے یہ خیال رکھ رہے تھے کہ کسی کی دل آزاری نہ ہو، حسب معمول ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کا سلسلہ بھی جاری تھا، مجھے پتا چلا کہ 50 پاؤنڈ والا ٹکٹ 300 پاؤنڈ (تقریباً 40 ہزار پاکستانی روپے) میں بھی فروخت ہو رہا تھا،یہ مناظر میں نے یہاں پہلے بھی دیکھے تھے، گزشتہ برس لارڈز ٹیسٹ میں بھی گورے ٹکٹ بلیک میں بیچ رہے تھے،اس بار بھی ایسا ہی تھا، پاکستانی پرچموں سے سجی ایک بڑی بس بھی دکھائی دی جس میں شریک افراد ٹیم کی فتح کیلیے بے چین تھے۔

اسٹیڈیم میں یہ ماحول دیکھ کر اندازہ ہوا کہ سب پاک بھارت میچ کو اسی لیے کیش کراتے ہیں، بھارت پاکستان سے باہمی سیریز نہیں کھیلتا مگر اپنے براڈ کاسٹر کو نقصان سے بچانے اور خود کمائی کرنے کیلیے آئی سی سی ایونٹس میں تمام باتیں بھول جاتا ہے، کونسل بھی ہر ایونٹ میں روایتی حریفوں کا ایک میچ ضرور رکھتی ہے جس کی آمدنی سب پر بھاری ہوتی ہے، یہ میچ دیکھنے 24156 افراد ایجبسٹن آئے جو ون ڈے میں یہاں کا نیا ریکارڈ ہے، جس وقت میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں پاکستانی بیٹنگ جاری ہے۔

نتیجہ سامنے آنے پر ہی میچ کے حوالے سے مزید بات کریں گے،یہاں رمیز راجہ بھی نظر آئے جو کمنٹری کیلیے آئے ہوئے ہیں، جمعے کو سری لنکا و جنوبی افریقہ کے میچ  کے درمیان  میڈیا سینٹر میں گریم اسمتھ اور کمار سنگاکارا سے بھی ملاقات ہوئی تھی، سنگاکارا کو جب میں نے بتایا  کہ میرا تعلق پاکستان سے ہے تو انھوں نے خوشی کا اظہار کیا، میری گوکہ ان سے چند لمحے ہی بات ہوئی لیکن اندازہ ہو گیا کہ وہ جتنے بڑے بیٹسمین رہے اتنے ہی اچھے انسان ہیں۔

آخر میں ایک  دلچسپ بات آپ لوگوں سے شیئر کرنا چاہتا ہوں کہ میرے کالمز کا ’’تذکرہ ‘‘ برطانیہ تک پہنچ گیا ہے، میں چونکہ ایک عام سا صحافی ہوں اس لیے ٹویٹر پر چند سو ہی فالوورز ہیں، ان میں سے ایک صاحب نے بتایا کہ آپ کیخلاف ایک ہی دن تقریباً ایک جیسی کئی پوسٹ ہوئی ہیں، انھوں نے ہی تحقیق کر کے یہ بات بتائی کہ سارے اکاؤنٹس جعلی ہیں اور ایک دن میں بنے، جب آپ نجم سیٹھی کے بارے میں کچھ لکھیں تو بورڈ کا خفیہ سوشل میڈیا سیل حرکت میں آ جاتا ہے۔

بس اس بار یہ غلطی ہوئی کہ ایک گورے کے نام کا اکاؤنٹ بھی کسی نے بنا دیا جس نے مجھے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے نجم سیٹھی کی تعریف کی، اب میں اس پر حیران ہوں یا خوش کہ گورے بھی اردو میں میرے کالمز پڑھتے ہیں، شاید یہ محض اتفاق تھا کہ ایک دن قبل ہی پی سی بی آفیشل نے مجھ سے ’’اعلیٰ حکام‘‘ سے بات کرنے کا کہا تھا، میں ہرگز یہ نہیں کہہ رہا کہ جعلی اکاؤنٹس میرے انکار پر بنائے گئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔