دو جمع دو ……؟

امجد اسلام امجد  جمعرات 8 جون 2017
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

گزشتہ کالم تو بجٹ کے خسارے میں ہی نکل گیا سو سوچا کہ اس بار باقی دو باتوں کو ایک ہی کالم میں سمیٹ لیا جائے یعنی نہال ہاشمی صاحب کا استعفیٰ اور عزیزی حسین نواز کی مبینہ بے چارگی کی حامل تصویر اور اس پر ہونے والی حاشیہ آرائی پر ہی بات کی جائے مگر بین الاقوامی حوالے سے ایک ایسی خبر (سعودی عرب بمقابلہ قطر) سامنے آ گئی جس سے نظر بچا کر گزرنا مشکل بھی ہے اور غلط بھی کہ اس کا براہ راست تعلق ہماری خارجہ پالیسی اور امت مسلمہ کے مستقبل سے ہے، سو اب مختصراً ہی سہی تینوں باتوں کا ذکر ایک ساتھ ہی کرنا پڑے گا۔

نہال ہاشمی صاحب کی تقریر اس کی غائت اور وقت کا انتخاب تو اپنی جگہ پر ایک سوالیہ نشان تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ساتھ پہلے ان کے سینیٹ سے استعفیٰ کے اعلان اور پھر واپسی کی درخواست نے اس معاملے کو اگر مزید پر اسرار نہیں تو متنازعہ اور قیاس انگیز ضرور بنا دیا ہے۔ گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں مختلف اوقات اور مقامات پر ان سے سلام دعا تو ضرور ہوئی مگر کبھی کھل کر بات چیت کا موقع نہ مل سکا تھا، اتفاق سے چند ماہ قبل وہ لاہور سے کراچی کے ہوائی سفر میں میرے ساتھ والی نشست پر تھے، گفتگو کے دوران کا لہجہ‘ مزاج‘ باڈی لینگوئج اور عوامی وضع قطع‘ بشمول ان کی مسکراہٹ اور بر محل اشعار کے متاثر کن تھی۔ یہ جان کر مزید خوشی ہوئی کہ وہ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے ایک محنتی اور سیلف میڈ انسان ہیں اور ان کا تعلق وکالت کے پیشے سے ہے، ن لیگ کی سیٹ پر سینیٹ کے ممبر ہیں اور میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔

میں نے ان کی توجہ حکومت کی ترجیحات اور اس سے متعلق کچھ ملکی اور بین الاقوامی معاملات کی طرف مبذول کرائی اور اشارۃً یہ بھی ذکر کیا کہ میاں برادران کی ذاتی پسند نا پسند اور ذہنی رجحانات اپنی جگہ مگر بطور سیاستدان اور حکمران پارٹی کے رہنماؤں کے حوالے سے انھیں سارا زور ذاتی وفاداریوں اور روایتی سیاسی ہتھکنڈوں پر ہی صرف کرتے نہیں رہنا چاہیے کہ ملک اور معاشرے کو آگے لے جانے کے لیے ’’خلوص نیت‘‘ اور ’’دوڑ بھاگ‘‘ کے علاوہ بھی کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

انھوں نے میری باتوں کو جس تحمل سے سنا اور بیشتر سے اتفاق بھی کیا وہ یقیناً ایک خوشگوار تجربہ تھا کہ کسی بھی حکومت کے لیے اچھے‘ معقولیت پسند اور صاحبان ذوق مشیر کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے۔ اب اس عمومی خوشگوار تاثر کے پس منظر میں جب میں نے ان کی متعلقہ تقریر سنی تو کچھ دیر کے لیے مجھے اپنی آنکھوں اور کانوں پر یقین نہیں آیا، ایک لمحے کے لیے یہ بھی خیال آیا کہ کہیں یہ سوشل میڈیا پر متحرک جدید ٹیکنالوجی کے ماہر نوجوانوں کی کوئی شرارت نہ ہو کہ وہ ڈبنگ اور گٹ اپ کے ذریعے رانجھے کو ہیر اور ہیر کو رانجھا بنا کر پیش کرنے کا ہنر بھی جانتے ہیں۔

یہ تقریر انھوں نے کی یا ان سے کروائی گئی؟ اس کی تشہیر کا وقت‘ نوعیت‘ مواد‘ پنجابی فلموں کی بڑھکوں والا غیر فطری انداز اور موقع محل سب کے سب کسی طے شدہ ایجنڈے کا حصہ لگ رہے تھے لیکن یہ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ یہ ایجنڈا اصل میں کس کا ہے اور نہال ہاشمی جیسے سرد و گرم زمانہ چشیدہ شخص نے اپنا پورا سیاسی کیرئیر کس حوالے سے اور کس داؤ پر لگا دیا۔

تقریر کی مشہوری کے فوراً بعد ان کے استعفیٰ اور پارٹی کی طرف سے تردید اور سرزنش کی خبروں پر ابھی تبصرہ آرائی جاری تھی کہ انھوں نے چیئرمین سینیٹ کو اپنا استعفیٰ واپس لینے کی درخواست بھی کر دی جس سے یہ معاملہ اور زیادہ پیچیدہ ہو گیا ہے۔ حکمران جماعت کے اعلیٰ ترین رہنماؤں کی اس وقت عدلیہ اور فوج سے جو آویزش جاری ہے اس کا نقصان سب کو اور فائدہ کسی کو نہیں ہو گا، سو اگر یہ اسی کہانی کا کوئی موڑ ہے تو جان لینا چاہیے کہ اس کا کلائمکس بہرحال ایک اینٹی کلائمکس کی شکل اختیار کر جائے گا جس میں افراد سے زیادہ نقصان ملک و قوم کا ہو گا۔

وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کے صاحبزادے حسین نواز کی جو تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے اسے بھی اسی پس منظر میں دیکھنا چاہیے۔ سوال یہ نہیں کہ یہ کیسے لیک Leak ہوئی  یا کرائی گئی ہے، دیکھنے والی اور اصل بات یہ ہے کہ معاملات اس ڈگر پر پہنچے ہی کیوں ہیں؟ یہ بڑی مستحسن بات ہے کہ حکمران خاندان نے آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے آپ کو تفتیش اور صفائی کے لیے سپریم کورٹ یا جے آئی ٹی کے سامنے پیش کر دیا ہے کہ فی زمانہ یہ خوب صورت روایت پرانی داستانوں کا ایک حصہ بنتی جا رہی تھی مگر بہتر ہوتا کہ طرح طرح کے حکومتی ترجمان اسے ایک ’’تاریخی کارنامہ‘‘ ’’احسان عظیم‘‘ یا ’’مہربانی‘‘ کے بجائے اس کی اصل شکل میں ہی رہنے دیتے کہ جو کچھ ہوا وہ انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوا کہ قانون کی نظر میں تمام شہری ایک جیسے ہیں اور اپنے طور پر عائد کردہ الزامات کی وضاحت اور صفائی کے لیے متعلقہ عدالت کے روبرو پیش ہونا سب کے لیے ایک جیسا اور لازمی فریضہ ہے۔

مجھے یقین ہے کہ اگر حسین نواز کو شہزادہ اور وی وی آئی پی بنا کر اس کی مظلومیت کا پراپیگنڈہ نہ کیا جاتا تو اس کے عدالت کے سامنے پیش ہونے کے اس عمل کو زیادہ عزت اور تحسین کی نظروں سے دیکھا جاتا۔ اس صورت حال کی بہت حد تک ذمے داری ہمارے میڈیا پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی دکان چلانے کے لیے بھی نان ایشوز اور ایشوز کو آپس میں خلط ملط کر دیتا ہے لیکن بقول شخصے دھواں وہیں سے اٹھتا ہے جہاں آگ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہو۔ ہمارے معاشرے کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں تمام چیزیں موجود تو ہیں مگر اپنی اپنی جگہ پر نہیں ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ہر چیز کو اس کے میرٹ کے مطابق اور اس کی اصل جگہ پر رکھ کر دیکھنے کا رویہ اپنا لیں تو ہمارے بہت سارے گمبھیر نظر آنے والے مسائل خود بخود ختم ہو جائیں گے۔

صادق نسیم مرحوم کا ایک بہت عمدہ شعر اس صورت حال کی تشریح کچھ یوں کرتا ہے کہ

ہوا ہی ایسی چلتی ہے‘ ہر ایک سوچتا ہے

تمام شہر جلے‘ ایک مرا گھر نہ جلے

آگ کا ذکر آیا تو ذہن آج کے تیسرے اور گزشتہ چند دنوں میں رونما ہونے والے ایک ایسے تکلیف دہ اور خوفناک واقعے کی طرف مڑ گیا جس کی سنگینی کا احساس شاید امت مسلمہ ابھی تک کر ہی نہیں پا رہی کہ سعودی عرب نے اپنے چھ حلیف ملکوں سمیت یکدم نہ صرف قطر سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں بلکہ پوری امت اور اسلامی ملکوں کے اتحاد کو بھی ایک عجیب و غریب دوراہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ وجہ اس اقدام کی یہ بتائی گئی ہے کہ سعودی حکومت کے خیال میں ان کے ملک میں ہونے والی تخریبی کارروائیوں کے پیچھے حکومت قطر کا ہاتھ ہے۔

اس صورت حال کا تعلق بلاشبہ ترقی یافتہ اور مہنگا اسلحہ بیچنے والے ان ممالک سے بھی ہے جو مسلمانوں کو آپس میں لڑا لڑا کر ان کی منتشر مگر بہت بڑی اجتماعی طاقت کو نہ صرف ملیامیٹ کر رہے ہیں بلکہ بتدریج ان کے وسائل پر بھی قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں لیکن یہ موجودہ معاملہ اپنے اندر ایک نئی سمت کی نشاندہی بھی کر رہا ہے جس پر اگر فوراً غور نہ کیا گیا تو پورا عالم اسلام ایک ایسے انتشار کا رزق بن جائے گا جو اسے ذہنی فکری اور معاشی ہر حوالے سے بھکاریوں کے درجے پر کھڑا کر دے گا۔

وضاحت اور حوالے کے لیے صرف چند لمحوں کے لیے اس بات پر غور کیجیے کہ چند دن قبل امریکا کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ سعودی عرب کے ساتھ 110بلین ڈالر کے فوجی سازو سامان کا معاہدہ کر کے گیا ہے اور یہ وہی ڈونلڈ ٹرمپ ہے جس کے ملک امریکا کا اس وقت امریکا سے باہر سب سے بڑا فوجی اڈہ قطر میں ہے (بعض اطلاعات کے مطابق اپنے ہی ملک میں واقع اس علاقے میں خود امیر قطر بھی امریکی افسران کی اجازت کے بغیر قدم نہیں رکھ سکتا) اس اعتبار سے قطر امریکا کا انتہائی قریبی اور علانیہ حلیف ہے۔ اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ امریکا کے اس علانیہ حلیف پر ایک طرف تو سعودی عرب اپنے ملک میں دراندازی کا الزام لگا رہا ہے اور دوسری طرف امریکا سے احتجاج کرنے کے بجائے اسی سے اسلحہ بھی خرید رہا ہے۔

یہ اسلحہ کہاں استعمال ہو گا، ہو گا بھی یا نہیں لیکن یہ طے ہے کہ اس سودے سے نہ صرف امریکی تاجروں اور حکومت کی جیبیں بھریں گی بلکہ مسلمان ملکوں کے درمیان اختلافات کی ایک ایسی نئی دیوار بھی کھڑی ہو جائے گی جو ان کو مزید قلاش اور بے جہت کر دے گی۔ مسلمان روایتی طور پر حساب میں کمزور کہے جاتے ہیں مگر ایسا بھی کیا کہ اب ہمیں دو جمع دو چار بھی کچھ کاکچھ نظر آنے لگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔