- کراچی ایئرپورٹ سے جعلی دستاویزات پر بیرون ملک جانے والے 2 مسافر گرفتار
- ججوں کے خط کا معاملہ، سنی اتحاد کونسل کا قومی اسمبلی میں تحریک التوا جمع کرانے کا فیصلہ
- ضلع بدین کے ماحولیاتی نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق
- غیرمتعلقہ پاسپورٹ برآمد ہونے پر پی آئی اے کی ایئر ہوسٹس کینیڈا میں گرفتار
- اگلے ماہ مہنگائی کی شرح کم ہو کر 21 سے 22 فیصد کے درمیان رہنے کا امکان
- اقتصادی بحالی اور معاشی نمو کے لیے مشاورتی تھنک ٹینک کا قیام
- اے ڈی ایچ ڈی کی دوا قلبی صحت کے لیے نقصان دہ قرار
- آصفہ بھٹو زرداری بلامقابلہ رکن قومی اسمبلی منتخب
- پشاور: 32 سال قبل جرگے میں فائرنگ سے نو افراد کا قتل؛ مجرم کو 9 بار عمر قید کا حکم
- امیرِ طالبان کا خواتین کو سرعام سنگسار اور کوڑے مارنے کا اعلان
- ماحول میں تحلیل ہوکر ختم ہوجانے والی پلاسٹک کی نئی قسم
- کم وقت میں ایک لیٹر لیمو کا رس پی کر انوکھے ریکارڈ کی کوشش
- شام؛ ایئرپورٹ کے نزدیک اسرائیل کے فضائی حملوں میں 42 افراد جاں بحق
- انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے مقابلے میں روپیہ مزید مضبوط
- پی ٹی آئی قانونی ٹیم کا چیف جسٹس اور جسٹس عامر فاروق سے استعفی کا مطالبہ
- اہم چیلنجز کا سامنا کرنے کیلیے امریکا پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا، جوبائیڈن کا وزیراعظم کو خط
- عالمی اور مقامی مارکیٹوں میں سونے کی قیمت میں بڑا اضافہ ہوگیا
- اسٹاک مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ کے بعد مندی، سرمایہ کاروں کے 17ارب ڈوب گئے
- پشاور بی آر ٹی؛ ٹھیکیداروں کے اکاؤنٹس منجمد، پلاٹس سیل کرنے کے احکامات جاری
- انصاف کے شعبے سے منسلک خواتین کے اعداد و شمار جاری
فلموں کا معیار بہتر بنانے کیلیے ڈریس ڈیزائنرز کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہیں، مہرین سید
لاہور: اداکارہ وماڈل مہرین سیدنے کہا ہے کہ فلموں میں حقیقت کے رنگ بھرنے کے لیے جس طرح کہانی اورکردارکا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح ان کرداروں کے مطابق اگران کے ملبوسات بھی تیارکیے جائیں تووہ ’ سونے پہ سہاگہ ‘ کا کام کرتے ہیں۔
’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگوکرتے ہوئے مہرین سید نے کہا کہ دیکھا جائے توہالی وڈ اوربالی وڈ میں بننے والی فلموں کے کرداروں کی ڈریسنگ پرخاص توجہ دی جاتی ہے۔ جس کے ذریعے کردارکی اپنی ایک منفرد جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ فلموں میں اب توسکرپٹ اورلوکیشنزکے مطابق ڈریس تیار کرتا ہے جس سے فلم کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بدقمستی سے ہمارے ہاں اس اہم شعبے پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے فلم بینوں کی بڑی تعداد سینما گھروں سے باہر نکلتے ہوئے آوازیں کستی دکھائی دیتی ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ 1947ء کے دور کی کہانی میں موجودہ دور کے ملبوسات دیکھ کرفلم بین ’’ قہقہے‘‘ نہیں لگائیں تواورکیا کریں ؟ موجودہ دورکی فلموں میں ایک مخصوص انداز کی ڈریسنگ دیکھ کرمایوسی ہوتی ہے۔ اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں پاکستان فلم انڈسٹری کو دیگر تکنیکی شعبے کی طرح ملبوسات کے شعبے میں بھی بہتری لانی کی ضرورت ہے۔ فلموں کے معیارکوبہتربنانے کے لیے ڈریس ڈیزائنرکی خدمات حاصل کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اس حوالے سے نوجوان نسل کے معروف فیشن ڈیزائنرز صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ وہ ہمارے چاروں صوبوں کے رسم ورواج اورملبوسات کو سمجھتے ہیں اوراس کے مطابق بہترین انداز میں فلم کے لیے نئے ملبوسات ڈیزائن کرسکتے ہیں۔
مہرین نے کہا کہ اب وقت اوراس کی ڈیمانڈ بدل چکی ہے۔ فارمولا فلموں کے بجائے اگرجدید طرز کی فلمیںبنائی جائیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ملک کا خوبصورت کلچر متعارف کرواسکیں، تواس سے بہترکوئی بات نہیں ہوگی۔ اپنا کلچراس وقت تک دنیا تک نہیں پہنچ پائے گا، جب تک ہماری فلموں میں ہمارے اپنے ملبوسات، میوزک اور بولیاں شامل نہیں کی جائیں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔