جیتے تو اپ سیٹ ہاریں توقسمت سمجھیں

سلیم خالق  بدھ 7 جون 2017
ساتھ ہی ہمیں زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں، جیت جائیں تو اسے اپ سیٹ سمجھ کر خوش ہوں: فوٹو: فائل

ساتھ ہی ہمیں زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں، جیت جائیں تو اسے اپ سیٹ سمجھ کر خوش ہوں: فوٹو: فائل

معاف کیجیے گا ہم سب بے وقوف ہیں جو زمینی حقائق دیکھے بنا اس خوش فہمی کا شکار تھے کہ پاکستانی ٹیم بھارت کو شکست دیدے گی، ہم کا لفظ اس لیے شامل کیا کیونکہ میں بھی ان لوگوں میں شامل ہوں جو ایسا سوچ رہے تھے، یہ خیال نہ آیا کہ جس ٹیم کے پاس آل راؤنڈرز ہیں نہ پاور ہٹرز، جس کے تجربہ کار بیٹسمین مطلوبہ اسکور کے بجائے صرف اپنا اسکور دیکھتے ہوں کہ بس اتنے رنز بناؤکہ اگلے میچ میں چانس مل جائے، جس کے کپتان کو ہم نے محض چند میچز کی بنیاد پر سنگاکارا، دھونی اور ڈی ویلیئرز کی طرح سمجھنا شروع کر دیا۔

جس کے ساتھ موجود کوچز کی فوج کو صرف یہ فکر ہو کہ ہر ماہ لاکھوں روپے کا چیک مل جائے ٹیم کا جو ہونا ہے وہ ہو، جس کے بورڈ حکام انگلینڈ کے ٹھنڈے موسم میں چھٹیاں گزارنے آئے ہوں، جنھیں ہار جیت کی کوئی پروا نہیں، ایسی ٹیم سے توقعات وابستہ کرنا کسی دیوانے کا خواب تھا جو بیشتر پاکستانیوں نے دیکھا مگر میچ میں کیا ہوا وہ سب کے سامنے ہے، سب کے ہاتھ پاؤں پھولے نظر آئے، کیچز لیتے ہوئے ہاتھوں میں سوراخ ہو گئے، بولنگ کرتے ہوئے مشین بن گئے جس کا کام محض بیٹسمین تک گیند پہنچانا تھا باقی ذمہ داری وہ خود سنبھال لیتا، پھر بیٹنگ کے وقت  واپس جانے کی جلدی تھی کہ نجانے دشمن بھارت فیلڈ میں کیا حشر کر دے، حسب توقع مکی آرتھر نے بھی بعد میں کھلاڑیوں کی خوب کلاس لی، حالانکہ غلطی ان کی بھی ہے، وہ اتنے عرصے میں وہ گرین شرٹس کے مسائل حل نہیں کر سکے،  پلیئرز پرانی غلطیاں دہرا رہے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں،برطانوی شہری اظہر محمود  بولرز کی کارکردگی میں کوئی نکھار نہ لا سکے مگر ٹیم کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔

فیلڈنگ و دیگر کوچز کی کارکردگی بھی سب کے سامنے ہے، اگر مقصد خانہ پری ہی کرنا ہے تو اس سے تو اچھا ہوگا کہ اپنے ہی ہم وطنوں کو عہدے سونپ دیں، وہ سستے بھی پڑیں گے، ہمیں تو منیجر بھی غیرملکی رکھنا پڑتا ہے، سنا ہے طلعت علی بھی برطانوی شہریت کے حامل ہیں، ٹیم آٹھویں نمبر پر پہنچ چکی مگر بہتری کیلیے کچھ نہیں کیا گیا، یو اے ای میں جیت کر کھلاڑیوں کو آسمان پر چڑھا دیا گیا، ویسٹ انڈیز کی کمزور ترین ٹیم کو شکست دے کر مٹھائیاں بانٹی گئیں، چیمپئنز ٹرافی کا کسی نے نہ سوچا،یقیناً پلیئرز ناقص کھیل کے ذمہ دار ہیں مگر انھیں دباؤ کا شکار بھی کیا گیا، اہم میچ سے قبل آفیشلز کی فوج انگلینڈ پہنچ گئی، شہریارخان نے تقریر کر کے حوصلے نہیں پریشر بڑھایا، نجم سیٹھی کیا کرنے آئے تھے کوئی ان سے پوچھے تو ذرا، پہلے بھی ذکر کیا گیا کہ میڈیا ڈپارٹمنٹ کے تین افراد کا کیا کام ہے، اب صرف ایک میچ کے بعد ڈائریکٹر برمنگھم سے لندن چلے گئے اور شاید بقیہ میچز میں نہ ہوں، ایک کھلاڑی نے مجھے خود بتایا کہ ’’بورڈ والے جہاں ملتے مشورے دینا شروع کر دیتے اس کا ہمیں فائدہ نہیں نقصان ہوا‘‘۔ اب جنوبی افریقہ کیخلاف میچ ہونے والا ہے لیکن اس میں ’’مصباح اسٹائل‘‘ سے فتح نہیں ملے گی، کھلاڑیوں کو نیچرل گیم کھیلنا ہوگا۔

ساتھ ہی ہمیں زیادہ امیدیں نہیں رکھنی چاہئیں، جیت جائیں تو اسے اپ سیٹ سمجھ کر خوش ہوں ، ہاریں تو یہ کہیں کہ ایسا ہی ہونا تھا کیونکہ کاغذ پر دونوں ٹیموں کا کوئی مقابلہ نہیں، شاید گراؤنڈ میں کوئی معجزہ ہو جائے، فتح کی صورت میں ہی سیمی فائنل میں رسائی کا کوئی امکان بچے گا، ورنہ سری لنکا سے آخری میچ رسمی کارروائی ہو گا،  بھارت سے ہار کے بعد ڈانٹ ڈپٹ کرنے والے کوچ مکی آرتھر نے آج کھلاڑیوں کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی دیکھیں اس کا کیا اثر پڑتا ہے، یہاں موسم تو بیحد سرد ہو چکا، شائقین کے جذبات بھی سرد ہیں،  دیکھتے ہیں کل کتنے لوگ اسٹیڈیم آتے ہیں، بیچارے ہر بار امیدیں لیے پہنچتے ہیں مگر ٹیم بدلے میں کچھ نہیں دیتی، الٹا برطانوی نژاد پاکستانیوں کو مقامی لوگوں کے طعنے ہی سننا پڑتے ہیں، آج کوئی بتا رہا تھا کہ بھارت سے شکست کے بعد پی سی بی نے کوئی کمیٹی قائم کر دی جو تحقیقات کرے گی، اس میں ہارون رشید بھی شامل ہیں، اب مجھے یہ تو نہیں یاد دلانا پڑے گا ناں کہ ورلڈکپ میں ٹیم کی بدترین ناکامی کے بعد جو تحقیقاتی کمیٹی بنی اس کی رپورٹ پر ہارون رشید کو چیف سلیکٹر کے عہدے سے فارغ کیا گیا تھا، آپ اسی  سے اندازہ لگا لیںکہ ہمارے کرکٹ معاملات کس انداز میں چل رہے ہیں،کمیٹی کی رپورٹ پر نکالا جانے والا شخص اب خود کمیٹی میں آکر دوسروں کو نکالے گا، اب اگر خوانخواستہ جنوبی افریقہ سے شکست کے بعد گرین شرٹس چیمپئنز ٹرافی سے باہر ہوئے تو آپ میری بات نوٹ کر لیں صرف غیرملکی کوچنگ اسٹاف ہی زیرعتاب آئے گا، بھاری تنخواہ لے کر بھی ناکام چیف سلیکٹر انضمام الحق سے کوئی بازپرس نہیں ہو گی۔

نہ ہی چیئرمین بورڈ شہریارخان اور مستقبل کے چیئرمین نجم سیٹھی سے کچھ پوچھا جائے گا، میں پھر یاد دلا دوں کہ ورلڈکپ 2015میں رسوا کن ناکامیوں کے وقت بھی یہی دونوں بورڈ کو سنبھالے ہوئے تھے اب بھی انہی کا قبضہ ہے، اس کا مطلب ہواکہ ان میں کرکٹ کو بہتر کرنے کی اہلیت نہیں انھیں فارغ کرنا چاہیے، شہریارخان تو خیر اب جا ہی رہے ہیں، نجم سیٹھی بھی عہدہ سنبھالنے کا خواب دیکھنا چھوڑیں، ملکی کرکٹ کا جو بیڑا غرق کرنا تھا وہ کر چکے خدارا اب تو میرٹ پر لوگوں کو آگے آنے دیں، شاید اس سے فوراً نہیں تو اگلے ورلڈکپ تک تو اچھی ٹیم بن جائے اور پھر شائقین کو رونا نہ پڑے،  اگر بورڈ میں عہدوں کی یہی بندربانٹ جاری رہی تو یقین مانیے ورلڈکپ 2019تو دور 2050 میں بھی ہم دور دور تک کہیں نہیں ہونگے، ابھی جیسے ہاکی کی باتیں ہوتی ہیں کہ فلاں سال ہم نے اولمپکس میڈل جیتا فلاں سال ورلڈکپ اپنے نام کیا، حالات ایسے ہی رہے تو کرکٹ کے ساتھ بھی یہی ہو گا اور اسے اس نہج تک پہنچانے والوں کو تاریخ میں کبھی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائیگا۔ چاہے وہ گورننگ بورڈ یا سالانہ اجلاس میں اپنے حق میں جتنی بھی قراردادیں پاس کرا لیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔