قطر سعودیہ کشیدگی : صلح کیلیے امیر کویت جدہ پہنچ گئے

کویت سٹی / دوحا / ریاض: قطر اور سعودی عرب کے درمیان کشیدگی ختم کرانے میں ثالثی کی کوششیں تیز کر دی گئیں۔ 88 سالہ امیر کویت شیخ الصباح تعلقات کی بحالی کیلیے جدہ پہنچ گئے، اسی طرح مختلف ممالک کی جانب سے ثالثی کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔

88 سالہ امیر کویت شیخ الصباح نے اس سلسلے میں عملی اقدام اٹھا لیا اور وہ گزشتہ روز جدہ پہنچ گئے، وہ آج (بدھ کو) تنازع خلیج کے حل کیلیے شاہ سلمان اور دیگر سعودی حکام سے ملاقاتیں کریں گے۔ اسی طرح ترک صدر رجب طیب اردوان بھی قطر اور اس کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے والے عرب ممالک کے درمیان ثالثی کیلیے میدان میں آگئے ہیں۔ ترک صدر نے قطر، روس، کویت اور سعودی عرب کے رہنماؤں سے ٹیلی فون کے ذریعے بات چیت کی ہے جس کا مقصد قطر سے متعلق پیدا ہونے والے تنا ئو میں کمی لانا ہے۔

اردوان کی روسی صدر سے بات چیت کے حوالے سے کریملن نے اپنے اعلان میں کہا ہے کہ سربراہان نے متعلقہ طرفین کو مذاکرات کی راہ کو اپنانے کی اپیل کی ہے۔ اس سے قبل ایران نے قطر اور سعودی عرب سمیت دیگر ہمسایہ مسلم ممالک پر زور دیا ہے کہ اپنے اختلافات کو بات چیت سے حل کریں۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ قطر کے معاملے میں ہمسایہ ممالک مذاکراتی عمل شروع کریں، بالخصوص رمضان کے مقدس مہینے میں بات چیت وقت کی ضرورت ہے۔

ایرانی وزیر خارجہ نے اس صورت حال پر ترکی، انڈونیشیا، عراق اور عمان کے وزرائے خارجہ کو ٹیلی فون کر کے تازہ علاقائی تبدیلیوں پر گفتگو بھی کی۔ قطری وزیر خارجہ کا کہنا تھا امریکا سے تعلقات کا معاملہ پیچیدہ ہے، بہت سے معاملات میں دونوں ممالک کے درمیان اختلاف ہے تاہم اس تازہ صورت حال کے باجود ان تعلقات کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ قطر کے وزیرِ خارجہ محمد بن عبدالرحمان الثانی کا الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو میں کہنا تھا کہ تمام ممالک کو بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے اپنے اختلافات کو دور کرنے چاہئیں۔ الجزیرہ ٹی وی نے قطری وزیرِ خارجہ سے اس بحران کی وجوہ کے بارے میں سوال پوچھا تو ان کا کہنا تھا ’’ ہم قطر کیخلاف پیدا ہونے والے حیران کن تنازع پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ ہم اس بحران کے پیچھے حقیقی وجوہ کے بارے میں نہیں جانتے‘‘۔

الجزیرہ کے اس سوال پر کہ اس بحران کے بعد قطر کے امیر شیخ تمیم آج رات خطاب کرنے والے تھے تاہم ان کا خطاب ملتوی کیوں کر دیا گیا، کے جواب میں شیخ محمد کا کہنا تھا کہ قطر کے امیر قطر کے لوگوں سے خطاب کرنا چاہتے تھے لیکن انھیں کویت کے امیر نے فون کر کے اس بحران کو ختم کو حل کرنے کے لیے اس خطاب کو ملتوی کرنے کا کہا۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور بحرین نے آئندہ 24 گھنٹے کے دوران میں قطر کے ساتھ اپنی بری ، بحری اور فضائی سرحدیں بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔

اس اعلان کے بعد سے قطر میں افراتفری کا سماں ہے اور ملک بھر میں شہری بڑی مارکیٹوں اور گراسری اسٹوروں پر ٹوٹ پڑے ہیں اور وہ وہاں سے روزمرہ استعمال اور کھانے پینے کی اشیاء خرید کرلے جارہے ہیں، سپر مارکیٹوں اور سٹورز میں گاہکوں کا رش دیکھا جاسکتا ہے اور وہ خوراک اور پانی کی ٹرالیاں بھر بھر کر لے جارہے ہیں۔ان اسٹوروں کے شیلف اشیا سے بالکل خالی ہوگئے ہیں۔ ادھر امریکا کا کہنا ہے کہ وہ قطر اور خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی مسقتل نہیں دیکھنا چاہتا، اگر خلیجی تعاون کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا تو وہ بھی اپنا نمائندہ بھیجے گا۔ وائٹ ہائوس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اس سلسلے میں بحران سے منسلک تمام فریقوں سے بات چیت کرنے پر تیار ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ دورہ سعودی عرب کے دوران سعودیہ سمیت 50 ممالک نے قطر کی جانب سے دہشتگردوں کو فنڈنگ کے معاملے پر سخت ایکشن لینے کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ادھر سعودی عرب میں قطری ٹی وی چینل الجزیرہ کے چلنے والے تمام دفاتر بند کردیے گئے۔

سعودی حکومت نے احکام جاری کیے ہیں کہ بندرگاہوں پر قطری بحری جہازوں کو لنگر انداز نہ ہونے دیا جائے اور جو جہاز پہلے سے لنگر انداز ہیں انہیں جلد از جلد سعودی عرب سے باہر بھجوا دیا جائے۔متحدہ عرب امارات اور مصر نے اپنی فضائی کمپنیوں کے قطر آنے جانے پر پابندی لگادی ہے، جبکہ سعودی عرب نے قطر ایئرویز کی آمد و رفت بند کردی تھی۔ سعودی عرب نے قطر ایئرویز کا آپریٹنگ لائسنس منسوخ کرتے ہوئے کمپنی کے تمام دفاتر کو 48 گھنٹوں کے اندراندر بند کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ سعودی عرب میں لیبیا کے سفیر عبدالباسط البدری نے انکشاف کیا ہے کہ قطر ، لیبیا کی فوج کے سربراہ خلیفہ حفتر پر ہونے والے قاتلانہ حملوں میں ملوث رہا ہے۔ عالم اسلام کی نمائندہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے قطر پر زور دیا ہے کہ وہ دہشتگردی کیخلاف جنگ اور پڑوسی ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔