- سیاسی نظریات کی نشان دہی کرنے والا اے آئی الگوردم
- خاتون ڈاکٹرز سے علاج کرانے والی خواتین میں موت کا خطرہ کم ہوتا ہے، تحقیق
- برطانیہ میں ایک فلیٹ اپنے انوکھے ڈیزائن کی وجہ سے وائرل
- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
فلموں کا معیار بہتر بنانے کیلیے ڈریس ڈیزائنرز کی خدمات حاصل کرنا ضروری ہیں، مہرین سید
لاہور: اداکارہ وماڈل مہرین سیدنے کہا ہے کہ فلموں میں حقیقت کے رنگ بھرنے کے لیے جس طرح کہانی اورکردارکا مضبوط ہونا ضروری ہوتا ہے، اسی طرح ان کرداروں کے مطابق اگران کے ملبوسات بھی تیارکیے جائیں تووہ ’ سونے پہ سہاگہ ‘ کا کام کرتے ہیں۔
’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگوکرتے ہوئے مہرین سید نے کہا کہ دیکھا جائے توہالی وڈ اوربالی وڈ میں بننے والی فلموں کے کرداروں کی ڈریسنگ پرخاص توجہ دی جاتی ہے۔ جس کے ذریعے کردارکی اپنی ایک منفرد جھلک دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ فلموں میں اب توسکرپٹ اورلوکیشنزکے مطابق ڈریس تیار کرتا ہے جس سے فلم کی خوبصورتی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ بدقمستی سے ہمارے ہاں اس اہم شعبے پرکبھی توجہ نہیں دی گئی۔ جس کی وجہ سے فلم بینوں کی بڑی تعداد سینما گھروں سے باہر نکلتے ہوئے آوازیں کستی دکھائی دیتی ہے۔
اداکارہ نے کہا کہ 1947ء کے دور کی کہانی میں موجودہ دور کے ملبوسات دیکھ کرفلم بین ’’ قہقہے‘‘ نہیں لگائیں تواورکیا کریں ؟ موجودہ دورکی فلموں میں ایک مخصوص انداز کی ڈریسنگ دیکھ کرمایوسی ہوتی ہے۔ اس سے ایک بات ثابت ہوتی ہے کہ جہاں پاکستان فلم انڈسٹری کو دیگر تکنیکی شعبے کی طرح ملبوسات کے شعبے میں بھی بہتری لانی کی ضرورت ہے۔ فلموں کے معیارکوبہتربنانے کے لیے ڈریس ڈیزائنرکی خدمات حاصل کرنا بھی وقت کی اہم ضرورت بن چکا ہے۔ اس حوالے سے نوجوان نسل کے معروف فیشن ڈیزائنرز صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ وہ ہمارے چاروں صوبوں کے رسم ورواج اورملبوسات کو سمجھتے ہیں اوراس کے مطابق بہترین انداز میں فلم کے لیے نئے ملبوسات ڈیزائن کرسکتے ہیں۔
مہرین نے کہا کہ اب وقت اوراس کی ڈیمانڈ بدل چکی ہے۔ فارمولا فلموں کے بجائے اگرجدید طرز کی فلمیںبنائی جائیں، جس کے ذریعے ہم اپنے ملک کا خوبصورت کلچر متعارف کرواسکیں، تواس سے بہترکوئی بات نہیں ہوگی۔ اپنا کلچراس وقت تک دنیا تک نہیں پہنچ پائے گا، جب تک ہماری فلموں میں ہمارے اپنے ملبوسات، میوزک اور بولیاں شامل نہیں کی جائیں گی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔