مادرِ ملت اور اُن کے زیرِ استعمال رہنے والی گاڑیاں

مختار احمد  بدھ 7 جون 2017
افسران نے بجائے اِن گاڑیوں کو کمپنیوں یا ماہر انجینئر کے زیرِ نگرانی بنوانے کے کورنگی کی ایک ورکشاپ پر کام کرنے والے دو عام ڈینٹروں اختر علی اور آصف حسین کو گاڑیوں کے اِس کنکال پر مرمت کے لئے لگا دیا گیا۔

افسران نے بجائے اِن گاڑیوں کو کمپنیوں یا ماہر انجینئر کے زیرِ نگرانی بنوانے کے کورنگی کی ایک ورکشاپ پر کام کرنے والے دو عام ڈینٹروں اختر علی اور آصف حسین کو گاڑیوں کے اِس کنکال پر مرمت کے لئے لگا دیا گیا۔

کہا جاتا ہے کہ ہر مرد کی ترقی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے، یہ ضروری نہیں کہ وہ عورت اہلیہ کے روپ میں ہی ہو، بلکہ وہ عورت ماں، بہن اور بیٹی بھی ہوسکتی ہے۔ یوں تو دنیا بھر میں لاتعداد ایسی قدآور شخصیات موجود ہیں جن کی ترقی کے پیچھے ایک عورت چھپی ہوئی ہے، اگر اِس سلسلے میں پاکستان کی جانب نگاہ ڈالی جائے تو سب سے پہلے بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی بھاری بھرکم شخصیت نظر آتی ہے جن کی جدوجہد، ترقی و کامرانی کے پیچھے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کا عکس نظر آتا ہے۔

محترمہ فاطمہ جناح قائداعظم محمد علی جناح کی سب سے چھوٹی ہمشیرہ تھیں۔ وہ 30 جولائی 1893ء میں شہر کراچی میں اُس وقت پیدا ہوئیں جب یہاں انگریزوں کی حکمرانی تھی۔ انہوں نے دن رات قائداعظم محمد علی جناح کا بھرپور ساتھ دیا جو کہ جدوجہد پاکستان میں مصروف تھے، اور بالاآخر قائد کی انتھک محنت کے نتیجے میں پاکستان جیسے آزاد وطن کا لازوال تحفہ ہمیں ملا مگر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم نے 9 جولائی 1967ء کو انتقال کر جانے والی فاطمہ جناح کو مزار قائد کے احاطے میں سپرد خاک کرکے انہیں مکمل طور پر فراموش بھی کر بیٹھے۔

ہمیں اِس بات کی بھی یاد نہیں رہی کہ محترمہ فاطمہ جناح جنہوں نے قیام پاکستان کی جدوجہد میں قائداعظم کے شانہ بشانہ کام کیا، اُن کی زیرِ استعمال اشیاء کو ہی سنبھال لیں تاکہ آنے والی نسلوں کو اس پُرعزم خاتون کے بارے میں بتایا جاسکے۔ محترمہ فاطمہ جناح جن کے زیرِ استعمال 2 قیمتی گاڑیاں جن میں سے ایک 1955 ماڈل کی کیڈلک کار جس کا سیریز نمبر 62 تھا اور دوسری پرانے ماڈل کی مرسڈیز کار جس کے ذریعے انہوں نے ایوب خان کیخلاف انتخابی مہم چلائی اور اہم اجلاسوں میں گئیں۔

ابتدائی طور پر یہ دونوں گاڑیاں فاطمہ جناح کو بمبئی کے مکان کے بدلے میں ملنے والے مہوٹا پیلس میں کُھلے آسمان تلے کھڑی رہیں اور موسم کی سختیوں کا مقابلہ کرتے کرتے بالاآخر گل سڑ گئیں، پھر اُس وقت کے ذمہ داران نے اِن دونوں گاڑیوں کو سندھ آرکائیو ڈیپارٹمنٹ کے احاطے میں کباڑا گاڑیوں کے درمیان کھڑا کردیا، اور گاڑیوں کے اِس قبرستان کو دیکھنے والوں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ دونوں گاڑیاں محترمہ فاطمہ جناح جیسی عظیم شخصیت کے زیرِ استعمال رہی ہیں۔

اِن زنگ آلودہ گاڑیوں کے پُرزے سلامت تھے، چوروں چکاروں نے اِس پر بھی ہاتھ صاف کیا اور گاڑی کے ٹائر ٹیوب سمیت اہم پرزے جات چوری کرلئے۔ پھر نہ جانے اچانک کسی کو خیال آیا اور اُس نے ہائیکورٹ میں ایک پٹیشن دائر کردی اور عدالت عالیہ نے جنوری 2015ء میں ایک فیصلہ سناتے ہوئے ڈیپارٹمنٹ کو یہ ہدایات جاری کیں کہ وہ فوری طور پر اِن گاڑیوں کی مرمت کروا کر اِنہیں قائداعظم ہاؤس میں رکھے مگر اِس پر بھی محکمہ ثقافت کے کچھ لوگوں نے یہ کہہ کر گاڑیاں رکھنے سے انکار کردیا کہ یہ ہاؤس قائداعظم کی ملکیت ہے لہذا یہاں یہ گاڑیاں نہیں رکھی جاسکتیں۔

لیکن عدالت کے سخت حکم پر افسران نے اِس بات کو مان لیا جس کے بعد وفاقی حکومت نے لگ بھگ 2 کروڑ 40 لاکھ کا پی سی ون منظور کرایا اور ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں اِس بات کا فیصلہ کیا کہ ان دونوں گاڑیوں کو یا تو فورڈ اور کیڈلک کمپنیوں میں بنوایا جائے، بصورت دیگر ماہر انجینئرز کی خدمات حاصل کرکے دونوں گاڑیوں کو اِس کی پرانی حالت میں واپس لایا جائے۔

افسران نے بجائے اِن گاڑیوں کو کمپنیوں یا ماہر انجینئر کے زیرِ نگرانی بنوانے کے سب سے پہلے اِسے قومی عجائب گھر کراچی کے رہائشی کوارٹر کے ساتھ دو ڈربہ نما کمروں میں منتقل کیا اور اِس کے بعد انہوں نے چمڑہ چورنگی، کورنگی کی ایک ورکشاپ پر کام کرنے والے دو عام ڈینٹروں اختر علی اور آصف حسین کو گاڑیوں کے اِس کنکال پر مرمت کے لئے لگا دیا گیا۔

دونوں ڈینٹرز جو کہ گزشتہ 3 ماہ سے کباڑ کی صورت میں کھڑی کباڑ نما مرسڈیز کی مرمت میں لگے ہوئے ہیں اور اِس عرصے میں وہ اب تک صرف ایک گاڑی کا ہی مرمتی کام مکمل کرسکے ہیں۔ اب تک جتنا کام مکمل ہوچکا ہے، اطلاعات کے مطابق اُس پر 80 لاکھ روپے سے زائد خرچ ہوچکا ہے اور یہ رقم 2 حصوں میں قومی خزانے سے نکلوائی گئی ہے۔

مرمت کی جانے والی کیڈلک کار کو دیکھ کر کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ وہی گاڑی ہے جو مکمل طور پر گل سڑ چکی تھی۔ ایک گاڑی کے مکمل ہونے کے بعد یہ کہا جا رہا ہے کہ مادرِ ملت فاطمہ جناح کے یوم پیدائش کے موقع پر ہائیکورٹ کے فیصلے کے تحت قائد ہاؤس میوزیم کے احاطے میں نمائش کیلئے رکھی جائے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ   [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔