انقلابی جنونی

نصرت جاوید  منگل 29 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

فرانسیسی مفکروں کے ایک بڑے اور رائے عامہ بنانے کے حوالے سے بہت بااثر سمجھے جانے والے ایک گروہ نے 1960کی پوری دہائی یہ ثابت کرنے میں گزاردی کہ ’’اجنبی‘‘ نام کا ایک ناول لکھنے کے بعد دنیا کو متحیر کردینے والا البرٹ کامیو اپنی عمر کے آخری دنوں میں ’’بکری‘‘ ہوگیا تھا۔’’انسان پسندی‘‘ کے نام پر اس نے اپنی تحریروں کے ذریعے یہ ثابت کرنا چاہا کہ معاشرے کو ’’انقلاب‘‘ کے ذریعے تبدیل کرنے کی جدوجہد میں مبتلا لوگ درحقیقت سفاک جنونی ہواکرتے ہیں ۔ان لوگوں کا زندہ رہنا بھی گوارا نہیں کرتے جو ان کے ’’انقلابی معیار‘‘ پر پورا نہیں اُترتے۔1970 کے عشرے میں کالج جانے کے پہلے دن سے میں نے بھی خود کو ’’انقلابی‘‘ سمجھنا شروع کردیا تھا۔’’اجنبی‘‘ خرید کر پڑھنا چاہا تو چند صفحات سے آگے نہ بڑھ پایا ۔اس ناول کا مرکزی کردار اور اس کا بیانیہ میری سمجھ سے بالا تر تھے ۔مگر اس ناول کو پورا پڑھے اور سمجھے بغیر میں اپنے دانشور دوستوں میں بیٹھ کرکامیو کے پرخچے اُڑادیتا۔میرے دوست میرے خطاب سے بہت متاثر ہوتے ۔

غازی ضیاء الحق کے رچائے ’’افغان جہاد‘‘ کی پیہم کامیابیوں کے بعد بالآخرمیں بھی ’’بکری‘‘ ہوگیا۔پوری طرح سمجھ گیا کہ ہمارے جیسے ملکوں کی اشرافیہ بہت طاقتور ہوا کرتی ہے ۔اسے شکست دینے کے لیے بہت سوچ بچار کے بعد ایک تخلیقی حکمت عملی کے تحت بھرپور سیاسی جدوجہد کی ضرورت ہے جو کم از کم میرے بس سے باہر تھی۔اپنی’’اوقات‘‘ پہچاننے کے اس عمل میں البرٹ کامیو میرے بہت کام آیا۔خاص کر اس کی شہرہ آفاق کتاب ’’باغی‘‘۔

اس کتاب کا آغاز وہ انگریزی کے ایک مشہور ناول کے ہیرو کے تذکرے سے کرتا ہے اور آہستہ آہستہ بڑی سادہ زبان میں دلائل بُنتا ہوا ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ عشق کے ہاتھوں دیوانہ ہوا کوئی ایک فرد بالآخرایک سفاک قاتل بن جائے تو شاید اسے معاف کیا جاسکتا ہے۔مگر انقلابی ہونے کے دعوے دار ان جنونیوں سے ہر صورت میں بچ کر رہنا چاہیے جو خلقِ خدا کو ’’عقلی دلائل‘‘ کے سہارے اذیت دینے کے خبط میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔انگریزی کا ایک محاورہ بڑی وضاحت سے اعلان کرتا ہے کہ جہنم تک لے جانے والا راستہ اکثر’’نیک ارادوں‘‘ سے بنایا جاتا ہے ۔خیر کے نام پر انتشار پیدا کرنے والے جنونیوں کو مشہور روسی ناول نگار دوستوفسکی نے بھی اپنے ایک ناولPossessedکے ذریعے بھرپور طریقے سے بے نقاب کیا ہے ۔روس ہی کے ایک اور مہا لکھاری ترگنیف نے بھی ’’باپ اور بیٹے ‘‘ نام والے ناول کے ذریعے اس لاحاصلی کا ماتم کیا ہے جو اس کے دور کے تبدیلی کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کا مقدر بنی۔

ہمارے ہاں بھی آج کل انقلاب اور تبدیلی کا ذکر بار بار ہورہا ہے ۔ان کا پرچا کرنے والوں کے جنون کو پوری طرح سمجھنا ہو تو بس انٹرنیٹ پرجاکر ان لوگوں کے نام ڈھونڈلیجیے جنھیں آج کل کے انقلابی ’’بکائو دانشور اور لفافہ صحافی‘‘ کہتے ہیں ۔’’اسٹیٹس کو کے حامیوں‘‘ کو جن القاب سے نوازا جاتا ہے اور کسی بھی صحت مند انسان کو فشار ِخون کے مرض میں مبتلا کرنے کے لیے کافی ہیں۔ انقلابیوں کے ساتھ ساتھ ہمارے ہاں’’ پارسائی‘‘ کا پرچار کرنے والے جنونیوں کی تعداد بھی دن بدن بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔

اپنے تئیں پارسا بنے یہ لکھاری’’آئین پاکستان‘‘ کی مکمل اور بھرپور عمل داری چاہتے ہیں اور اس ضمن میں ان کی سوئی آئین کے آرٹیکل 62اور 63پر اٹک کر رہ گئی ہے۔ان آرٹیکلز کا ہذیانی اندازمیں حوالے دیتے ہوئے اس امر کو یقینی بنانے کی ہرممکن کوشش ہورہی ہے کہ ’’چور،لٹیرے اور جعلی ڈگریوں والے‘‘ آیندہ انتخابات میں کھڑے نہ ہوسکیں۔ انتخابات میں شرکت صرف صادق اور امین لوگوں کا حق ٹھہرے۔پارسابنے جنونیوں کی اس خواہش کو رد کرنے والا میں کون ہوتا ہوں۔مگر مصیبت یہ ہے کہ آیندہ انتخابات میں کسی کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ پہلے الیکشن کمیشن اور پھر ہمارے ووٹروں نے کرنا ہے ۔انتخابات کے دنوں میں ہمارے ہاں مرکز اور صوبوں میں عبوری حکومتیں بھی بنائی جائیں گی ۔ آئینی طورپر ان حکومتوں کی نوعیت’’ڈنگ ٹپائو‘‘ سمجھی جانا چاہیے ۔

مگر پارسائی فروشوں کا اصرار ہے کہ ان حکومتوں میں بھی مستند صادق اور امین موجود ہوں۔گزشتہ کئی مہینوں سے آئینی طورپر ضروری ٹھہرائی گئی مشاورت کے لیے حکومت اور قومی اسمبلی میں موجود قائد حزب اختلاف کے درمیان بلواسطہ مذاکرات چل رہے ہیں اور کم از کم عبوری وزیر اعظم کے لیے کچھ ناموں پر اتفاق ہوتا بھی نظر آرہا ہے ۔اس اتفاق کے رونما ہونے سے کئی مہینے پہلے سے میں اس کالم میں بار بار دہائی دے رہا ہوں کہ پاکستان کے چند بہت ہی بااثر افراد اور ادارے موجودہ حکومت کے بعد ایک اور منتخب حکومت لانے کے خواہش مند نہیں ہیں ۔ان کی پوری کوشش ہے کہ موجودہ حکومت کے بعد’’اہل ،دیانتدار اور محب الوطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی ایک حکومت بنے جو کم ازکم تین سال تک سیاستدانوں کا کڑا احتساب کرنے کے بعد ’’قوم کی لوٹی ہوئی دولت ‘‘ واپس سرکاری خزانے میں لائے اور پاکستانی معیشت کے جمود کے خاتمے کے لیے وہ سارے بنیادی مگر غیر مقبول فیصلے کرڈالے جو ’’ووٹوں کے محتاج‘‘ سیاستدان سوچنے کی بھی جرأت نہیں کرپاتے۔

کینیڈا سے اچانک پاکستان آکر اسلام آباد میں دھرنا رچانے والا قادری اسی ’’نیک مقصد‘‘ کے لیے کام کررہا ہے ۔اسے کامیاب کرنے کے لیے یہ بات بھی بہت ضروری ہے کہ قوم کسی عبوری وزیراعظم کے نام پر اتفاق نہ کرپائے ۔ میں نے ایک کالم میں آپ کو بتایا تھا کہ قادری کے کنٹینر میں نمایاں دِکھنے والا ایک شخص لندن روانہ ہونے سے پہلے بڑی بے تابی کے ساتھ ان ممکنہ لوگوں کے نام جاننا چاہ رہا تھا جو عبوری وزیرا عظم ہوسکتے ہیں ۔ان ناموں کو ڈھونڈنے کا اصل مقصد ان کے چہرے پر کالک ملنا اور ان کی ذات پر کیچڑاُچھالنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا۔ رضا ربانی نے سینیٹ کے ایک اجلاس میں قادری کے خلاف تقریر کرنے کے بعد اپنی ذات پر رکیک حملے پہلے ہی سہہ لیے ہیں ۔آج کل عاصمہ جہانگیر پارسا توپوں کے نشانے پر ہیں ۔

ملک غلام جیلانی جیسے گھر پھونک کر اس ملک میں جمہوری قدروں کو پھیلانے کی جدوجہد کرنے والے ایک جنونی کی یہ بہادر بیٹی ’’چوروں لٹیروں‘‘ کی حامی قرار دی جاچکی ہے۔اب اس کا ’’ایمان‘‘ بھی خوردبین کے نیچے رکھ دیا گیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ عاصمہ کے ایمان کاپوسٹ مارٹم کرنے والوں کو یہ خبر ہی نہیں کہ اس نے خود اپنی بجائے ایک نیک نام جج کا نام عبوری وزیر اعظم کے طورپر تجویز کررکھا ہے۔اس کے بعد تو اس کو معاف کردیا جانا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔