نوبل انعام کے حق دار کون؟

ڈاکٹر یونس حسنی  منگل 6 جون 2017

دراصل ہمارا ماتھا تو اسی وقت ٹھنکا تھا جب کسی انتہا پسند یا منصوبہ بند نے اسکولوں کی چند کم سن طالبات پر حملہ کرکے ان کو زخمی کردیا تھا۔ اس میں سے ایک ملالہ یوسف زئی تھی۔ شاید دو اور لڑکیاں بھی شدید زخمی ہوئی تھیں مگر ان پر کسی کی نظر کرم نہ تھی اور ملالہ یوسف زئی شہ سرخیوں کا موضوع بنی رہیں۔

شدید زخمی ہونے کے باعث ان کو علاج کے لیے بیرون ملک سہولتوں کی پیش کش ہوئی اور بالآخر وہ اپنے پورے خاندان کے ساتھ بیرون ملک روانہ ہوگئیں اور ان کے ساتھ زخمی ہونے والی دیگر طالبات ایک پس ماندہ ملک کے نظام معالجہ کے لیے یہیں چھوڑ دی گئیں۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ وہ زیادہ زخمی نہیں ہیں۔

ہمارے بدنصیب ملک میں اس وقت تو بڑی تعداد میں لوگ قتل کیے جا رہے تھے۔ اب بھی قصوروار اور بے قصور کسی کی نظر میں آتے ہی مارے جاتے ہیں اور وجہ ٹارگٹ کلنگ قرار دے کر قصہ ختم کر دیا جاتا ہے۔

مگر ملالہ یوسف زئی پر حملہ پوری انسانیت پر حملہ بن گیا، یورپ اور امریکا میں ہلچل مچ گئی، ایک طرف لوگ اس لڑکی کی جرأت و بہادری کے قصیدہ خواں تھے تو دوسری طرف اسے زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے لیے اس طرح بے چین تھے جیسے شاید وہ اپنی اولاد کے لیے نہ رہے ہوں۔

ہمارا نشریاتی نظام بھی بڑا پرلطف ہے۔ اپنے ملک میں ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے تحقیق وتفتیش میں اس طرح لگ جاتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے پاکستان بہت مستحکم محققین کا ملک ہے، مگر دوسری طرف اگر معاملہ مغرب کا ہو تو پھر منصور کے پردے میں خدا بولنے لگتا ہے۔ یہ مغرب کے ساتھ آواز میں آواز ملانا اور سُر اور راگ میں ہم آہنگی پیدا کرنا اپنا طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں چنانچہ ملالہ کے راگ پاکستانی ذرایع ابلاغ بھی الاپتے رہے۔

ہمارا اصول یہ ہے کہ اگر آپ کا دشمن کسی چیز یا شخص کی تعریف کر رہا ہے اور خصوصاً اس وقت جب وہ آپ سے متعلق ہو تو دال میں کچھ کالا ہوتا ہے۔ یہ ہمارا اصول کیا ہے دراصل یہ ایک فطرت کا معینہ اور مقررہ اصول ہے۔ اس لیے جب اہل مغرب نے ملالہ پر انعامات کی بارشیں کردیں یہاں تک کہ اسے نوبل انعام سے نوازا گیا تو بھی ہم خاموش رہے کیونکہ ہم ملالہ کے پس پشت معاملات سے آگاہ نہ تھے، البتہ فطرت کے معینہ اور مقررہ اصول نے جو بصیرت ہمیں عطا کی تھی اس کے سبب ہم نے کبھی اپنی زبان و قلم کو ملالہ کی تعریف و توصیف سے ملوث نہ کیا۔

ہماری عقل ملالہ کو نوبل انعام دینے کو قبول نہیں کرتی تھی۔ بظاہر ایک لڑکی پر (نہیں بلکہ چند لڑکیوں پر) اس لیے فائرنگ کردی گئی کہ کچھ انتہا پسند ان کی تعلیم سے دلچسپی کو پسند نہیں کرتے تھے۔ گولی ملالہ کو زیادہ نقصان پہنچا گئی۔ مگر یہ بہادری تو ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ دکھا چکے ہیں اور دکھا رہے ہیں۔ دہشتگردوں کے ہاتھوں نہ جانے کتنے لوگ جو ان کے ناپسندیدہ ہوتے ہیں مرتے ہی رہتے ہیں۔

ایک دن اخبار میں خبر آتی ہے اور دوسرے دن اخبار بازار کے بھاؤ اور ثقافتی سرگرمیوں سے بھرے ہوتے ہیں۔ آخر ملالہ نے کیا کارنامہ انجام دیا تھا کہ علامہ اقبال پوری زندگی ایک عظیم شاعری میں سر کھپا گئے اور اردو تو اردو دنیا کی بہت سی زبانیں ایسے عظیم شاعر سے محروم رہیں مگر یہ شاعر نوبل انعام نہیں حاصل کرسکا کیونکہ اقبال مغربی مفادات کے اسیر نہ ہوسکے۔ یہ کام ملالہ یوسف زئی کر گئیں اور تاریخ میں کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ لڑکی قرار پائیں جس کے نامۂ اعمال میں سرے سے کوئی کارنامہ ہی نہیں۔

ہم اس پر حیرت زدہ تھے اور اس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے کہ غیب سے مدد آ پہنچی۔ سوات کے شاہی خاندان کی ایک رکن اور پارلیمنٹ کی ممبر مسرت احمد زیب نے چند ٹوئیٹ کیے اور روشن خیالوں، مغرب نوازوں بلکہ متاثرین مغرب کی دنیا میں بھونچال آ گیا۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ شاہی خاندان کے افراد کی پشتیں گزر جائیں ان کی حکومتیں فنا ہو جائیں مگر ان میں ایک وقار اور بعض قدروں پر انحصار رہتا ہے اور ٹچا پن انھیں چھو کر نہیں جاتا۔

ہوا یہ کہ سوات ہی کی ایک لڑکی زرمینہ وزیر سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھی اور اس نے اس امتحان میں جو بڑی وقعت کا حامل ہوتا ہے ٹاپ کیا تو کسی نے اسے دوسری ملالہ کہہ ڈالا۔ واقف حال مسرت احمد زیب نے ٹوئیٹ کے ذریعے کہا کہ چہ نسبت خاک را بہ عالم پاک، زرمینہ وزیر کو ملالہ یوسف زئی سے نہ ملایا جائے کیونکہ آخر الذکر تو یورپ کی فیکٹری کا زائدہ روبوٹ ہے۔ (خیال رہے کہ الفاظ ہمارے اور مفہوم مسرت احمد زیب صاحبہ کا ہے) اور انھوں نے بتایا کہ بی بی سی کو ایک ایسی لڑکی کی ضرورت تھی جو اپنی زبان سے یہ بات کہہ سکے کہ سوات پاکستان کی عملداری سے نکل کر انتہا پسندوں کے ہاتھ میں جا چکا ہے اور اب وہاں پاکستان کی رٹ موجود نہیں۔ یہاں اب جہل کے اندھیرے ہیں۔ اس بات کو کہنے والی اداکارہ کا فرضی نام ’’گل مکئی‘‘ رکھا گیا۔ اس کی مفروضہ ڈائری اس وقت لکھی گئی جب ابھی ملالہ کو لکھنا پڑھنا بھی نہیں آتا تھا اور یہ ڈائری ملالہ عرف گل مکئی سے منسوب کر دی گئی۔ لکھی یہ بی بی سی کے ایک اور نمایندے نے تھی۔

ملالہ پر انعامات کی جو بارش ہوئی، جو اعزازات ان پر نچھاور کیے گئے وہ خالی ازعلت نہیں۔ ہمارے ایک بقراط دوست ہیں، فرمانے لگے اہل یورپ ہماری طرح صرف کل تک کے لیے نہیں سوچتے وہ برسوں تک کی منصوبہ بندی کرتے ہیں ہمارے ملک کا یہ بھی اعزاز ہے کہ ہمارے یہاں وزیر اعظم بھی درآمد ہوتے رہے ہیں۔ محمد علی بوگرہ، معین قریشی اور شوکت عزیز اس کی تابندہ مثالیں ہیں۔

بات چونکہ بقراطی کی تھی ہم سمجھ نہ سکے۔ ان کا منشا اس سے کیا تھا اور اس بات کا تعلق ملالہ یوسف زئی سے کیوں کر بنتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔