کھائیوں میں مت جھانکو

رفیع اللہ میاں  جمعرات 8 جون 2017

نطشے نے کہا تھا جب تم اندھی کھائی میں جھانکتے ہو توکچھ دیر بعد وہ کھائی تمھارے اندر بھی جھانکنے لگ جاتی ہے۔ انسان کے اندر بھی ایک گہری کھائی ہوتی ہے جہاں اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔ باہر کی کھائی اندرکی کھائی سے کنیکٹ ہو جاتی ہے۔ یوں سمجھیں کہ باہرکی اندھی کھائی ایک آئینہ ہے جو انسان کو اس کے اندرکی اندھی کھائی کا عکس دکھا دیتی ہے۔ اپنی اس کھائی کو بھولنا نہیں چاہیے یا یوں کہیں کہ ہمیں باہر کی کھائیوں کو دل چسپی سے دیکھتے نہیں رہنا چاہیے‘ ان میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ یہ اندر کی کھائی کو متحرک کر دیتی ہیں۔

برطانیہ کے شہر مانچسٹر میں کنسرٹ ہال کے باہر خودکش دھماکہ اندر کی کھائی کے متحرک ہونے کا شاخسانہ دکھائی دیتا ہے۔ داعش، لیبیا، عراق، شام ایسی اندھی کھائیوں میں یہ پہلی دنیا کتنی دل چسپی لیتی رہی ہے۔ ان کھائیوں کو اس دنیا نے ضم کر کے ایک مارکیٹ کی شکل دی تھی جہاں وہ اپنی آتشیں مصنوعات کے ذریعے اپنے سرمائے میں مزید سرمایہ شامل کرتے تھے۔

کیپٹل، کیپٹل، کیپٹل۔ کچھ لوگ سب سے آگے دوڑتے ہیں، کچھ ان سے پیچھے ہوتے ہیں، کچھ ان سے بھی پیچھے اور یہ سلسلہ دوڑ میں شامل اس آخری فرد پر جا کر ختم ہوتا ہے جو پاؤں گھسیٹتا دوڑ رہا ہوتا ہے‘ بغیرکسی مقصد کے۔ سب دوڑتے ہیں تو اسے بھی دوڑنا چاہیے۔ سرمایہ بھی تو ایک اندھی کھائی ہے جس کے اندر ہر کوئی بے پناہ دل چسپی سے جھانکتا ہے‘ اور یہ جھانکنا اگرچہ کوئی مقصد نہیں لیکن یہی بے مقصدیت ان کی زندگی کا مقصد بن جاتا ہے۔ جھانکنے والے بے خبر ہوتے ہیں اور اندھی کھائی ان کے اندر کی اندھی کھائی کو گھسیٹ کر متحرک کر دیتی ہے۔ پھر وہ چاہے مر رہا ہو یا ذلت کی زندگی جی رہا ہو، اسے پاؤں گھسیٹ کر دوڑ میں شامل رہنا پڑتا ہے، بھلے دوڑ میں آخری وہی ہو۔

مانچسٹر میں افسوس ناک دھماکے کے بعد کسی شرپسند یا شرپسندوں نے وہاں ایک مسجد کو آگ لگا دی۔ ایسا لگا کہ ہمارے معاشرے کی اندھی کھائی جا کر مانچسٹر میں الٹ گئی ہو۔ خاص فرقوں کو پہنچنے والے نقصان کے بعد دیگر عبادت گاہوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے یہاں۔ انسان پہلے اندھی کھائیاں بناتا ہے اور پھر ان میں بہت دل چسپی سے جھانک جھانک کر دیکھتا ہے اور آوازیں نکالتا ہے تا کہ ان کی بازگشت سے اپنی سماعت کو تسکین پہنچا سکے۔ پھر اندھی کھائی کی سیاہ روشنی سے بھری آنکھیں اس کی آنکھوں میں اتر کر اندر پہنچ جاتی ہیں اور یہ وہاں اپنے جیسی ایک اندھی کھائی کو جنم دے دیتی ہیں۔ پھر انسان کے اندراس کی اپنی نکالی آوازوں کی بازگشت سنائی دینے لگتی ہے۔ وہ باہر موجود گہری کھائی میں آواز چھوڑتا ہے اور بازگشت سے سماعت کو خوش کرتا ہے۔ جب خاموشی پھیل جاتی ہے تو اچانک اس کے اندر سے اس آواز کی بازگشت اٹھتی ہے اور اس کے وجود کو دہلا دیتی ہے۔

کھائی‘ کھائی کا آئینہ ہوتی ہے۔ کھائیوں پر سرمایہ کاری سفاک ذہنوں کی اتاہ انسان دشمنی ہے۔ سرمایہ کاری کے اس نظام کی ابدیت کے لیے یہ اپنے اندر پیدا ہونے والی دراڑوں یعنی تضادات کو اسی مکروہ سرمائے سے بھرتے رہتے ہیں۔ مذہب پسند بھی اس کے مزدور ہیں‘ مذہب بے زار بھی اس کے مزدور ہیں۔ خدا پرست بھی اس کے مزدور ہیں اور فطرت پرست بھی اس کے مزدور ہیں۔ انفرادیت پسند ہوں یا سوشلزم کے علم بردار، یہ سفاک ذہن ہر ایک کو اپنے دراڑ سرمائے سے بھرنے کے لیے استعمال کر لیتا ہے۔

کارل مارکس جیسے پیچیدہ، زیرک اور منفرد دماغ نے شے/ جنس کو بھوت میں تبدیل ہوتے دکھایا تو اس سفاک ذہن نے پوری دنیا بھوتوں سے بھر دی۔ مارکس نے سرمائے کے اندر اندھی کھائی دکھائی تھی اور اس کے اندر بہت دیر اور بہت دور تک جھانکا تھا۔ پھر اس کھائی کی کشش سے اس کے اندرکی کھائی متحرک ہوئی اور وہ جنس کے کروڑوں بھوتوں کے درمیان ایک بھوت بن گیا‘ ایک بے ضرر بھوت۔ یہ سفاک سرمایہ کار ذہن اپنے بدترین دشمن کو بھی مارکر ختم نہیں کرتا، اسے بھوت بننے دے کر دنیا میں آزاد چھوڑ دیتا ہے تا کہ آزاد سرمایہ کاری جاری رہ سکے۔

سرمایہ دارانہ نظام زمین پر موجود ایک عظیم اندھی کھائی ہے۔ یہ ہر شخص اور ہر سماج کے اندر کھائیوں کو متحرک کر لیتا ہے۔ اس کی سیاہ روشنی والی آنکھوں میں اتنی کشش ہے کہ مضبوط سے مضبوط عزم والے انسان کو بھی ایک بار اس سے آنکھیں دوچار کرنے کے بعد جکڑ لیتا ہے۔ وہ اس کا بدترین دشمن ہو کر بھی کچھ نہیں بگاڑ پاتا۔ یہ ان گنت بھوتوں کا مسکن ہے جس میں جھانکنے والے کو یہ چمٹ کر بھوت بنا دیتے ہیں۔ کیا انسان اندھی کھائیوں میں جھانکنے سے خود کو نہیں روک سکتا۔ یہ جب عظیم اندھی کھائی میں جھانکتا ہے تو خود کے اندر بھی کھائی کو متحرک کر دیتا ہے پھر یہ جگہ جگہ کھائیاں بنانے کا مشغلہ بھی اپنا لیتا ہے۔

سفاک اذہان اس سیاہ کشش کے باعث دنیا میں ظلم اور ناانصافی کی فصلیں کاشت کرتے ہیں۔ یہ چالاکی سے اپنے سماج کو پہلا بنا کر دوسرے اور تیسرے سماجوں کی تشکیل کر کے خوں خار طبع کو تسکین پہنچاتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے سماجوں میں من پسند اندھی کھائیاں تخلیق کرتے ہیں اور پھر ان میں دل چسپی سے جھانکنے کا مشغلہ اپناتے ہیں اور پھر ویسی ہی ایک کھائی ان کے ہاں بھی بن جاتی ہے لیکن کیا اس سے واقعی ان سفاک اذہان پر کوئی فرق پڑتا ہے؟ نہیں‘ کیوں کہ اس تضاد کو مصنوعی طور پر تحلیل کرنے اور اس دراڑ کو سرمائے ہی سے بھرنے کے لیے یہ پھر سے مذہب پسند اور مذہب بے زراوں کو مزدوری پر لگادیتے ہیں۔ یہ مزدور اس عظیم اندھی کھائی میں دل چسپی سے جھانکنے کی سزا بھگتتے ہیں۔ نطشے نے کہا تھا جب تم اندھی کھائی میں جھانکتے ہو تو کچھ دیر بعد وہ کھائی تمھارے اندر بھی جھانکنے لگ جاتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔