مقدس اتحاد کے کارنامے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 7 جون 2017

’’ نامعلوم‘‘ سے ’’معلوم‘‘ تک کا سفر بہت کھٹن، تکلیف دہ، جان لیوا اوراذیت ناک ہوتا ہے کیونکہ سفر کے اختتام سے پہلے پہلے تک آپ مارے مارے پھررہے ہوتے ہیں، اندھیروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنے آپ کو زخمی کیے جارہے ہوتے ہیں، اس دوران سارا وقت وحشت میں گزر رہا ہوتا ہے سب ایک دوسرے کی طرف رحم بھری نظروں سے تک رہے ہوتے ہیں پھر اچانک جیسے ہی یہ سفر مکمل ہوتا ہے لگتا ہے ہم دوبارہ زندہ ہوگئے ہیں۔ آج پاکستان کی حالت اور حالات سے بیس کے بیس کروڑ انسان مایوس ہیں سب کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ نہ تو ملک کے حالات بدل سکتے ہیں اور یہ ملک آیندہ بھی اسی طرح سے چلتا رہے گا، کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہے۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کروڑوں لوگوں کی یہ مایوسی اور بددلی قدرتی ہے یا کہ مصنوعی۔آیا یہ لوگوں کے خود کا یقین ہے یا کہ ایک پلاننگ کے تحت خوبصورتی کے ساتھ انھیںیہ یقین دلادیا گیا ہے یہ وہ سوالات ہیں جو عرصے سے ہم سب کو بے چین کیے ہوئے تھے آج میں آپ سب کو مبارکباد دیتا ہوں کہ ہم یہ ’’معلوم‘‘ کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ اصل میں ہمارے ساتھ کھیل کیا کھیلاگیا ہے اس ساری کامیابی کا سہرہ روسی ماہر نفسیات پاؤلوف کے سرجاتا ہے۔ آپ پوچھیں گے ’’کیسے‘‘آئیں اس ’’کیسے‘‘ کا جواب سنیے۔

بیسوی صدی کے ابتدائی برسوں کی بات ہے، ایک روسی ماہر نفسیات Ivan Pawlov نے ایک کتے کے ساتھ سائنسی تجربہ کیا، یہ بظاہر ایک سادہ اور معمولی تجربہ تھا، ایسے ہزاروں تجربات ماہر نفسیات روزانہ کررہے ہوتے ہیں لیکن اپنے نتائج کے اعتبار سے یہ تجربہ معمولی نہیں بلکہ انتہائی غیر معمولی ثابت ہوا جسے اب ’’کتے،گوشت اورگھنٹی‘‘ کا تجربہ کہتے ہیں۔ اس تجربے کے تحت پاؤلوف نے اس اصول کو دریافت کرلیا جس کے تحت مصنوعی محرکات ہماری فطری بناوٹ پر اثرانداز ہوتے اوراس کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایک کتے کا گوشت کو دیکھ کر رال ٹپکانا فطری ہے لیکن عام حالات میں کوئی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوگا کہ کسی خاص قسم کی گھنٹی سن کر وہ رال بہانا شروع کردے گا۔ پاولوف نے کیا یہ کہ ہردفعہ کتے کو گوشت دینے سے پہلے یہ گھنٹی بجائی اس طرح تھوڑے عرصے میں پاؤلوف کتے کی فطرت کو اس طرح بدلنے میں کامیاب ہوگیا کہ گوشت کی عدم موجودگی میں محض گھنٹی کی آواز سن کرکتے کی رال ٹپکنے لگتی تھی۔

اس تجربے کی روشنی میں Conditioned Response کا نظریہ سامنے آیا اور موجودہ صدی کی فکرکا حصہ بنا۔ایک اہم بات جو ہمیں معلوم ہوئی یہ تھی کہ کتے کی طرح انسان کی فطرت بھی کوئی ایسی چیز نہیں جس میں تبدیلی نہ آسکتی ہو جو قطعی طے شدہ ہو اس میں حیرت انگیز تبدیلیاں لانا ممکن ہے۔ کتوں کی تاریخ میں یہ کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ کسی کتے نے گھنٹے کی آواز سن کر رال بہانا شروع کردی ہوکیونکہ گھنٹی کی آوازکا کتے کے اس جسمانی نظام سے کوئی تعلق نہیں ہے جورال بہنے کی اس عمل کا ذمے دار ہے لیکن ہم نے دیکھا کہ گھنٹی بجانے اور گوشت لانے کا عمل بیک وقت دہرایا گیا اور کتے کی فطرت میں ایک تبدیلی واقع ہوئی اب وہ ایک مختلف قسم کا جانور بن چکا تھا۔ جو بات کتے کے حوالے سے ثابت کی گئی تھی وہ ہی بات آسانی سے انسان کے بارے میں ثابت ہوگئی ہے بے شمار طریقے ہیں جن کی مدد سے انسان کی تربیت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ اس میں ایسی خصوصیات پیدا ہوجائیں جواس کی فطر ی خصوصیات سے مختلف ہوں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ حدود کے اندر رہتے ہوئے انسان کو کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے جو بھی اس کے محرکات کا تعین کرنے والے اسے بنانا چاہیں۔

جرمنی میں اسکولوں کا جو نظام ہٹلر نے وضع کیا تھا وہاں اسی ’’گھنٹی اور گوشت‘‘ والی تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی ایک پوری نسل تیار کی گئی جو تمام غیرآریائی نسلوں سے نفرت کرتی تھی اور جوہٹلرکی غیر مشروط اطاعت پر آمادہ تھی‘‘ ہم سب قسمت یا نصیب کے مارے ہوئے نہیں ہیں بلکہ Conditoned Response کے نظریے کے مارے ہیں ہمیں اس خوبصورتی کے ساتھ اس نظریے کے ذریعے بے بس کردیاگیا کہ ہمیں ’معلوم‘‘ ہی نہیں چلا، ہمارے ساتھ کھیل یہ کھیلا گیا کہ ہم اپنی بد حالی، بربادی، غربت،افلاس،اداروں کی تباہی، بیماریوں، جہالت، انتہاپسندی، دہشتگردی، کرپشن، لوٹ مار، بدنظمی کو اپنا نصیب اور مقدر سمجھتے ہوئے اسے جوں کا توں قبول کیے رکھیں اور اس غلیظ، بدبودار، دیمک زدہ نظام کے خلاف جدوجہد کریں نہ بغاوت کریں۔

بس سارا وقت اپنے نصیبوں اور مقدرکو گالیاں دیتے رہیں یہ سب اس ’’مقدس اتحاد‘‘ کا شاخسانہ ہے جنہوں نے پاکستان پر اپنا تسلط قائم کررکھا ہے۔ ’’اس مقدس اتحاد‘‘ میں کرپٹ سیاست دان، بیوروکریسی، ملا، جاگیر دار، سرمایہ دار، میڈیا سب شامل ہیں اس ’’مقدس اتحاد‘‘ نے وہ ہی پاؤ لوف کا ’’گوشت اور گھنٹی‘‘والا تجربہ ہم پر استعمال کیا اور ہمیں یہ یقین دلانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس ملک میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں یہ سالوں سے اسی طرح جاری ہے اور آیندہ بھی اس طرح سے جاری و ساری رہے گا۔ اس کے خلاف جدوجہد کرنا یا بغاوت کرنا سب بیکار ہے کسی بھی قسم کی تبدیلی اس ملک میں ناممکن ہے لہذا اسے اسی حال میں قبول کرلو جو رہاسہا تمہارے پاس بچ گیا ہے اسے داؤ پر مت لگاؤ۔ عام لوگوں کو احساس تک نہیں ہوا کہ وہ ان پر پاؤ لوف کا ’’گوشت اورگھنٹی‘‘ والا تجربہ کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل تک پہنچ گیا ہے۔اسی لیے آپ روز دیکھتے اور سنتے ہیں کہ جو تبدیلی، بغاوت اور جدوجہد کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کے پیچھے یہ ہی ’’مقدس ٹولہ‘‘ لٹھ لے کر لگ جاتا ہے ان کا مذاق بنایا جاتا ہے انھیںبے وقوف، احمق اورعقل کا اندھا قرار دے دیا جاتا۔

اس ’’مقدس اتحاد‘‘ میں شامل اراکین اپنا اپنا کردار انتہائی خوبصورتی کے ساتھ ادا کررہے ہیں سب کی ایک دوسرے کے ساتھ رشتے داریاں اور دوستیاں ہیں اگرکوئی مشکل میں آتا ہے تو باقی سب اس کی مدد کو ٹوٹ پڑتے ہیں اور پورے ملک میں اس قدر شورمچا دیتے ہیں کہ عام لوگوں کی آوازیں دب کر رہ جاتی ہیں اور سب واپس اپنی قسمت، نصیب اور مقدر کو دوبارہ برا بھلا کہنے میں مصروف ہوجاتے ہیں، لیکن ان کارناموں کے باوجود اگر یہ ’’مقدس اتحاد ‘‘ یہ سمجھتا ہے کہ اس کا یہ کھیل آیندہ بھی اسی طرح سے کامیابی کے ساتھ ہاؤس فل چلتا رہے گا تو یہ اس کی بے وقوفی، نادانی اور احمق پن کے سوا کچھ نہیں کیونکہ ہرکھیل کھیلنے کا ایک وقت ہوتا ہے اور پھر اس وقت کے بعد ہر کھیل کو ختم ہوجانا ہی ہوتا ہے لہذا ’’گوشت اور گھنٹی‘‘ والا کھیل کے ختم ہونے کا وقت آن پہنچا ہے بس پردہ گرنے کو ہی ہے اس کے بعد پھر تمہارے ساتھ کیا کھیل ہونے والا ہے تمہیں اس بات کا ذرہ برابر تک احساس نہیں ہے آئیں مل کر پردہ گرنے کا انتظا کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔