بڑھتی ہوئی سماجی گھٹن

مقتدا منصور  جمعرات 8 جون 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

یہ خبرمیرے ذہن واعصاب پر بجلی بن کرگری کہ ولی خان یونیورسٹی کے طالب علم مشال خان کو توہین مذہب کے نام پر قتل،کسی مذہبی شدت پسند تنظیم کے ایما پر نہیں بلکہ اس کی اپنی تنظیم پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن نے کروایا ۔یہ وہی پختون اسٹوڈنٹس فیڈریشن ہے، جسے باچا خان کے پوتے اسفند یار ولی خان اور نثار شنواری نے دیگر پختون طلبہ کے ساتھ مل کر اپریل 1968میں قائم کیا تھا۔ اس کی بنیاد باچا خان کے لبرل، سیکیولر اور عدم تشدد کے فلسفے پر رکھی گئی تھی۔

اس لیے یہ بات خواب وخیال میں بھی نہیں آسکتی ہے کہ وہ طلبہ تنظیم جو باچا خان کے عدم تشددکے فلسفے کی امین تصورکی جاتی ہو، اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر عوام کے مذہبی جذبات کو برانگیختہ کرے گی، مگر JITکی رپورٹ سے یہ دلدوز حقیقت سامنے آئی کہ روشن خیالی اورعدم تشدد کے فلسفے کی پرچارک تنظیم نے اپنے ہی ایک سرگرم ساتھی کوراستے سے ہٹانے کے لیے توہین مذہب کا سہارا  لیا۔

ایک عام تصور یہ ہے کہ قوم پرست تحاریک اپنی سرشت میں سیکیولرہوتی ہیں۔کیونکہ قوم پرست جماعتیں اور تنظیمیں مذہب اور عقیدے کے بجائے قوم اور قومیت کو اہمیت اوراولیت دیتی ہیں، لیکن سیکیولرازم کی وسیع تر تعریف کاجائزہ لیں، تو سیکیولر معاشرے صرف مذہبی تقسیم ہی سے بلند تر نہیں ہوتے، بلکہ ان میںنسلی، لسانی اور صنفی امتیازات کے لیے بھی گنجائش نہیں ہوتی۔ لہٰذا قوم پرست جماعتوں کوایک حد تک تو سیکیولرکہاجاسکتا ہے، مگر وسیع تر بنیادوں پروہ سیکیولر نہیںہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض قوم پرست جماعتیںجوروشن خیالی کی دعویداری ہوتی ہیں،اکثر اپنے سیاسی مقاصد اور نام نہاد ثقافتی بقا کے نام پر مذہبی شدت پسند عناصر اور دیگر فاشسٹ گروہوں کے ساتھ مل کر مذہبی تنگ نظری اور صنفی امتیازات کو ہوا دینے کا باعث بن جاتی ہیں۔

پاکستان میں مشال خان کیس توہین مذہب کے نام پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں بیدردی سے قتل کی تازہ ترین مثال ہے۔ اس سے قبل بھی کئی افرادکو محض شک کی بنیاد پر قتل کردیا گیا، جب کہ غیر مسلموں کی کئی بستیاں بھی خاکسترکردی گئیں۔ اوکاڑہ میں ایک مسیحی جوڑے کو نذرآتش کیاگیا، مگر اس معاملے میں ریاستی منتظمہ کا کردار خاموش تماشائی سے زیادہ نہیں رہاہے وہ یا تو دانستہ اس معاملے کو حل کرنے میں پس وپیش کررہی ہے یا شدت پسند عناصرکے آگے اس قدر بے بس ہے کہ کوئی اقدام کرنے کی جسارت نہیں کر پا رہی۔ حکومتوں کے ان دہرے معیارات کی وجہ سے معاشرہ فکری انتشار اور بے چینی کا شکارہوچکا ہے۔

دراصل بعض تنظیموں اور جماعتوں نے توہین مذہب کے مسئلے پر اس قدر خوف وہراس پھیلادیا ہے کہ متوشش حلقے اس قانون کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ڈرتے ہیں، جب کہ وکلا ایساکوئی مقدمہ لیتے ہوئے ہچکچاتے ہیں۔ کیونکہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیرکو ان کے گارڈ نے محض اس لیے فائرنگ کر کے قتل کردیا کہ انھوں نے اس قانون پر رائے زنی کی تھی۔ اسی طرح ملتان کے وکیل راشد رحمان کو اس لیے قتل کیا گیا کہ وہ مبینہ طور پر توہین مذہب کے مرتکب پروفیسر جنید حفیظ کا مقدمہ لڑرہے تھے۔

توہین مذہب کے بارے میں دو شقیں برطانوی حکومت کی جانب سے تیارکیے جانے والے انڈین پینل کورٹ (IPC)میں 1860میں شامل کی گئی تھیں۔ شق 295عبادت گاہوں کو نقصان پہنچانے کے بارے میں ہے، جب کہ 298مذہبی اکابرین کے بارے میں توہین آمیز الفاظ یا خیالات کے اظہار سے متعلق ہے۔ جب ہندو مسلم تناؤ میں اضافہ ہوا اور کئی ایسی تحاریراورتقاریر سامنے آئیں، جو توہین مذمب کے زمرے میں آتی تھیں۔ جن کے نتیجے میں نشانہ بننے والے مذہب کے ماننے والوں کی دل آزاری کے سبب اشتعال پھیلنے اور امن و امان کی صورتحال مخدوش ہونے کے خدشات پیدا ہونا شروع ہوئے، تو 1927 میں حکومت برطانیہ نے ان شقوںمیں ذیلی شقAکا اضافہ کردیا۔ قیام پاکستان کے بعد انڈین پینل کورٹ پاکستان پینل کوڈ بن گیا۔ یوں یہ شقیں بھی پاکستانی تعزیراتی قوانین کا حصہ بن گئیں۔

توہین مذہب اور توہین رسالت کے مرتکب فرد یا افراد کے لیے موت کی سزا تجویز کی گئی۔ جو 1986 میں متذ کرہ بالا دونوں شقوں میں نئی ذیلی شقوں کے اضافے سے ممکن ہوسکا۔ یوں 1982سے1987کے دوران دو شقوں 295اور 298میں ذیلی شقوں B اور C شامل کی گئیں۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1987 سے قبل40 برسوں کے دوران توہین مذہب کے صرف درجن بھر مقدمات درج ہوئے تھے، جب کہ ان تعزیراتی قوانین میں نئی شقوں کے اضافے کے بعد سے اب تک ڈیڑھ ہزار سے زائد مقدمات درج ہوچکے ہیں۔ ان میں سے95 فیصد ذاتی دشمنی اور مفادات پر مشتمل ہیں۔

اس صورتحال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ توہین مذہب کا الزام عام طورپر ایک غیر مسلم کمیونٹی کے افراد پر لگتا ہے، جو پاکستان کی کل آبادی کا1.8فیصد کے قریب ہیں، لیکن سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ جیسے ہی کسی فرد پر توہین مذہب کا الزام لگتا ہے، مشتعل ہجوم قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر خودحملہ آور ہو جاتا ہے۔ اس عمل کی بعض سیاسی جماعتوں اور کچھ صحافیوںاور وکلا کی جانب سے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہاہے کہ ریاستی منتظمہ جو پہلے ہی اس رجحان پر قابو پانے میں عدم دلچسپی کا مظاہرہ کرتی رہی  ہے، مزید ہچکچاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔

عرض مدعا یہ ہے کہ جنرل ضیا الحق ایک آمر تھا۔ اس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا۔آتشیں اسلحہ اور منشیات کے ساتھ مذہبی جنون پرستی اور متشدد فرقہ واریت کا زہر بھی اس معاشرے کی رگوں میں بھر دیا۔ پاکستانی معاشرہ جواپنے مذہب سے بے پناہ عقیدت، اپنے نبی سے والہانہ عشق کے ساتھ صدیوں سے تحمل، برداشت اور رواداری کی روایات کا بھی امین رہا ہے۔آج تیزی کے ساتھ عدم برداشت اور عدم روادری کا شکار ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں مذہبی جنونیت اور متشدد فرقہ واریت میں اضافہ ہورہا ہے۔

مختلف عقائد اور مسالک کے لیے عدم قبولیت کے رجحان نے ہمارے معاشرے کو انتشار مسلسل یعنی (Gradual Chaos)کا شکارکردیا ہے، جو خطرناک حدودکو چھونے لگا ہے۔اس صورتحال سے سیاسی جماعتیں  اپنے سیاسی عزم وبصیرت کے ذریعے باآسانی نمٹ سکتی ہیں۔بشرطیکہ وہ نیک نیتی اور حوصلہ مندی کا مظاہرہ کریں۔ اگرسیاسی جماعتیں باہمی اختلافات اور سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر پارلیمنٹ کے ذریعے ان قوانین کے عمل درآمد کے میکنزم پر نظر ثانی کریں اور اس اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کریں کہ کوئی بھی فرد یا افراد کا گروہ اس نازک اور حساس مسئلے کو بنیاد بناکر قانون کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے سکے۔ تو بہتری کے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔

مشال قتل ایک ٹیسٹ کیس ہے، جو ہمیں بحیثیت معاشرہ اور حکمرانوں کو بحیثیت ریاستی منتظمہ یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ توہین مذہب کے جھوٹے الزامات کے تحت کب تک غیر مسلم اوردیگر شہری لقمہ اجل بنتے رہیں گے؟ کیا وہ نوجوان جو گھروں سے علم اور اسناد کے حصول کے لیے درسگاہوں میں جاتے ہیں،ان کی زندگیوں کو سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر اس طرح ختم کیا جاتا رہے گا؟یہ بات ان مذہبی جماعتوں کو بھی سوچنا چاہیے، جنہوں نے توہین مذہب کے قانون کو  سیاسی مفادات کے حصول کاذریعہ اوراپنی انا کا مسئلہ بنالیا ہے کہ کیا اس طرح وہ مذہب کی کوئی خدمت سرانجام دے رہی ہیں؟ ہمارے خیال میں سیاسی مفادات سے زیادہ اہم معاملہ معاشرے کی یکجہتی ہے۔کیونکہ ملکی بقا معاشرے کی یکجہتی ہی سے مشروط ہوتی ہے۔اس لیے اس سماجی گھٹن اور قانون کے بے استعمال کے خاتمے کے لیے بہرحال ٹھوس اقدامات لازمی طورپر کرنا ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔