ماہِ صیام اور گھریلو مصروفیات

سویرا فلک  پير 5 جون 2017
عبادات اور امورِ خانہ داری کے درمیان توازن قائم رکھیں۔ فوٹو: فائل

عبادات اور امورِ خانہ داری کے درمیان توازن قائم رکھیں۔ فوٹو: فائل

رمضان المبارک کے آغاز کے ساتھ ہی خواتین کے معمولات میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے۔

رمضان کی تیاریوں کے حوالے سے خواتین خصوصی اہتمام کرتی نظر آتی ہیں۔ گو کہ بہ طور خاتون خانہ سحر و افطار کی تیاری آپ کی ذمے داری ہے مگر مسلمان ہونے کی حیثیت سے آپ پر رمضان کا خصوصی احترام بھی واجب ہے۔ ماہ رمضان میں اہل خانہ کی زبان کے چٹخارے پورے کرنے کے لیے دستر خوان پر نئی نئی ڈشز کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ مگر ان کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف رہتے ہوئے آپ کو عبادت کی جانب سے غافل نہیں ہوجانا چاہیے۔ جس طرح آپ دستر خوان پر خصوصی پکوانوں کے ساتھ مختلف چٹنیاں رکھتی ہیں تاکہ ان کی لذت بڑھا سکیں بالکل اسی طرح فرض عبادتوں کے ساتھ نوافل و درود و وظائف کا بھی اہتمام کریں۔

یاد رکھیں رمضان المبارک محض دسترخوانوں کو سجانے کا نام ہرگز نہیں ہے۔ یہ تو اﷲکے حضور شکرانہ ادا کرنے، اس کی قربت حاصل کرنے کی تگ و دو کرنے، اضافی نیکیاں کمانے اور بخشش کروانے کا ایک قیمتی موقع ہے۔ اس ماہ مبارک کا ایک ایک لمحہ، ایک ایک پل اور ساعت قیمتی و انمول ہے۔ روزانہ کئی کئی ڈشز بناکر وقت، پیسہ اور توانائی کا اسراف کرنے کے بجائے دستر خوان پر مختصر لوازمات رکھیں بلکہ ’’ون ڈش پالیسی‘‘ اپنائیں۔ اپنے سحر و افطار کے حصوں میں سے غریب، مستحق اور نادار روزہ داروں کا حصہ بھی ضرور رکھیں۔

استطاعت ہو تو ہفتے میں ایک بار یا پھر باری باری اپنے پڑوسیوں کوافطاری بھجوائیں۔ افطار بناتے وقت بزرگوں اور مریضوں کا خاص خیال رکھیں بالکل ایسے جیسے آپ بچوں کے لیے ان کی پسند کے ہلکے پھلکے یا کم مرچ مسالوں والے کھانے بناتی ہیں۔ اس محنت اور ان کی  خدمت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی دعاؤں کا کوئی نعم البدل نہیں۔ بچوں کو دستر خوان پر بٹھا کر صرف یہ نہ پوچھیں کہ وہ کیا کھائیں گے اور کیا پئیں گے بلکہ انھیں رمضان المبارک کے اصل مفہوم و مقصد اور فضیلت و اہمیت سے روشناس کروائیے۔ روزانہ چھوٹی چھوٹی دعائیں یاد کروائیے۔ سورتیں یاد کروائیے۔ نماز کی ادائیگی اور تلاوت قرآن پاک کے وقت انھیں اپنے ساتھ شامل رکھیں تاکہ وہ اس کے بھی عادی ہوسکیں۔ آج جو آپ انھیں سکھائیں گی وہی وہ آگے اپنی نسلوں کو منتقل کریں گے۔

ہمارے یہاں بچوں کی روزہ کشائی کرتے وقت بھی زیادہ تر زور اس بات پر دیا جاتا ہے کہ بس انھیں یہ بتایا جائے کہ تمہیں اتنے بجے سے اتنے بجے تک بھوکا پیاسا رہنا ہے۔ اس کے بدلے میں تمہیں تمہارا پسندیدہ مینو تیار کرکے دیا جائے گا۔ گوکہ بچوں کی سمجھ بوجھ کے حساب سے بعض اوقات انھیں اس طرح سے بہلانا پھسلانا پڑتا ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اسے روزے کے اصل مقصد سے لاعلم رکھا جائے۔ اس حوالے سے اعتدال کی راہ اپنائیں، نہ بالکل لاتعلق ہوجائیں نہ زیادہ انتہا سختی برتیں۔ قرآن کریم جو اس ماہ مبارک میں نازل ہوا، اس کی تلاوت اور تراویح سے بھی ہرگز غافل نہ رہیں کہ سارا دن آپ کا کچن میں ہی گزر جائے۔

گھر میں اگر کوئی شادی وغیرہ کی تقریب ہو تو ہم بخوشی پوری پوری رات جاگ کر ڈھولکی کا اہتمام کرتے ہیں۔ یا خوش گپیوں اور ہنسی مذاق میں وقت ضایع کرتے ہیں جب کہ رمضان المبارک میں رت جگے کا اہتمام کرنے سے بے انتہا فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔ تہجد کی نمازوں میں اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے مگر ہم میں سے اکثر صرف اس ایک ماہ کی محنت سے جی چرا کر بالکل اس طرح یہ نادر موقع ضایع کردیتے ہیں جس طرح کوئی نالائق طالب علم اپنے کیریئر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دن رات سو کر یا ٹی وی کے آگے چینل بدلنے میں گزار دیتا ہے۔ زکوٰۃ کا اہتمام بھی اس ماہ کا اہم عمل ہے۔ اس لیے اس سے بھی چشم  پوشی نہ کریں۔

اس ماہ کا آخری عشرہ خصوصی عبادات اور فیوض و برکات پر مشتمل ہے۔ اعتکاف کے علاوہ طاق راتوں کا ثواب حاصل کرنے کا نادر موقع آپ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔ مگر ہوتا یہ ہے کہ آخری عشرے میں ہی اکثر خواتین کی پوری توجہ بازاروں کے چکر لگانے، دنیاداری کے تقاضے پورے کرنے اور عید بازاروں کی رونق و گہما گہمی کی نظر ہوجاتی ہے۔ باشعور خواتین عید سے متعلق تمام امور رمضان کی آمد سے قبل ہی انجام دے لیتی ہیں۔ عقل مندی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ماہ صیام کے اصل مقصد کو فراموش نہ کریں اور اہتمامِ رمضان کرتے وقت احترامِ رمضان کو ضرور ملحوظ خاطر رکھیں۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔