مارکس اور فرائیڈکا نظریہ کیا تھا؟

زبیر رحمٰن  بدھ 7 جون 2017
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

ایک کالم نویس جن کے مضامین میں اکثر پڑھتا ہوں اوروہ کبھی بھی منفی یا بے معنی موضوع پر نہیں لکھتے ہیں، مگر اس بار انھوں نے کارل مارکس اورسگمنڈفرائیڈ پرایک تنقیدی مضمون لکھا ہے۔کوئی بھی سوچ یا نظریہ مکمل نہیں ہوتا۔کارل مارکس نے خود بھی کہا تھا کہ دنیا میں موجود نظریات میں مجھے سوشلزم بہتر لگا ہے، اس لیے میں سوشلسٹ ہوں، اگرکل اس سے کو ئی بہتر نظریہ آجاتا ہے تو ہم اسے چھوڑکر دوسرا نظریہ قبول کرلیں گے، ہم کوئی عقیدہ پرست نہیں ہیں۔ مارکس نے روح کو چھوڑکر صرف جسم پر بات نہیں کی ہے بلکہ انھوں نے مادی عوامل کے عکس کو شعورقراردیا ہے اور یہ شعور دماغ میں یکجا ہوکر ایک الگ حیثیت بھی اختیارکرلیتا ہے۔ اس کی بنیاد مگرمادی ہی ہوتی ہے۔ مجتمع شعور پھرتصور قائم کر تا ہے نفسیات، روایات،اخلا قیات، احساسات اورمحرومیات انھیں کا نتیجہ ہیں۔اس کو ہم روحانی سکون یا ہیجان کا نام دیتے ہیں۔ جہاں تک مابعد الطبیعات کی بات ہے تواس کا توکوئی سر پاؤں نہیں ہوتا۔ روح کو مذہبی تصورکے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ عقیدہ ہے۔ عقیدہ ابدی سچائی ہوتا ہے، اس پر بحث مباحثے کی گنجائش نہیں ہوتی، جب کہ کمیونزم ایک سائنس ہے۔ جو کچھ سقراط، پرودھون، باکون یا مارکس نے کہا وہ باتیں درست بھی ہوسکتی ہیں اورغلط بھی یا پھر جزوی طور پر درست یا غلط ہوسکتی ہیں۔

ارسطو نے ہزاروں درست با تیں کی ہیں لیکن دو غلط باتیں کی ہیں یعنی دنیا چپٹی ہے اورسوچنے کا مرکز دل ہے۔ بعد میں گیلے نے ثابت کیا کہ دنیا گول ہے اورعمرخیام نے ثابت کیا کہ دنیا سورج کے گرد 365 دن 5 گھنٹے 59ؓٓ سیکنڈ میں گھومتی ہے۔ یعنی کہ ارسطو کا یہ نظر یہ کہ دنیا چپٹی ہے غلط ثابت ہوگیا۔ ہرچندکہ سائنس دانوں نے یہ ثابت کردیا کہ سوچنے کا مرکز دل نہیں دماغ ہے۔اس کے باوجود صدیاں بیتنے کے بعد بھی ہم یہ کہتے ہیں کہ ’’ہم تمھیں دل سے چاہتے ہیں‘‘ یعنی صدیوں پرانی غلط سوچ کو بھلا نہیں پائے۔ ہندی میں اسے درست کرلیا گیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ’’میں تمھیں من سے چاہتا ہوں یعنی ذہن سے یا دماغ سے۔‘‘ جہاں تک فرائیڈکا تعلق ہے تو انھوں نے مادے سے کبھی بھی انکار نہیں کیا ہاں مگر تصور ذات کو فوقیت دیتے تھے اورآزادی کے علمبردار تھے۔ وہ بھی طبقاتی سماج کے خلاف تھے۔ارسطو نے کہا تھا کہ طبقاتی نظام تمام برا ئیوں کی جڑ ہے ۔لہٰذا فرائیڈ کبھی روح کو مذہبی نکتہ نگاہ سے نہیں دیکھا، بلکہ انسان کے تصورات کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔کالم نویس نے توانائی کو الگ سے تشریح کرنے کی کوشش کی ہے جب کہ توانائی الگ سے کوئی چیز نہیں ہے۔ یہ مادے سے منسلک ہے۔ ما دے کا وجود اگر نہیں ہے تو توانائی بھی نہیں ہے۔

Antone Lavoisier نے کہا ہے کہ (Matter neither created nor be destroyed but it can change from one form to another )یعنی مادے کو تخلیق کیا جاسکتا ہے اور نہ فنا، ہاں مگر اس کی شکل کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ درخت سے کرسی بنالیں پھر اسے جلا کرکاربن بنا دیں مگر اسے فنا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک یورپ میں کمیونسٹ نظریات پھیلنے کی وجہ راقم نے یہ بتائی ہے کہ وہاں کلیسا نے حکمرا نوں سے مل کر عوام پرظلم ڈھائے جس کے نتیجے میں عوام نے ردعمل کیا اور اسے متبادل کے طور پر قبول کیا ۔ یہ عمل صرف یورپ میں نہیں ساری دنیا میں ہوا۔ ہندوستان میں کلیسا کا راج نہیں تھا بلکہ پنڈتوں کا۔ اس کے باوجود آج ہندوستان کے 17 صوبوں کے 200 اضلاع میں ماؤ نوازکمیو نسٹ پارٹی کا قبضہ ہے۔ تریپورہ اورکیریلا کے صوبوں میں کمیو نسٹ پارٹی کی حکومتیں ہیں۔ نیپال میں کمیونسٹ پارٹی کی حکومت ہے۔ چین میں کنفیوشس اور بودھا کے ماننے وا لے ہیں، وہاں سوشلسٹ انقلاب آیا۔عرب بادشاہتوں میں جہاں مذہب کے نام پرحکمرانی چلی آرہی تھی،عوام ان کے جبر سے تنگ آ کر بعث سوشلسٹ پارٹی کی قیادت میں الجزائر، لیبیا،عراق، شام ، مصر، ترکی، لبنان اور یمن کے علاوہ کوہ قاف، ایشیائے کوچک،وسطیٰ ایشیائی ریاستوں اور بلقان مسلم ریاستوں میں سوشلسٹ انقلاب برپا ہوئے۔ اس سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ مسئلہ کلیسا کا نہیں، مسئلہ طبقاتی نظام اوراستحصال کا ہے۔

کمیو نسٹ مینی فیسٹو میں مارکس کہتا ہے کہ سماج کی تاریخ طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے،کبھی درپردہ اورکبھی کھلے عام ایک دوسرے سے نبرد آزما رہے۔ان ہی بنیادوں پر اس نے تاریخی جدلیاتی مادیت، قدر زائد اورطبقاتی کشمکش کا فلسفہ دریافت کیا اورکہا کہ یہ میری کوئی کارستانی نہیں ہے بلکہ جوکچھ دنیا میں ہوتا آرہا ہے ہم نے اس الجھی ہوئی گتھے کوسلجھانے کی کوشش کی۔ مارکس نے واضح طورپرکہا کہ دو چیزیں ٹکراتی ہیں تو تیسری چیز نمودار ہوتی ہیں،اسی کو جدلیاتی مادیت کہا جاتا ہے۔

مزدوروں کی مزدوری کا ایک حصہ سرمایہ دار ہڑپ کرکے ارب پتی سے کھرب پتی بن جاتا ہے اور مزدور نسل درنسل بھوک، افلاس، فاقہ کشی اور موت کے آغوش میں پہنچ جاتا ہے۔ وہ ایک روز تنگ آکر اٹھ کھڑا ہوتا ہے جیسے کہ شیخ سعدی نے کہا تھا کہ ’’ تنگ آمد بہ جنگ آمد‘‘ اور اسی بہ جنگ کے نتیجے میں مزدورطبقہ، پیداواری قوتوں اور شہریوں کو ساتھ لے کر اس دھرتی کے سارے وسائل جس کا وہ خود مالک ہے پر اپنی حاکمیت قا ئم کرکے دنیا کوتنگ دستی اور بھوک سے نجات دلائے گا۔ جب تک انسان کے پیٹ میں مادے کی شکل میں دال دلیہ نہیں جائے گا اس وقت تک وہ روحانی طور پر بھی خوش وخرم نہیں رہ سکتا ہے۔اس لیے روحانی طور پرخوش وخرم رہنے کے لیے انسانوں کے اندرمادے کی اندراج اور اخراج ضروری ہے۔ یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ ہر انسان رنگ ونسل، عقیدے، زبان قوم ، مذہب اور فرقوں سے با لاتر ہوکر اس طبقاتی نظام کو اکھاڑ پھینکے بغیرکوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہوسکتاہے ۔ یہی بات مارکس، باکونن، پرودھون، لینن اورکروپوتکین وغیرہ نے کی ہے،اگر ریل گا ڑی ایجاد کرنے وا لا جارج اسٹیفن سن مذہبی روحانیت کو نہیں مانتا تھا توکیا ہم ریل گاڑی میں سفرکرنا چھوڑدیں گے؟ ہرگز نہیں۔ ہمیں جس چیزمیں فائدہ ہوگا اسے استعمال کریں گے۔آج دنیا میں صرف بھوک سے روزانہ پچہترہزار انسان مررہے ہیں۔اس کا واحد حل ایک غیر طبقاتی کمیونسٹ یا امداد باہمی کے آزاد معاشرے میں ہی ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔