میں تو ڈر جاتا ہوں!

ایاز خان  جمعرات 8 جون 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

یوسف رضا گیلانی نامی ایک وزیراعظم ہوا کرتے تھے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والا پیپلزپارٹی کا یہ وزیراعظم آل پاور فل چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری کی عدالت میں پیشیاں بھگتے بھگتے وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ تب میڈیا کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یوسف رضا گیلانی سے بڑا مجرم کوئی نہیں اور افتخار محمد چوہدری سے بڑا منصف دنیا میں پیدا ہی نہیں ہوا۔ وقت وقت کی بات ہے، کبھی وزیراعظم کمزور ہوتا ہے اور کبھی اس کے سامنے آنے والی ہر چیز۔ آج نواز شریف وزیراعظم ہیں تو سارا منظر نامہ ہی تبدیل ہو چکا ہے۔

نیوز لیکس سے ٹویٹ کی واپسی تک ہر بار سرخرو ہوئے تو صرف میاں صاحب۔ جس ادارے کے بارے میں شائبہ بھی ہوا کہ وہ انھیں چیلنج کر سکتا ہے اس کی وہ ’’عزت افزائی‘‘ کی گئی کہ خدا کی پناہ۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) ڈائریکٹ اور سپریم کورٹ کے ججز ان ڈائریکٹ نشانے پر ہیں۔ گزرے چند روز میں جس طرح سے جے آئی ٹی کو نشانہ بنایا جا رہا تھا اس کے بعد امید پیدا ہوئی تھی ایسا کرنے والے اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ بدھ کوجے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں 15روزہ رپورٹ پیش کی اور عدالتی کارروائی کے فوری بعد ن لیگی وزیروں اور مشیروں کا پارہ چڑھ گیا۔

گزشتہ دنوں کی سب سے اہم اور بڑی خبر بھارت کے ہاتھوں پاکستان کرکٹ ٹیم کی بدترین شکست نہیں۔ حسین نواز کی جے آئی ٹی میں پیشی کے موقع پر لیک ہونے والی تصویر ہے۔ جب سے یہ تصویر لیک ہوئی ہے اس کے بارے میں تبصرے جاری ہیں۔ سرکار کے نمایندوں کے ری ایکشن سے لگا کہ یہ تصویر لیک کرنے کا کارنامہ جے آئی ٹی کے ارکان نے انجام دیا۔ حسین نواز نے سپریم کورٹ میں جو درخواست دائر کی ہے اس میں بھی ذمے داری جے آئی ٹی پر ڈالی گئی ہے۔ ساری توپوں کا رخ چونکہ جے آئی ٹی کی طرف ہے اس لیے یہ آسانی کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ ایک فریق کو اپنی مرضی کے مطابق انصاف کی توقع نہیں ہے۔ نیوز لیکس کی انکوائری کمیٹی کا فیصلہ نہ صرف توقعات کے مطابق تھا بلکہ بقول وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان متفقہ بھی تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ حسین نواز کی تصویر لیک کر کے شریف خاندان کی تضحیک کی گئی۔ میں نے اس تصویر کو بار بار دیکھا ہے اور جب سے یہ لیک ہوئی ہے تب سے اس میں تضحیک کا پہلو تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

سپریم کورٹ نے جب جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا تب ہی یہ بات سب کو معلوم ہو گئی تھی کہ اس کا کام کیا ہو گا۔ جے آئی ٹی نے ایسا کیا کر دیا جو ایسے نہیں کرنا چاہیے تھا۔ تصویر میں حسین نواز ایک آرام دہ کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان کی بائیں طرف ایک ٹیبل پڑی ہوئی ہے جس پر ٹشو پیپر کا ڈبہ سب سے نمایاں ہے۔ یعنی جب گھنٹوں پر محیط پوچھ گچھ ہوتی ہے تو ٹشو پیپرکی ضرورت تو پڑتی ہے۔ جے آئی ٹی والے اس سے زیادہ اور کیا خیال رکھ سکتے ہیں۔ رمضان کی وجہ سے کھانے پینے کی کوئی چیز تو وہاں موجود ہو نہیں سکتی تھی۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ وزیراعظم کے بیٹے کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا حکم دینے کی وجہ سے توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہے تو پھر ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ مجھے تو تصویر دیکھ کر یوں لگا تھا کہ کسی انتہائی اہم شخصیت کو بڑے عزت و احترام کے ساتھ بٹھایا گیا ہے۔ بہرحال دیکھنے کا اپنا اپنا انداز ہے۔

سپریم کورٹ کے مطابق جے آئی ٹی کی تحقیقات درست سمت میں جارہی ہے لیکن طلال چوہدری، دانیال عزیز اور رانا ثناء اللہ کا کچھ اور ہی خیال ہے۔ صوبائی وزیرقانون فرماتے ہیں جے آئی ٹی کی رپورٹ متنازع ہوئی تو حالات خراب ہو سکتے ہیں۔ ایسی دھمکیاں رانا صاحب پہلے بھی دے چکے ہیں۔ قائد تیرا ایک اشارہ، حاضر حاضر لہو ہمارا، والے یہ لوگ انصاف کے اداروں کو صرف ایک پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اگر فیصلہ ان کے قائد کے خلاف آیا تو اسے تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ چوہدری شجاعت حسین نے دو روز قبل کچھ الزامات لگائے ہیں لیکن حیرت ہے کسی ن لیگی نے ان کی وضاحت یا تردید نہیں کی۔ سپریم کورٹ پر حملہ، جسٹس سجاد علی شاہ مرحوم کو ایک رات کے لیے ہی سہی جیل بھجوانے کی خواہش، بیوروکریٹس کو ہتھکڑیاں لگوانے کا شوق بھی تو میاں صاحب نے ہی پورا کیا تھا۔

کیا آپ کو یاد نہیں جس دن نیب نے میگا کرپشن کے کیسز سپریم کورٹ میں پیش کیے تھے اس دن کیا کہا گیا تھا۔ پرویز رشید تب وفاقی وزیراطلاعات تھے ،انھوں نے کہا تھا نیب کے پرکاٹ دیے جائیں گے۔ اب جے آئی ٹی والے جب سپریم کورٹ میں یہ شکایت کر رہے ہیں کہ انھیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں یا ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں تو اس پر مجھے تو کوئی حیرت نہیں ہوتی۔ بڑا آسان طریقہ ہے دھمکیاں بھی دیتے جاؤ اور اپنی مظلومیت کا رونا بھی روتے جاؤ۔

جے آئی ٹی کی کارروائی اور سپریم کورٹ کے معزز ججز کے ریمارکس سے نہیں لگتا کہ ن لیگ کی یہ حکمت عملی کامیاب ہوگی کہ جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ کو انڈر پریشر کیا جاسکے۔ نہال ہاشمی سخت ترین دھمکیاں دینے اور معافیاں مانگنے کے بعد پھر سے کھڑے ہو چکے ہیں۔انھیں یقیناً کہیں سے ڈٹ جانے کا پیغام ملا ہو گا۔ جوڈیشل کمیشن ہو، انکوائری یا انویسٹی گیشن ٹیم ، رپورٹ ہمارے حق میں ہے تو ٹھیک ورنہ ناانصافی۔ پانامہ کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران بھی دھمکیاں سنائی دیتی رہیں۔ فیصلہ آیا تو ن لیگ نے یہ تاثر دیا جیسے ان کے قائد نے مقدمہ جیت لیا۔ مٹھائیاں کھائی گئیں۔ پھر جب فیصلے کی سمجھ آئی تو وہی مٹھائیاں منہ میں زہر گھولنے لگیں۔ وزیراعظم سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کیا گیا مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ عوامی طاقت سے اقتدار میں آنے والوں کو نجانے کیوں عوام کے پاس دوبارہ جانا پسند نہیں ہے۔

کیا عجیب تماشا ہے ایک وزیراعظم کو گھر بھجوانے سے فرق نہیں پڑتا اور دوسرے کے بیٹے کی تصویر لیک ہو جائے تو تضحیک ہو جاتی ہے۔ شاہی خاندان اور عام لوگوں میں یہی فرق ہوتا ہے۔ عام آدمی کی تفتیش کے دوران زمین پر لٹا کر چھترول کرنا بھی جائز ہے اور شاہی خاندان کے کسی فرد کو تفتیش کے لیے کرسی پر بٹھانا بھی تضحیک کے زمرے میں آتا ہے۔

سپریم کورٹ جے آئی ٹی کو ایک دن کا اضافی وقت دینے کو بھی تیار نہیںہے۔ قطری شہزادے کے نہ آنے کی اطلاعات ہیں۔ جے آئی ٹی یا سپریم کورٹ پریشر میں آنے کے لیے تیار نظر نہیں آتیں۔ ایسی صورتحال میں حکمران جماعت کرے بھی تو کیا کرے۔ منی ٹریل کے ثبوت ہوتے تو پانامہ کیس اتنی دیر کیوں چلتا۔ جمائما کی طرح کسی بعد کی اسٹیج پر منی ٹریل کے ثبوت مل جاتے تو جے آئی ٹی کی ضرورت کیوں پیش آتی۔ ثبوت تب تھے نہ اب ہیں۔ جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ اپنی اپنی جگہ پوری قوت سے موجود نظر آتے ہیں۔ پھر کیا آپشن باقی رہ جاتی ہے۔ رانا ثناء اللہ نے اس طرف اشارہ تو کر دیا ہے۔ موصوف کہتے ہیں جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی مگر وہ سپریم کورٹ نہیں ہے۔ جے آئی ٹی کے بائیکاٹ کا اختیار شریف فیملی کے پاس ہے۔ جے آئی ٹی نے حسین نواز کو پانچویں اور حسن نواز کو دوسری بار طلب کر لیا ہے۔کچھ اور کردار بھی طلب کیے جانے کا امکان ہے۔ اگر بات وزیراعظم کی طلبی تک پہنچ گئی…یہ سوچ کر بھی…میں تو ڈر جاتا ہوں!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔