پاک بھارت مقابلے، اور کپتانوں کا کردار

میاں عمران احمد  پير 5 جون 2017
آپ کچھ بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج پاکستانی ٹیم میں ایک بھی ہیرو نہیں ہے۔ ہم کھلاڑی پیدا کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور بھارتی ٹیم میں ہیروز کی لمبی لائن پیدا ہوچکی ہے۔

آپ کچھ بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج پاکستانی ٹیم میں ایک بھی ہیرو نہیں ہے۔ ہم کھلاڑی پیدا کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور بھارتی ٹیم میں ہیروز کی لمبی لائن پیدا ہوچکی ہے۔

کرکٹ کے میدانوں میں بھارت کے خلاف طویل عرصے سے شکست کا سلسلہ گزشتہ روز بھی نہ رُک سکا، بلکہ کل کے میچ میں تو شکست کی شدت مزید بڑھ گئی اور پاکستان کو 124 رنز سے عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر آپ نے کل کا میچ دیکھا ہو تو پورے میچ میں عامر کے پہلے اوور کے علاوہ پاکستانی ٹیم کہیں بھی بھارت پر برتری حاصل کرتی ہوئی نظر نہیں آئی۔

عام عوام اور ماہرین کرکٹ اِس شکست کی مختلف وجوہات بتارہے ہیں، لیکن میرے پاس شکست کی اپنی وجوہات ہیں جو آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ میرے نذدیک تو شکست کی اہم اور واحد وجہ ٹیم کی غلط سلیکشن تھی۔ میچ سے پہلے یہ بات مسلسل گردش کررہی تھی کہ وہاب ریاض مکمل فٹ نہیں ہیں، لیکن اِس کے باوجود انہیں جنید خان پر ترجیح دی گئی، حالانکہ جنید خان نے مسلسل اپنی زبردست کارکردگی سے بھارت کے تقریباً تمام ہی بلے بازوں کو پریشان رکھا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کہ ٹیم مینجمنٹ کے پاس کوئی ایک بھی وجہ ایسی نہیں جو یہ ثابت کرسکے کہ جنید خان کے مقابلے میں وہاب ریاض کو کھلانا کیوں ضروری تھا۔ اب آپ ایک نظر وہاب ریاض کے کیرئیر پر بھی ڈال لیں کہ یہ وہ گیند باز ہیں جنہیں اپنے پورے کیرئیر میں صرف ایک مرتبہ مین آف دی میچ کا اعزاز ملا ہو اور وہ بھی زمبابوے کے خلاف۔ چلیں اگر اِس کارکردگی کے باوجود بھی انہیں کھلانا ضروری ہو ہی گیا تھا تو کم از کم اُن کی فٹنس تو چیک کرلی جاتی۔ پہلے تو 8.4 اوور میں 87 رنز دیکر چیمپئنز ٹرافی کے مہنگے ترین گیند باز ثابت ہوئے پھر انجرڈ ہوکر میدان سے باہر چلے گئے جس کی وجہ سے قومی ٹیم کو ایک بلے باز کی کمی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

معاملہ صرف جنید کی جگہ وہاب کو کھلانے کا ہی نہیں ہے، بلکہ فہیم اشرف کی وجہ عماد وسیم کو نوازنے کا بھی ہے۔ ہم گزشتہ ڈیڑھ سے دو سال سے یہ رونا رو رہے ہیں کہ قومی ٹیم میں ایک ہارڈ ہٹر کی اشد ضرورت ہے، اور جب یہ ضرورت بنگلہ دیش کے خلاف وارم اپ میچ میں پوری محسوس ہوتی نظر آئی تو اہم ترین میچ میں اِس کمی کو پورا کرنے کے بجائے وہی استعمال شدہ کارتوس کو منتخب کیا جو اسٹائل میں تو ہیرو ہیں مگر کارکردگی میں مسلسل زیرو ثابت ہورہے ہیں۔ اگر کل کے میچ میں عماد وسیم کی کارکردگی پر بات کی جائے تو جناب نے 9.1 اوور میں 66 رنز دیے۔ چلیں اگر گیند بازی میں ناکامی ہوئی تو ٹیم کو شکست سے بچانے کے لیے بلے سے ہی کچھ سپورٹ فراہم کردیتے، لیکن نہیں جناب یہاں تو وہ اور ناکام ثابت ہوئے پہلی ہی گیند پر کیدر جادھو کو کیچ تھما کر چلے بنے۔

اب آتے ہیں سلیکشن کی تیسری خامی پر۔ یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ محمد حفیظ کی ٹیم میں جگہ صرف اُسی وقت بنتی ہے جب وہ بطور آل راونڈر کھلائے جائیں، ورنہ اُن سے اچھے بلے باز اب بھی موجود ہیں، اور حارث سہیل کو اِسی لیے لے جایا گیا ہے کہ وہ مڈل آرڈر پر ٹیم کو سنبھالا دے سکیں۔ لیکن حیرانی کی بات یہ کہ تمام گیند باز مسلسل بھارتی بلے بازوں سے پٹتے رہے مگر کپتان کی جانب سے ناجانے کیوں حفیظ سے گیند نہیں کروائی گئی۔ ارے اگر اُن سے گیند بازی نہیں کروانی تھی تو انہیں کس خوشی میں ٹیم میں شامل کیا گیا؟ کوئی ہے جو ان سوالوں کے جوابات دے؟

اِس کے علاوہ ہیڈ کوچ مکی آرتھر نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے کہ its a wake up call۔ کوئی مکی صاحب سے پوچھے کہ آخر ہم کب تک ویک اپ کال کا بہانہ بنا کر اپنی کمزوریوں اور بورڈ کی نااہلی اور بدنیتی پر پردے ڈالتے رہیں گے؟ کب تک ہم قوم کو جھوٹے دلاسے دیتے رہیں گے؟ اگر آپ ایک سال سے اِس ٹیم کو wake up call نہیں دے سکے تو اگلے دس سالوں میں بھی نہیں دے سکتے۔ یہ سچ ہے کہ بھارت سے ہارنے کی سب سے بڑی وجہ غلط سلیکشن ہے، لیکن اِس سے بھی بڑھ کر سچ یہ ہے کہ بورڈ میں بیٹھا کوئی ایک بھی فرد اِس غلط سلیکشن پر تحقیقات کا آغاز نہیں کرے گا کیونکہ یہاں کسی کو فرق ہی نہیں پڑتا کہ ہم بھارت سے مسلسل ہار رہے ہیں، بورڈ کو اپنے پیسے چاہیے اور وہ جیتنے اور ہارنے دونوں ہی صورتوں میں مل جاتے ہیں، تو بھلا کوئی بورڈ کا ذمہ دار کیونکر پریشان ہوتا پھرے۔

غلط سلیکشن کے ساتھ ساتھ کل کے میچ میں ناقص کپتانی بھی دیکھنے کو ملی۔ چونکہ ابھی سرفراز احمد بالکل نئے کپتان ہیں اور اہم ترین میچ میں کم تجربے کاری کی وجہ سے اِس طرح کی غلطیاں سرزد ہوجاتی ہیں، لیکن سرفراز کو یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ اُن کے پاس سیکھنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے، اگر ہم اِسی طرح مسلسل شکست سے دوچار ہوتے رہے تو کہیں 2019 کے ورلڈ کپ کے لیے ہمیں کوالیفائنگ راونڈ نہ کھیلنا پڑجائے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ سیکھیں کیسے؟ تو اِس سوال کا جواب بھی ہمارے پاس ہے۔ سرفراز اور کرکٹ بورڈ کو قومی ٹیم کے ماضی کے کپتانوں کی کارکردگی اور اُن کی سوچ کا بغور جائزہ لینا ہوگا، کوئی کپتان اگر کامیاب ہوا تو کیوں اور ناکام ٹھہرا تو کیوں؟ اس کامیابی اور ناکامی کو سمجھنے کے لیے آئیے قومی ٹیم کے تمام کپتانوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

آئیے تاریخ کے جھڑوکوں میں چلتے ہیں

 

عبدالحفیظ کاردار

اکتوبر 1952 میں پاکستان نے اپنا سب سے پہلا میچ کھیلا۔ یہ میچ بھارت کے شہر دہلی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا اور پانچ میچوں کی یہ سیریز بھارت نے 1-2 سے جیت لی۔ اس سیریز میں قومی ٹیم کی کپتانی عبدالحفیظ کاردار نے کی تھی۔ عبدالحفیظ کاردار 1958-1952 تک پاکستان ٹیم کے کپتان رہے۔ دنیائے کرکٹ کےمطابق یہ پاکستان کا گولڈن پیریڈ تھا۔ عبدالحفیظ کاردار کی کپتانی کا انداز منفرد تھا۔ انہوں نے کھلاڑیوں سے جو بات کہنی ہوتی وہ ایک کاغذ پر لکھ کر اُن کے کمرے کے دروازے پر چپکا دیتے تھے اور اُن کی ہر بات کے ساتھ متاثر کن اقوال زریں بھی شامل ہوتے تھے جو کھلاڑیوں کا خون گرمائے رکھتے تھے۔ پاکستان نے اُن کی سربراہی میں 23 ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے 6 ہارے 6 جیتے جبکہ 11 میچز بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔

 

فضل محمود

پاکستان ٹیم کے دوسرے کپتان فضل محمود تھے۔ اِن کی کپتانی میں پاکستان کرکٹ تنازعات کا شکار رہی۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ فضل محمود کا جھگڑالو ہونا اور ہر وقت بد اعتمادی کی فضا قائم کیے رکھنا تھا۔ اُن کی کپتانی میں قومی ٹیم نے 10 ٹیسٹ میچز کھیلے جن میں سے 2 جیتے 2 ہارے اور 6 ڈرا ہوئے۔

 

امتیاز احمد

پاکستان کے تیسرے کپتان امتیاز احمد تھے جو 62 سے 1961 تک کپتان رہے۔ اِن کی کپتانی میں کوئی خاص بات نہیں تھی۔ اِن کی سربراہی میں پاکستان نے 4 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 2 ہارے اور 2 ڈرا ہوئے۔

 

جاوید برقی

پاکستان کے چوتھے کپتان جاوید برقی تھے جن کو 1962 میں ذمہ داریاں دی گئیں۔ یہ 24 سال کی عمر میں پاکستان کے کپتان بنے، اِس لحاظ سے یہ آج تک سب سے کم عمر کپتان ہیں لیکن اِن کی شخصیت میں کپتانی والی کوئی بات نہیں تھی بلکہ یہ اپنے سینئرز کے ساتھ بدتمیزی کرنے کے حوالے سے زیادہ مشہور ہوئے۔ اِن کی کپتانی میں پاکستان نے 5 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 4 ہارے اور 1 ڈرا ہوا۔

 

حنیف محمد

اِس کے بعد حنیف محمد پاکستان کے پانچویں کپتان بنے۔ اِن کی سربراہی میں پاکستان نے 11 ٹیسٹ میچ کھیلے جن میں سے 2 جیتے، 2 ہارے اور 7 ڈرا ہوئے۔ حنیف محمد 1967-1963 تک پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔ اِس دور میں ٹیم کو دوبارہ متحد ہونے کا موقع ملا۔

 

سعید احمد

سعید احمد پاکستان کے چھٹے کپتان تھے۔ یہ 1968-1967 تک ٹیم کے کپتان رہے۔ اِن کی قیادت میں قومی ٹیم نے 3 ٹیسٹ میچ کھیلے اور تینوں ہی ڈرا ہوئے۔

 

انتخاب عالم

پاکستان کے ساتویں کپتان انتخاب عالم تھے۔ یہ پاکستان کے پہلے پروفیشنل کپتان تھے اور اِن کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم نے ایک روزہ کرکٹ میں کافی جگہ بنائی۔ اِن کی سربراہی میں پاکستان نے 1 ٹیسٹ میچ جیتا، 5 ہارے اور 11 میچ ڈرا ہوئے۔ یہ 1973-1969 اور 1976-1974 تک پاکستان ٹیم کے کپتان رہے۔

 

ماجد خان

ماجد خان آٹھویں کپتان تھے اور اِن کی کپتانی میں قومی ٹیم نے 3 ٹیسٹ میچ کھیلے اور تینوں ہی ڈرا ہوئے۔ اِن کی کپتانی میں ٹیم نے دو ایک روزہ میچ بھی کھیلے جن میں سے ایک میں فتح ملی اور ایک میں شکست۔ ماجد خان 1974 تک پاکستان کے کپتان رہے۔ ماجد خان کے بعد پاکستانی کرکٹ کا گولڈن ٹائم شروع ہوگیا، اور اللہ نے پاکستانی ٹیم کی کپتانی محمد مشتاق کو سونپ دی۔

 

مشتاق محمد

مشتاق محمد اُس وقت تک کے سب سے زیادہ مثبت اپروچ رکھنے والے پروفیشنل، فرنٹ فٹ پر ٹیم کو لیڈ کرنے والے اور جیت کے لئے نئی نئی حکمت عملی بنانے والے پہلے کپتان تھے۔ آپ مشتاق محمد کی حکمت عملی کا اندازہ اِس بات سے لگالیں کہ انہوں نے بھارت کے خلاف میچ جیتنے کے لیے گیند بازوں کو مسلسل باونسرز کروانے کے لئے کہا۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھارتی بلے باز زخمی ہوتے چلے گئے اور احتجاجاً میچ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ مشتاق کی کپتانی میں پاکستان نے آسٹریلیا کو اُن کی سر زمین پر شکست دی اور 1978 میں بھارت کو بھی 0-2 سے شکست دی۔ یہ مشتاق محمد ہی تھے جنہوں نے عمران خان کو فاسٹ باؤلر بننے میں مدد کی اور جاوید میانداد کو متعارف بھی کروایا۔ مشتاق محمد کی کپتانی میں پاکستان 8 ٹیسٹ میچ جیتا، 4 ہارا اور 7 میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ اِس کے علاوہ 2 ایک روزہ میچوں میں فتح ملی اور 2 میں شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ مشتاق محمد 1977-1976 اور 1979-1978 تک پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔

 

وسیم باری

محمد مشتاق کے بعد پاکستانی ٹیم کے گیارویں کپتان وسیم باری بنے جو 1978-1977 تک اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے۔ اِن کی کپتانی میں قومی ٹیم کو کوئی فتح نصیب نہیں ہوئی، بلکہ 2 ٹیسٹ میچ شکست کا سامنا کرنا پڑا اور 4 میچ ڈرا ہوئے۔ اِن کی کپتانی میں ٹیم 1 ایک روزہ میچ جیتنی اور چار میں شکست کا سامنا ہوا۔

 

آصف اقبال

بارہویں کپتان آصف اقبال تھے جو کہ 1979 تک رہے اور اُن کی قیادت میں قومی ٹیم کو 2 ٹیسٹ میچوں میں شکست ہوئی اور 4 میچ ڈرا ہوئے۔ جبکہ دو ایک روزہ میچوں میں فتح ملی تو دو میں شکست۔

 

جاوید میانداد

اِس کے بعد پاکستان کی کپتانی جاوید میانداد کے پاس چلی گئی۔ آپ تیرھویں کپتان تھے۔ اِن کی کپتانی کا زیادہ فوکس مخالف ٹیم کو جگتوں طعنوں اور جملے کس کر اُنہیں نفسیاتی دباؤ میں لانا ہوتا تھا۔ میانداد کا ایک کارنامہ یہ تھا کہ انہوں نے وسیم اکرم کو متعارف کروایا۔ پاکستان نے جاوید میانداد کی کپتانی میں 14 ٹیسٹ میچ جیتے، 5 ہارے اور 14 میچ ڈرا ہوئے۔ 62 ون ڈے میچوں میں سے 26 جیتے اور 33 میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ 1980ء سے لے کر 1993ء تک مختلف ادوار میں پاکستان کے کپتان رہے۔

 

ظہیر عباس

پاکستان کے چودھویں کپتان ظہیر عباس تھے۔ اِن کی کپتانی میں قومی ٹیم نے 3 ٹیسٹ میچ جیتے، ایک میں شکست ملی جبکہ 10 میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ اِس کے علاوہ 13 ایک روزہ میچوں میں سے 7 میں فتح ملی اور پانچ میں شکست۔ یہ 1984-1983 تک پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔

 

عمران خان

ظہیر عباس کے بعد پاکستانی کرکٹ کا عروج شروع ہوا، اور عمران خان پاکستان کے پندرہویں کپتان بن گئے۔ عمران خان کی کپتانی کی خاص بات یہ تھی کہ میچ شروع ہونے سے پہلے اپنے کھلاڑیوں کی صلاحیتوں کو یوں بڑھا چڑھا کر بیان کرتے تھے کہ مخالف ٹیم میچ شروع ہونے سے پہلے ہی دباو میں آجاتی تھی۔ مثال کے طور پر 1989ء میں آسٹریلیا ٹور سے پہلے عمران خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان کے پاس منظور الہی ایک ایسا تیز بیٹسمین ہے کہ پوری دنیا میں اُس سے تیز بلے باز پیدا نہیں ہوا، جبکہ منظور الہی ایک اوسط درجے کا بلے باز تھا۔ لیکن عمران خان کی پریس کانفرنس نے آیسٹریلوی ٹیم پر اِس قدر پریشر ڈالا کہ منظور الہی کے آتے ہی آسٹریلوی کپتان نے تمام فیلڈرز باؤنڈری پر بھیج دیے اور منظور الہی خالی جگہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آرام سے ڈبل اور ٹرپل رنز بنانے میں کامیاب رہے۔

اِسی طرح 1988 میں عمران خان نے شارجہ میں پاک بھارت میچ شروع ہونے سے پہلے بھارتی ٹیم کو للکارا کہ میں بھارت کو چیلنج کرتا ہوں کہ کشمیر کا فیصلہ پاک بھارت میچ کے نتیجے پر رکھ لے، کیونکہ بھارت کچھ بھی کرلے ہمیں کرکٹ میں ہرا نہیں سکتا۔ عمران خان کی کپتانی میں قومی ٹیم 14 ٹیسٹ میچ جیتی، 8 میں شکست کا سامنا ہوا اور 26 میچ ڈرا ہوئے۔ ایک روزہ میچوں میں 75 میں فتح ملی اور 69 میں شکست کا سامنا ہوا۔

 

وسیم اکرم

وسیم اکرم پاکستان کے سترہویں کپتان تھے۔ اُن کی کپتانی میں قومی ٹیم 12 ٹیسٹ میچ جیتی، 8 میں شکست ہوئی جبکہ 5 میچ بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئے۔ دوسری طرف 109 ون ڈے میچوں میں سے 66 میں فتح ملی اور 41 میچوں میں شکست کا سامنا ہوا۔ وسیم اکرم 1993 سے لے کر 1999 تک مختلف ادوار میں پاکستان کے کپتان رہے۔

 

سلیم ملک

پاکستان کے اٹھارویں کپتان سلیم ملک تھے۔ اُن کے دور میں پاکستان 7 ٹیسٹ میچ جیتا، 3 ہارا اور 2 میچ ڈرا ہوئے۔ اِس کے علاوہ 21 ایک روزہ میچ جتنے اور 11 میں شکست ہوئی۔ یہ 1995-1994 تک پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔

 

رمیض راجہ

رمیض راجہ پاکستان کے انیسویں کپتان تھے۔ اِن کی کپتانی میں پاکستان 1 ٹیسٹ میچ جیتا، 2 ہارا اور 2 میچ ڈرا ہوئے۔ اِس کے علاوہ 7 ایک روزہ میچ جیتا جبکہ 13 میں شکست ہوئی۔ یہ 1997-1995 کے مختلف دور میں پاکستان کے کپتان رہے۔

 

سعید انور

سعید انور پاکستان کے بیسویں کپتان تھے اور اُن کی کپتانی میں پاکستان 1 ٹیسٹ میچ جیتا، 4 ہارا اور 2 میچ ڈرا ہوئے۔ ون ڈے میچوں میں 5 میں فتح ہوئی اور 6 میں شکست۔

 

عامر سہیل

عامر سہیل اکیسویں کپتان تھے اور اِن کی سربراہی میں پاکستان 1 ٹیسٹ میچ جیتا، 2 ہارا اور 3 ڈرا ہوئے، اور ون ڈے میچوں میں 12 ہارا اور 9 جیتا۔ یہ 1998ء میں پاکستان کے کپتان رہے۔

 

معین خان

معین خان پاکستان کے بائیسویں کپتان تھے۔ اِن کی سربراہی میں پاکستان نے 4 ٹیسٹ میچ جیتے، 2 ہارے اور 7 ڈرا ہوئے۔ 20 ون ڈے جیتے اور چودہ ہارے۔ یہ 1997 سے 2001 تک مختلف ادوار میں پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔

 

وقار یونس

وقار یونس پاکستان کے تئیسویں کپتان تھے۔ اِن کی سربراہی میں قومی ٹیم نے 10 ٹیسٹ میچ جیتے اور 7 ہارے۔ اِس کے علاوہ 62 ون ڈے میچوں میں 37 جیتے اور 23 ہارے۔ یہ 2003-2001 تک پاکستانی ٹیم کے کپتان تھے۔

 

راشد لطیف

راشد لطیف 2004-2003 تک پاکستان کے کپتان رہے۔ یہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کے چوبیسویں کپتان تھے۔ پاکستان 4 ٹیسٹ میچ جیتا، 1 ہارا اور 1 ڈرا ہوا۔ اِس کے علاوہ 13 ایک روزہ میچ جیتے اور 12 میں شکست ہوئی۔

 

انضمام الحق

انضمام الحق پاکستان کے پچسویں کپتان تھے۔ اِن کے دور میں پاکستان 11 ٹیسٹ میچ جیتا، 11 میں ہی شکست ہوئی اور 9 میچ ڈرا ہوئے۔ اِس کے علاوہ 87 ون ڈے میچوں میں 51 جیتا اور 33 ہارا، اور ایک ٹی ٹونٹی میچ جیتا۔ انضمام 2007 سے 2003 تک پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔

 

شعیب ملک

شعیب ملک پاکستانی کرکٹ کے چھبیسویں کپتان تھے۔ اِن کے دور میں پاکستان 2 ٹیسٹ میچ ہارا اور 1 ڈرا ہوا۔ 36 ون ڈے میچوں میں سے 24 جیتا اور 12 ہارا جبکہ 17 ٹی ٹونٹی میچوں میں سے 12 جیتا اور 4 ہارا۔ شعیب ملک 2008 سے 2007 تک پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔

 

یونس خان

یونس خان 09-2004 تک پاکستانی ٹیم کے ستائیسویں کپتان رہے اور پاکستان نے ان کی کپتانی میں 2009 کا ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ جیتا۔ 9 ٹیسٹ میچوں میں سے 1 جیتا، 3 ہارے اور 5 ڈرا ہوئے۔ 21 ون ڈے میچوں میں سے 8 جیتے اور 13 ہارے۔ 8 ٹی ٹوئنٹی میچوں میں سے پانچ جیتا اور تین ہارے۔

 

محمد یوسف

محمد یوسف اٹھائیسویں کپتان تھے اور پاکستان اِن کی کپتانی میں 2 ٹیسٹ میچ جیتا، 6 ہارا اور 1 ڈرا ہوا۔ 8 ون ڈے میں سے 6 ہارا اور 2 جیتا۔ یہ 2009 سے 2010 میں پاکستانی ٹیم کے کپتان رہے۔

 

شاہد آفریدی

شاہد آفریدی پاکستانی ٹیم کے انتیسویں کپتان تھے اور اِن کی سربراہی میں پاکستانی ٹیم 1 ٹیسٹ میچ ہاری۔ 38 ون ڈے میچوں میں سے 19 جیتی اور 18 ہاری۔ ٹی ٹوئنٹی میچوں میں سے 15 جیتی اور 15 ہاری۔ یہ 15-2013 تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔

 

سلمان بٹ

سلمان بٹ تیسویں کپتان تھے اور پاکستان ان کی سربراہی میں 2 ٹیسٹ جیتا اور 3 ہارا۔

 

مصباح الحق

مصباح الحق پاکستانی کرکٹ ٹیم کے اکتیسویں اور سب سے کامیاب کپتان تھے اور پاکستان اِن کی سربراہی میں 26 ٹیسٹ میچ جیتا، 17 ہارا اور 11 ڈرا ہوئے۔  45 ون ڈے جیتے اور 39 ہارے۔ 6 ٹی ٹونٹی جیتے اور 2 ہارے۔ مصباح الحق 2017 سے 2011 تک پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان رہے۔

 

اظہر علی

اظہر علی پاکستانی ٹیم کے بتسویں کپتان تھے اور فروری 2017 سے سرفراز احمد کو پاکستان کا تیتسواں کپتان بنایا گیا اور پاکستانی کرکٹ ٹیم اِن کی سربراہی میں ہی قومی ٹیم گزشتہ روز بھارت سے میچ ہار گئی ہے۔

آپ پاکستان کے ان 33 کپتانوں کی کامیابی کا ریکارڈ سامنے رکھیں تو آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ صرف 4 کپتان ایسے ہیں جنہیں فور اسٹار کپتانوں کا درجہ دیا گیا ہے اور اِن میں عبدالحفیظ کاردار، مشتاق محمد، عمران خان اور مصباح الحق شامل ہیں اور باقی 29 کپتان اتنی کامیابیوں کے باوجود خود کو فور اسٹار کیٹیگری میں شامل کیوں نہیں کرسکے؟ اِس بات کو سمجھنے کے لئے ہمیں اِن چار کپتانوں کی سوچ اور طریقہ واردات کو سمجھنا ہوگا۔ یہ چار کپتان صرف کپتان نہیں تھے بلکہ قوم کے ہیرو بھی تھے۔ اِن چاروں کپتانوں میں ایک چیز مشترک تھی اور وہ یہ تھی کہ یہ سب مستقل مزاج تھے۔ یہ مخالف ٹیم کو باقاعدہ دشمن سمجھتے تھے اور دشمن کو ہرانے کی حکمت عملی ہر مرتبہ نئی ہوتی تھی۔

یہ اپنے کھلاڑیوں کو دنیا کے بہترین کھلاڑی ہونے کا یقین دلاتے تھے۔ یہ اپنی ٹیم کو یقین دلاتے تھے کہ چاہے تم میچ ہار جاؤ لیکن تمہارا جزبہ مدھم نہیں پڑنا چاہیئے۔ اُن کا ایمان تھا کہ کھیل کی آخری گیند تک کوئی ہارتا ہے اور نہ کوئی جیتتا ہے۔ یہ اپنے ساتھیوں کو یقین دلاتے تھے کہ انسان اُس وقت تک نہیں ہارتا جب تک وہ خود ہار نہ مان لے۔ انہوں نے اپنے کھلاڑیوں کو ہیرو بنایا، کیونکہ یہ جانتے تھے کہ کھلاڑی کے کھیل سے زیادہ اُن کا امیج اہم ہوتا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی بڑے کھلاڑی گزرے ہیں انہوں نے اپنے کھیل کے ساتھ ساتھ اپنے امیج کو بھی اتنی ہی اہمیت دی ہے۔

آپ کچھ بھی کہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج پاکستانی ٹیم میں ایک بھی ہیرو نہیں ہے۔ ہم کھلاڑی پیدا کرنے کی دوڑ میں لگے ہوئے ہیں اور بھارتی ٹیم میں ہیروز کی لمبی لائن پیدا ہوچکی ہے۔ ہماری ٹیم میں کوئی ایک بھی ایسا کھلاڑی نہیں ہے جس کے اسٹیڈیم میں آتے ہی شائقین خوشی سے جھوم اٹھیں اور جس کا کھیل دیکھنے کے لئے عوام سارے کام چھوڑ دے۔ اِس کے برعکس انڈیا کی ٹیم میں ایسے کھلاڑیوں کی لمبی فہرست موجود ہے، چاہے بات ویرات کوہلی کی ہو، یووراج سنگھ کی اور مہیندرا سنگھ دھونی کی۔ اِن کھلاڑیوں کی کرکٹ دیکھنے کے لئے دنیا سانسیں روک لیتی ہے۔

میری پاکستان کرکٹ بورڈ کے حکام سے گزارش ہے کہ وہ کھلاڑی تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے ہیروز بھی پیدا کریں اور جب تک آپ کو کوئی نیا ہیرو نہیں مل جاتا تب تک پرانے ہیروز کو ریٹائرمنٹ مت لینے دیں، کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ آج کی کرکٹ میں اگر ہیرو نہیں ہوگا تو میچ دیکھنے میں دلچسپی پیدا نہیں ہوسکتی۔

اِس کے علاوہ میری آپ سے یہ بھی گزارش ہے کہ کسی کو بھی کپتان بنانے سے پہلے اِن چار کپتانوں کی زندگی اور کپتانی کا گہرا مشاہدہ ضروری قرار دیں، اور جو کامیابی کے طریقے انہوں نے استعمال کیے ہیں انہیں کپتانی کے سنہرے اصولوں کے نام سے متعارف کرایا جائے، تاکہ ہماری آنے والی نسلیں بھارت کے کھلاڑیوں کی مثالیں دینے کی بجائے اپنے لیجینڈز کی مثالیں دیں اور پاکستانی کرکٹ پھر سے اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے۔

اِن سب باتوں میں سب سے اہم بورڈ کی نیت کو ٹھیک کرنا ہے، کیونکہ اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور اگر نیت ٹھیک نہیں تو آپ چاہے 50 لوگوں کی ٹیم انڈیا کے خلاف کھلالیں آپ جیت نہیں سکتے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔