افغان صدر خواب کی تعبیر بتائیں

ایڈیٹوریل  جمعرات 8 جون 2017
گذشتہ پےدرپےواقعات نےافغانستان کوداخلی طورپربدامنی اوردہشتگردی کے ناقابل بیان سانحات سے ہلا کررکھ دیا ہے . فوٹو: فائل

گذشتہ پےدرپےواقعات نےافغانستان کوداخلی طورپربدامنی اوردہشتگردی کے ناقابل بیان سانحات سے ہلا کررکھ دیا ہے . فوٹو: فائل

پاک فوج نے افغانستان کو صائب مشورہ دیا ہے کہ دھمکیوں اور الزامات کے بجائے وہ اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دے ، ساتھ ہی پاک فوج نے واضح طور پر کہا کہ ہر قسم کے خطرات سے مادر وطن کا دفاع کیا جائے گا اور پاک فوج خطے میں امن کے لیے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی ، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق منگل کو  آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیر صدارت خصوصی کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں علاقائی سیکیورٹی کا جائزہ لیا گیا ، افغانستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات بھی زیر غور آئے۔

یہ ایک الم ناک حقیقت ہے کہ خطے میں مستقل امن کے قیام کے لیے پاک افغان تعلقات میں بہتری کی جتنی مقامی ،علاقائی اور بین الاقوامی کوششوں میں پاکستان کا کردار انتھک رہا افغان حکومت ، ان کے سیکیورٹی حکام اور افغان کے نام نہاد حلیف اور چھپے دوست نما دشمنوں نے اتنی ہی شدت کے ساتھ پاکستان کو بلیم گیم کا نشانہ بنایا اور آج بھی افغانستان کا طرز عمل ان ہی قوتوں کی حاشیہ برداری اور پاکستان کو مسلسل نشانہ بنانے کا ہے جس سے صاف ظاہر ہوتاہے کہ بعض خفیہ اور بے چہرہ قوتیں پاکستان سے مخاصمت کی آڑ میں صورتحال کو خراب کرنے پر تلی ہوئی ہیں اور ہر سانحہ اور دہشتگردی کے واقعہ میں پاکستان کو ملوث کرنے کی دوڑ لگی ہوئی ہے جسے بد نصیبی ہی کہا جا سکتاہے۔

گذشتہ پے درپے واقعات نے افغانستان کو داخلی طور پر بدامنی اور دہشتگردی کے ناقابل بیان سانحات سے ہلا کر رکھ دیا ہے، ان واقعات کی درد انگیزی اور خطے کی تہہ در تہہ بحرانی کیفیت سے پاکستان کے عوام اور حکومت لا تعلق نہیں رہ سکتی چنانچہ صدر مملکت ممنون حسین ، وزیراعظم نواز شریف ، آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور ترجمان دفتر خارجہ نے ان واقعات پر دلی رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے افغان حکومت اور عوام کو دکھ کی اس نازک گھڑی میں ہر ممکن امداد و تعاون کی یقین دہانی کرائی اور دہشتگردی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔کور کمانڈرز کے خصوصی اجلاس میں بھی افغان صورتحال کے تناظر میں دہشتگردی کے خلاف افغانستان سے تعاون جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا گیا، کابل حکام کو اس کا دوستانہ، مصالحانہ اور والہانہ جواب دینا چاہیے تھا مگر الٹا پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا جانے لگا ہے۔

جب کہ ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں افغان حکومت، عوام اور سیکیورٹی فورسز کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے افغانستان سے تعاون جاری رکھیں گے، تاہم کانفرنس کے شرکا نے افغانستان کی جانب سے بلاجواز الزامات، دھمکیاں مسترد کرتے ہوئے کہا کہ دھماکوں کے بعد پاکستان کے خلاف الزامات اور دھمکیاں قبول نہیں ہے، اسی سیاق و سباق میں افغان حکومت پر زور دیا کہ افغانستان اپنے اندرونی مسائل پر توجہ دے، اس مشفقانہ مشورہ میں غلط کیا تھا ، اس لیے دفاعی مبصرین کا کہنا ہے کہ خطے کی تبدیل ہوتی ہوئی ہولناک ڈائنامکس سے افغان حکمرانوں کی چشم پوشی اور بھارت کی بی جمالو سیاسی ریشہ دوانیوں اور توسیع پسندانہ عزائم سے دانستہ غفلت اور تجاہل عارفانہ کے باعث افغان حکومت ’’ٹریپ‘‘ ہوجائے گی۔

واقعہ یہ ہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ’’ کابل پراسس ‘‘کے نام سے دو روزہ عالمی امن کانفرنس شروع ہوئی جس  کے آغاز پر افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا وہ ان کے ملک کے خلاف ’’غیر علانیہ جنگ‘‘ مسلط کر رہا ہے، یہ سخت اعلان انھوں نے کابل میں افغانستان کے حوالے سے ہونے والی بین الاقوامی امن کانفرنس کے دوران کیا، انھوں نے دعویٰ کیا کہ افغانستان دہشتگردی کے خلاف جنگ کے لیے پرعزم ہے تاہم وہ تمام پڑوسیوں کے ساتھ سیاسی و معاشی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے۔

اس کانفرنس میں دنیا کے دو درجن سے زائد ممالک، نیٹو اور اقوام متحدہ کے نمایندے موجود تھے جنہیں اندازہ تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان جس بے جگری کے ساتھ لڑ رہا ہے اس کا ادراک کسی اور کو نہیں تو افغانستان کو ضرور کرنا چاہیے کہ اس کی سرحدیں پاکستان سے ملتی ہیں ،اب دل بھی ملنے چاہئیں دشمن یہاں بھی کنٹرول لائن جیسی کشیدہ صورتحال پیدا کرنے کی سازش کر رہا ہے، جسے پاک افغان قیادت سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ناکام بنائے، بارڈر مینجمنٹ میں دخل اندازی ، بدامنی ،جھڑپوں اور چیک پوسٹوں پر بلا جواز فائرنگ سے صورتحال مزید ابتر ہوگی۔ بی بی سی کے مطابق افغان صدر اشرف غنی نے طالبان کو آخری بار مذاکرات میں شامل ہونے کی دعوت دیتے ہوئے انھیں کابل میں نمایندہ دفتر کھولنے کی پیش کش بھی کی ہے اور مزید کہا کہ وہ مستقبل میں ہونے والے مذاکرات کی جگہ کے لیے لچک کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔

کانفرنس میں پاکستان، امریکا، روس، چین، نیٹو، اقوام متحدہ سمیت تقریباً 23 ممالک کے نمایندے شرکت کر رہے ہیں، پاکستان کی جانب سے اجلاس میں تسنیم اسلم اور دفتر خارجہ میں ڈی جی افغانستان ڈیسک منصور احمد خان پر مشتمل 2رکنی وفد نمایندگی کررہا ہے،کانفرنس کے آغاز پر پہلے دن کابل میں انتہائی سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے، کابل کی سڑکوں پر بکتر بند گاڑیاں موجود تھیں جب کہ اس موقع پر فضائی نگرانی بھی کی گئی تاہم سخت سیکیورٹی کے باوجود کابل میں انتہائی سخت سیکیورٹی والے گرین زون میں واقع بھارتی سفیر من پریت ووہرا کی رہائش گاہ پر راکٹ حملہ کیا گیا، راکٹ ان کے رہائشی کمپاؤنڈ کے اندر ٹینس کورٹ میں گرا تاہم کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی۔

مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ کچھ لوگ پاکستان اور افغانستان کے بہترتعلقات نہیں چاہتے، وہ چاہتے ہیں کہ دونوں ملک ہمیشہ لڑتے رہیں،پاکستان کی سرزمین دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہو رہی، افغانستان کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں وہاں پر داعش کی سرگرمیاں بڑھ رہی ہیں، افغانستان نے طالبان کو بات چیت کا موقع دیا ہے۔ پاکستانی کورکمانڈرز نے بھی کہا ہے کہ افغانستان کی مددکرنے کے لیے تیار ہیں، ہم افغانستان کے ساتھ فوجی اور سیاسی تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ مشیر خارجہ کی اس یقین دہانی میں پاک افغان امن و مفاہمت کا گم شدہ خواب مضمر ہے ، تعبیر اس کی صدرغنی ہی بتائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔