کیا قافلہ جاتا ہے

رفیع الزمان زبیری  بدھ 7 جون 2017

نصراﷲ خان کا حلقۂ شناسائی بہت وسیع تھا۔ سینٹرل انڈیا میں جاورہ سے امر تسر، اجمیر، ناگپور، پشاور، لاہور اور کراچی تک ان کے ملنے والے، دوست، رفیق کار، ساتھی پھیلے ہوئے تھے۔ان میں ادیب، شاعر، صحافی، مزاح نگار، موسیقار، فنکار سب ہی شامل تھے۔ بہت بڑے، معروف اور غیر معروف کچھ کو بہت قریب سے دیکھا، کچھ کو دور سے، جن کو قریب سے دیکھا ان میں سے کچھ کے خاکے ان کی کتاب ’’کیا قافلہ جاتا ہے‘‘ میں شامل ہیں۔ یہ کتاب 1948ء میں چھپی تھی، اس وقت کئی شخصیات جن کے خاکے ہیں زندہ تھیں۔ خودخاکہ نگار بھی جاچکے ہیں۔ اب راشد اشرف نے ہمت کی ہے اور نصر اﷲ خان کے صاحبزادے نجم الحسنین کی اجازت سے یہ کتاب دوبارہ حواشی کے ساتھ شایع کی ہے۔

نصر اﷲ خاں ادیب تھے، صحافی، ممتاز کالم نویس تھے، ان کے لکھے شخصی خاکے بڑے جاندار ہیں۔، پڑھنے والا بہ یک وقت خاکہ نگار کو بھی دیکھ لیتا ہے۔ سید عطاﷲ شاہ بخاری کا ذکر کرتے ہیں۔ ’’عالم باعمل، درویش بیباک، نڈر، اداس قلندرانہ، جلال سکندرانہ، بارعب چہرہ، رنگ سفید، سرخی مائل،آنکھوں میں جلال، چہرے پر جمال، لمبا قد، دہرا بدن، سر پر پٹے،گھنی داڑھی، بالوں میں مہندی لگاتے تھے‘‘ تقریرکیا کرتے تھے، سحرکرتے تھے، جب چاہتے مجمع کو ہنسادیتے، جب چاہتے رلادیتے۔

بابائے اردو مولوی عبدالحق سے نصر اﷲ خاں کا یارانہ تھا۔ لکھتے ہیں ’’میں مولوی صاحب کے ہاں کبھی کبھی امراؤ بندو خاں کو اپنے ساتھ لے جاتا تو وہ ٹھمری اور دادرا بڑے شوق سے سنتے اور خوش ہوتے۔ اگر شہر میں کوئی اچھی فلم آتی تو مولوی صاحب، ابوالخیرکشفی کو جو ان دنوں ایس ایم کالج میں پڑھاکرتے تھے بلوالیا کرتے تھے اور ان کے ساتھ یہ فلم دیکھتے تھے۔ یوں بھی ہوا ہے کہ مولوی صاحب نے کبھی سڑک کے کنارے موٹر روک لی اور گنے کا رس منگواکر خود بھی پیا اور ہمیں بھی پلایا‘‘ مولوی عبدالحق بڑے زندہ دل آدمی تھے۔

خواجہ حسن نظامی کا ذکر کرتے ہیں۔ ’’خواجہ صاحب بڑے مزے کے آدمی تھے، مرنجاں مرنج۔ زندگی ترازو کے دونوں پلڑے ہیں جن میں سے ایک میں دنیا ہوتی ہے اور دوسرے میں دین، خواجہ صاحب ان دونوں کو برابر رکھتے۔ ان کی محفل ایک درویش اور صوفی کی محفل بھی تھی اور ایک بادشاہ کا دربار بھی‘‘ خواجہ صاحب کی شخصیت تضادات کا مرکب تھی۔

صوفی غلام مصطفی تبسم ایک بار ریڈیو پاکستان آئے۔ نصر اﷲ خان ساتھ بیٹھے تھے۔ لکھتے ہیں ’’ایک نوجوان گانے والی صوفی صاحب سے کسی کی شکایت کرتے کرتے کہنے لگی’’اب دیکھیے صوفی صاحب! آپ ہمارے بزرگ ہیں‘‘ صوفی صاحب نے میری طرف دیکھ کرکہا: ’’یار اس بزرگی سے ہم پریشان ہوگئے۔ اس نے ہمارا مزہ کم کردیا‘‘ صوفی صاحب سر کے بالوں سے تو بوڑھے لگتے تھے لیکن ان کا دل مرتے وقت تک جوان رہا۔ وہ خود بھی خوش رہتے تھے اور دوسروں میں بھی خوشیاں بانٹتے تھے۔‘‘ صوفی صاحب بڑے حاضر دماغ اور بذلہ سنج تھے۔

ڈاکٹر ایم ڈی تاثیرؔ جن دنوں ایم اے او کالج امرتسر کے پرنسپل تھے فیضؔ وہاں انگریزی پڑھاتے تھے۔ نصر اﷲ خاں لکھتے ہیں ’’تاثیرؔ کا فیضؔ پر بہت اثر تھا، تاثیرؔ مکمل ہوچکے تھے، فیضؔ تکمیل کے مراحل سے گزر رہے تھے پھر اﷲ کا کرنا کیا ہوا کہ فیضؔ کا ڈاکٹر رشید جہاں کے گھر آنا جانا شروع ہوا، ہم نے وہاں سے کسی کو لوٹتے نہیں دیکھا۔ جو گیا وہیں کا ہوکر رہ گیا۔ مجازؔ کب لوٹ کر آئے تھے جو فیضؔ آتے رشید جہاں کے مکتب میں فیضؔ کی ذہنی، سیاسی اور نظریاتی تربیت ہوئی اور اس طرح فیضؔ تاثیرؔ سے دور اور رشید جہاں سے قریب ہوتے گئے۔ بیچ میں صاحبزادہ محمود الظفر مفت میں مارے گئے۔ انھیں ایم اے او کالج چھوڑ کر اور ڈاکٹر رشید جہاں کو اپنے ساتھ لے کر امر تسر سے نکلنا پڑا۔‘‘

نصر اﷲ خان لکھتے ہیں کہ تاثیر ؔاعلیٰ پایہ کے ادیب تھے، نقاد، محقق اور شاعر تھے لیکن ان کی جہت مقررنہیں تھی، انھوں نے جم کر کسی سمت میں کام نہیں کیا۔

اخترؔ شیرانی سے نصر اﷲ خان کی دوستی تھی، ان کا ذکر کرتے ہوئے نصراﷲ خاں لکھتے ہیں ’’وہ عشق کرنے کی آرزو میں مرتے رہے لیکن ان میں روایتی عشق کرنے کی صلاحیت ہی نہ تھی۔ (یہ تو فل ٹائم جاب ہے) اور اخترؔ کا مزاج سیمابی تھا، وہ بلا کے شرمیلے تھے یوں عشق کرنے کو ان کا بہت جی چاہتا لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس طرح شروع کریں۔ ان کا حال یہ تھا کہ اگر کوئی لڑکی ان کے قریب آکر بیٹھ جاتی تو ان کی نظریں زمین سے نہ اٹھتیں اور وہ سوچتے کہ کس طرح کھڑکی سے چھلانگ لگاکر بھاگ جائیں۔ یہ جو اخترؔکی شاعری میں سلمیٰ، عذرا ہیں حقیقی نہیں‘‘

شاہد احمد دہلوی سے نصر اﷲ خاں کی رفاقت ریڈیو پاکستان کراچی میں ہوئی۔ وہ لکھتے ہیں ’’شاہد بھائی بڑے یار باش آدمی ہیں۔ یہ پہلی ملاقاتوں میں کڑوے کسیلے، دنیا دار، لالچی، مطلبی، منہ نوچ اورکنجوس معلوم ہوتے ہیں لیکن جتنا ان کے قریب آؤ ان کی شخصیت اتنی ہی قابل محبت ہوجاتی ہے۔ شاہد بھائی کے یہ سب عیب پیاز کے چھلکے ہیں اور وہ بھی بہت تیز آنسو نکالنے والے۔ شاہد بھائی کی کڑواہٹ میں بڑی مٹھاس ہے، ان کی دنیا داری دنیا داروں کو دور رکھنے کا اور ان کی کنجوسی بے وقوف بنانے والوں کو، مطلب نکالنے والوں کو دور رکھنے کا ایک طریقہ ہے۔‘‘

عطیہ بیگم فیضی جوانی میں ایک رنگین داستان تھیں، بڑھاپے میں وہ اس داستان کی داستان بن گئیں اور اسی کے سہارے اور سایہ میں وہ زندہ رہیں۔ مشہور مصور فیضی رحمین جو عطیہ کے عشق میں یہودی سے مسلمان ہوگئے تھے ان کے اشاروں پر ناچتے تھے، ویسے عطیہ کے اشاروں پر کون نہیں ناچا؟ کسی نے دل نذر کیا تو کسی نے ایمان۔ ان کے عاشقوں میں مولانا شبلی کے علاوہ علامہ اقبال کا نام بھی آتا ہے۔

نصر اﷲ خان لکھتے ہیں۔ ’’میں ریڈیو پاکستان سے عطیہ کے انٹرویوکا انتظام کر رہا تھا، مولوی عبدالحق نے مجھ سے کہا، تم عطیہ سے پوچھنا کہ مولانا شبلی کی ٹانگ میں گولی کیسے لگی؟ میں نے عطیہ سے یہ سوال انٹرویو میں تو نہیں بعد میں پوچھا، عطیہ اس پر بگڑگئیں اور کہنے لگیں تمہیں یہ بات عبدالحق نے بتائی ہوگی‘‘ نصر اﷲ خان سوچتے ہی رہ گئے کہ کیا بات ہوگی۔

ممتاز حسن فنانس سیکریٹری تھے پھر اسٹیٹ بینک کے گورنر ہوگئے۔ نصر اﷲ خان لکھتے ہیں ’’ہر بڑے سے بڑے عہدے پر ممتاز حسن ممتاز حسن ہی رہے۔ عہدہ داری ان کی شخصیت میں داخل نہیں ہوئی۔ ان کی قلندری اور درویشی کو ان سے چھین نہ سکی۔‘‘

نصر اﷲ خان کا ذوالفقارعلی بخاری سے بڑا تعلق رہا۔ ریڈیو پاکستان میں ہر وقت ان کا دربار لگا رہتا تھا جہاں وہ اپنے نورتنوں کے ساتھ بیٹھے ہوتے۔ کبھی مشاعرہ ہورہا ہے تو کبھی ریڈیوکے اسٹوڈیو میں کسی ڈرامے کی ریہرسل ہورہی ہے۔ کسی ڈرامے میں وہ ہدایت کار ہوتے تو کسی میں اداکار، نصر اﷲ خاں لکھتے ہیں ’’سچی بات تو یہ ہے کہ جب بخاری زندہ تھے تو ریڈیو پاکستان شاعروں، ادیبوں، موسیقاروں اور آرٹسٹوں کی آماجگاہ تھا۔ بخاری کا دربار فنونِ لطیفہ کے کسی قدرداں کے شہنشاہ کے دربار سے کم نہ تھا۔ وہ نہ رہے تو ریڈیو پاکستان کا سہاگ اجڑگیا۔‘‘

منٹو کے خاکے میں نصر اﷲ خان کی یادوں کا بڑا حصہ ہے۔ لکھتے ہیں ’’میں نے جب منٹوکو دیکھا تو وہ چودہ، پندرہ برس کا لڑکا تھا۔ آنکھوں پر چوڑے چوڑے شیشوں کا چشمہ، سیاہ فریم، بال بکھرے ہوئے، رنگ گورا، قد درمیانہ، دبلا پتلا، آواز میں کشش، نئی بات سوچنا، انگریزی فراٹے سے بولتا اور لکھتا تھا۔ میرے والد نے اس کا نام ٹامی رکھا تھا۔ اپنے ہم جماعتوں میں وہ اسی نام سے مشہور ہوگیا تھا۔ منٹو کا خط بہت پاکیزہ تھا۔ انگریزی میں سب سے زیادہ نمبر لیتا، اردو اور ریاضی میں فیل رہتا، پھر اس کے افسانے اردو افسانوں کی دنیا میں دیوار چین بن گئے جس کو پار کرنا اس کے ہم عصروں کے لیے مشکل ہوگیا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔