ہم کس طرف جا رہے ہیں؟

علی احمد ڈھلوں  بدھ 7 جون 2017
ali.dhillon@ymail.com

[email protected]

2011ء میں تیونس کے ایک گاؤںمیں ایک گریجویٹ بیروزگار نوجوان کی خود کشی نے پوری دنیا میں طوفان برپا کر دیا تھا۔یہ وہ سال تھا جب عرب بہار کا آغاز ہوا، عرب ممالک میں حالات پہلے ہی پک کر تیا ر ہو چکے تھے، صرف ایک چنگاری کی ضرورت تھی جو محمد بو عزیزی کی خود سوزی نے پوری کر دی۔ چند ہفتوں میں تیونس میں تین دہائیوںسے موجود آمریت ہوا میں ہو گئی، آمر زین العابدین بن علی14جنوری کو ملک چھوڑ کر فرار ہو گیا۔ لاکھوں عوام سڑکوں پر تھے اور حکمرانوں کے مظالم کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اس موقع پر جب فوجیوں کو گولی چلانے کا حکم دیا گیا تو وہ بھی احتجاجی مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئے۔

تیونس سے انقلاب کے شعلے مصر میں داخل ہوئے تو حسنی مبارک کی آمریت لرزنے لگی۔ آغاز میں امریکا اور دیگر سامراجی طاقتوں نے اپنے اس برسوں پرانے ساتھیوں کا بھرپور ساتھ دیا لیکن عوامی طوفانوں کے سامنے سامراجی طاقتیں بھی بے بس ہو گئیں۔ ایسی تحریکوں کا آغاز ہوا جس نے کئی ملکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ، یہاں تک کہ اسرائیل میں بھی بڑی تعداد میں نوجوان اور محنت کش سڑکوں پر آ گئے اور اپنے حکمران طبقے کے خلاف جدوجہدکا آغاز کیا، پھر ذرا ترکی کی جانب آئیے جہاں چند ماہ قبل ایک بغاوت نے جنم لیا اور طیب اردگان نے اسے ناکام بنا دیا ۔ یہ چند حالیہ واقعات بیان کرنے کا مقصد  عوامی ہڑتالوں کا ذکر کرناہے جس کی بازگشت آجکل پاکستان میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ یہ عوامی ہڑتالیں سوشل میڈیا سے جنم لیتی ہیں اور منٹوں میں اس کے نتائج بھی برآمد ہونا شروع ہو جاتے ہیں ، اب پاکستان میں بھی اس خطرناک ’’ٹرینڈ‘‘نے جنم لیا ہے جس کی بدولت عوام نے خود فیصلے کرنا شروع کر دیے ہیں۔

جیسے پھل بائیکاٹ کی مہم جو سوشل میڈیا سے شروع ہوئی اور ہمارے اصل میڈیا تک آگئی اور میڈیا نے بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور یوں کہا جاتا ہے یہ مہم کسی حد تک کامیاب ہوگئی۔ اب چند دن بعد مہنگی موبائل کالز اور ان پر ٹیکسز کے حوالے سے عوامی ردعمل دینے کی تیاریاں ہیں۔ اس کے پیچھے کون ہے ؟ کون نہیں؟یہ بحث فضول ہے ، حقیقت یہ ہے کہ عوام ان ہڑتالوں میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں، اگر اگلے مرحلے کی ہڑتالیں بھی کامیاب ہوگئیں تو سوال یہ ہے کہ حکومتی رٹ کہاں رہ جائے گی۔ اگر عوام نے دفتروں میں جانے سے انکار کردیا یا دفتروں میں موجود عملہ ایک آواز پر سٹرکوں پر نکل آیا تو اس ملک کا پہیہ کیسے چلے گا؟ اگر عوام وی آئی پی کلچر کے خلاف متحد ہو گئے اور اگر مہنگائی ، پٹرول، آٹا، چینی ، دالیںیا مہنگی سبزیوں یا یوٹیلیٹی بلز کے خلاف عوام سڑکوں پر نکل آئے یا کسان طبقہ ہی باہر نکل آیا تو حکمران کیا کر لیں گے؟ جو پہلے ہی اداروں کے سامنے جواب دینے کے لیے اپنے دن رات گزار رہے ہیں۔

میرے خیال میں حکمران شاید عوام کو بھول گئے ہیں۔ کوئی بات نہیں وہ دن دور نہیں جب عوام بھی انھیں اپنے ذہنوں سے نکال ہی دیں گے۔ حکمران خود بری طرح الجھے ہوئے ہیں جب کہ اپوزیشن صرف باتیں کر رہی ہے۔ رمضان کا مہینہ آیا، حکومت نے سبسڈی دی، اس کا فائدہ کس کو ہوا؟ کوئی علم نہیں۔ پھل مہنگا کون کر رہا ہے؟ ریڑھی والا، منڈی والا یا ’’درمیان والا‘‘ کوئی علم نہیں۔ یہ مڈل مین ہے کون؟ یہ حکومتی ٹاؤٹ تو نہیں ہوتے جو خود بھی کھاتے ہیں اور افسروں کو بھی کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’صاحب‘‘ کو بھی حصہ دینا ہے۔ یہ ٹاؤٹ ملک میں سسٹم بننے ہی نہیں دیتے ہیں۔ ہم ہر سال کروڑوں روپیہ خیراتی اداروں کو دیتے ہیں لیکن کبھی اس بات پر حکومت سے احتجاج نہیں کرتے کہ یہ سہولیات دینا آپ کی ذمے داری ہے، خیراتی اداروں کی نہیں۔ہم پرائیویٹ اسکولوں کی ہر سال بڑھتی ہوئی فیسوں پر احتجاج کرتے ہیں لیکن کبھی حکومت سے یہ نہیں پوچھتے کہ تعلیم جیسی بنیادی ضرورت کو معیاری انداز میں ہر شہری کو مہیا کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔ہم نے جنریٹرز اور یو پی ایس کی انڈسٹری کو پاکستان کی بڑی انڈسٹریز میں سے ایک بنا دیا لیکن کبھی حکومت سے یہ احتجاج نہیں کیا کہ بجلی مہیا کرنا آپ کی ذمے داری ہے۔ ہم اتنے باشعور لوگ ہیںکہ کبھی ملک میں سسٹم کی بہتری کے لیے ہڑتال نہیں کی۔ حکمران عوام کو ہر جگہ اُلو بنارہے ہیں، اُس حوالے سے کبھی کسی نے ہڑتال نہیں کی۔ اب رمضان میں 9ارب روپے کا پنجاب میں سبسڈی پیکیج دیا گیا ہے۔

جس میں سے 8ارب روپے سے زائد آٹے پر سبسڈی کا پلان ہے۔ بندہ پوچھے یہ سستی آٹے کی بوریاں کون لائن میں لگ کر لے گا؟ اور جو 125روپے بچانے کے لیے لائن میں لگے گا اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ اس قہر والی گرمی میں زندہ بچ کر بھی آئے گا یا نہیں؟ تو فائدہ کس کوہوا۔ مڈل مین کو، صاحب لوگوں کو ۔بہرکیف میں اس عوامی کال کے دور رس اثرات دیکھ سکتا ہوں۔ جس معاشرے میں حکومت اور ریاست کی رٹ نہ ہونے کے برابر ہو وہاں عوام کو ہی اکٹھا ہونا پڑتا ہے اور اب لوگوں کا اکٹھا کرنے کے لیے سوشل میڈیا جیسا چینل موجود ہے۔ یہ ہڑتال گڈ گورننس کے دعوؤں اور ہر رمضان میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کے لالی پوپ کے منہ پر طمانچہ ہو گا۔ میں اس ہڑتال کو پاکستان میں ہر طرح کی دھونس، دھاندلی اور بدعنوانی کے خلاف بارش کا پہلا قطرہ خیال کرتا ہوں۔ کنزیومر رائٹس سے لے کر سول رائٹس تک، بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتی ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ بدعنوانی کے خلاف مسلسل جدوجہد کرنے والے عمران خان کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا، معاشرہ از خود جاگنے لگا ہے۔ حکمراں ہوں یا لوٹ مار کرنے والے کاروباری، ان کو ایسی ہڑتال باور کرائے گی کہ اگر واشنگٹن میں نئے مینڈیٹ والے صدر کے حلف اٹھانے کے اگلے ہی دن فیس بک گروپوں کی کال پر  6 لاکھ خواتین کیپیٹل ہل (پارلیمنٹ) کے سامنے جمع ہو سکتی ہیں تو پاکستان میں مردوزن بھی غیر سیاسی بنیادوں پر لاکھوں کی تعداد میں نیا باب تحریر اور تعمیر کر سکتے ہیں۔اور نئی عوامی سیاسی جماعتیں اور قیادتیں بھی سامنے آ سکتی ہیں۔

اب بھی وقت ہے حکومت ہوش کے ناخن لے کیونکہ  پھلوں کی مہنگائی کے خلاف ہڑتال کرکے عوام نے حکومت  کو چیلنج کر دیا ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ وہ اس نہج پر نہ جائے جہاں سے اس کی واپسی ممکن نہ ہواور اگر کل کو اسی طرح عوام یوٹیلیٹی اسٹورز، پٹرول پمپ، بجلی کارخانے یا دیگر چیزوں کا بائیکاٹ کردیتے ہیں اور باقی ایشوز کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے تو کیا ہوگا ، جب تک ان کے بنیادی حقوق فراہم نہیں کیے جاتے ، تب تک عوام کا غم و غصہ بڑھتا جائے گا جو حکومت کے لیے ہر صورت نقصان دہ ہوگا۔ بقول شاعر

بڑی سنگین ہے غفلت ہماری

بڑا ہوشیار ہے دشمن ہمارا

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔