مشرق وسطیٰ کی بگڑتی ہوئی صورتحال

ایڈیٹوریل  بدھ 7 جون 2017
قطر اس اتحاد میں شامل ہے لیکن اب اس فوجی اتحاد کی بقا پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ فوٹو : فائل

قطر اس اتحاد میں شامل ہے لیکن اب اس فوجی اتحاد کی بقا پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ فوٹو : فائل

سعودی عرب سمیت 6ممالک نے قطر پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کی حمایت اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے اس سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ جن ملکوں نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا ہے‘ ان میں متحدہ عرب امارات‘ بحرین‘ مصر‘ یمن اور لیبیا شامل ہیں۔ قطر پر جو الزامات لگائے گئے ہیں‘ وہ انتہائی سنجیدہ ہیں جس کے باعث مشرق وسطیٰ میں تشویشناک صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ چند روز پہلے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں39ملکوں کا فوجی اتحاد عمل میں آیا تھا‘ اس اتحاد کا مقصد مسلم ملکوں کا متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنا ہے۔

قطر اس اتحاد میں شامل ہے لیکن اب اس فوجی اتحاد کی بقا پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اب یہ فوجی اتحاد دہشت گردی کے خلاف موثر ثابت ہو گا۔ یہ سوال بھی ہے کہ جن 6ملکوں نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کیے ہیں‘ کیا اسلامی فوجی اتحاد میں شامل دیگر ممالک بھی ایسا ہی کریں گے‘ اس حوالے سے سرے دست کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کے درمیان شدید اختلافات ہیں۔ سعودی عرب نے قطر پر ایرانی حمایت یافتہ شدت پسند گروپوں کے ساتھ اس کے مشرقی علاقوں قطیف اور بحرین میں تعاون کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ اپنے آبی‘ زمینی اور ہوائی راستے بند کر دیے ہیں۔ سعودی سرکار خبر رساں ایجنسی (ایس پی اے) کے حوالے سے میڈیا میں یہ خبر سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب کے فیصلے کی وجہ قطر کی القاعدہ‘ اخوان المسلمین اور داعش جیسی تنظیموں اور باغی ملیشیا کی حمایت ہے اور قطر کے ان اقدامات کی وجہ سے دہشت گردی میں اضافہ ہو رہا ہے۔

مسلم ممالک کے درمیان خاصے عرصے سے اختلافات چلے آ رہے ہیں‘ آج مسلم دنیا جن مسائل سے دوچار ہے‘ اس کی وجہ باہمی اختلافات ہیں‘ 6اسلامی ملکوں کے فیصلے کے بعد پاکستان کے لیے بھی مشکل صورت حال پیدا ہو گئی ہے‘ پاکستان کے قطر کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں‘ پاکستان کے قطر کے ساتھ ایل این جی کے معاہدے ہیں‘ ادھر پاکستان سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے اسلامی فوجی اتحاد میں بھی شامل ہے‘ پاکستان کے لیے یقیناً مشکل صورتحال ہے ‘ خلیجی تعاون کونسل میں اومان واحد ملک رہ گیا ہے جس کے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم ہیں۔ ادھر قطر نے کہا ہے ہمیں سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کے فیصلے پر افسوس ہے۔ قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہمارے خلاف لگائے گئے الزامات کی کوئی بنیاد یا قانونی جوازنہیں، فیصلے سے قطری شہریوں یا رہائشیوں کی عام زندگی پرکوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ترجمان نے کہا ان اقدامات کا مقصد ہم پر اپنی مرضی کی پالیسیاں مسلط کرنا ہے جو بطور ریاست قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ قطرنے کہا ہمارے خلاف جھوٹ اور بہتان طرازی پر مشتمل مہم چلائی جارہی ہے، قطر خلیج تعاون کونسل کا رکن ہونے کے ناطے تنظیم کے منشور پر مکمل طور پر عمل پیرااور دیگر ریاستوں کی خودمختاری کا مکمل احترام کرتا ہے۔ قطر کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاملات خاصے پیچیدہ ہیں اور بعض عالمی قوتیں مشرق وسطیٰ میں حالات مزید خراب کرنا چاہتی ہیں‘ جزیرہ نما عرب کے تین ممالک خانہ جنگی کا شکار ہیں‘ ان میں شام‘ یمن اور عراق شامل ہیں جب کہ بحرین میں بھی اندرونی طور پر بے چینی پائی جاتی ہے‘ خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک خوشحالی اور پرسکون ہیں‘ اگر یہاں بھی معاملات بگڑنے شروع ہوئے تو اس کا عربوں ہی نہیں بلکہ مسلم دنیا کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

ایران نے قطر کے بائیکاٹ کے فیصلے کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ دورہ سعودی عرب کا نتیجہ قرار دیا ہے جب کہ امریکا نے کہا ہے کہ وہ خلیجی عرب ممالک کے مابین اختلافات حل کرانے کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے‘ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن اور وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہا کہ عرب ممالک کی جانب سے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے سے دہشتگردی کے خلاف جنگ متاثر نہیں ہوگی۔ سڈنی میں آسٹریلوی اور امریکی وزرائے خارجہ و دفاع کی مشترکہ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے خلیج تعاون کونسل کے رکن ملکوں پر زور دیا کہ وہ اپنے اختلافات طے کریں۔ ترکی نے مذاکرات کی ضرورت پرزودیتے ہوئے کہا ہے کہ عرب ممالک اورقطرکے درمیان تنازعہ حل کرانے کے لیے مدددینے کوتیارہیں ۔ پاکستان نے قطر کے ساتھ تعلقات ختم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلم امہ کے اتحادکے قائل ہیں، قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کاکوئی ارادہ نہیں۔اس سے پہلے کہ حالات بگڑیں پاکستان ، ترکی اور دیگر مسلم ملکوں کو  اپنا مصالحانہ کردار ادا کرنا چاہیے ، امریکا اور یورپی ملکوں کے اپنے مفادات ہیں، مسلم ملکوں کو اپنے مفادات سامنے رکھ کر باہمی اختلافات پر قابو پانا چاہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔