بے ثباتی زمانے کی

سائرہ اکبر  منگل 29 جنوری 2013

ہم نے چند دن قبل ایک پروگرام دیکھا جسے چاہنے کے باوجود چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر نہ دیکھ سکے، یہ ایک فیملی کے حوالے سے پروگرام تھا جس میں ان کے آپس کے رویے اور تعلقات کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی۔ اس میں یہ دیکھ کر پروگرام میں موجود افراد کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی بے حد حیرانگی ہوئی کہ نو عمر بہن بھائی جو اپنے سگے والدین کے ساتھ شریک تھے اور اس پروگرام میں جس کے حوالے سے بات ہو رہی تھی وہ ان کی سوتیلی بہن تھی جسے اس کی والدہ مرحومہ کی دو بہنیں (خالائیں) اس پروگرام میں اپنے ساتھ لائی تھیں اور بنیادی طور پر اسی کے سلسلے میں یہ سارا پروگرام کیا جا رہا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ ایک خاتون نے اپنے پہلے شوہر کی وفات کے بعد دوسری شادی کر لی اور اس گھر میں اپنے ساتھ اپنے پہلے شوہر کے دو بچے (ایک بیٹا، ایک بیٹی) لے کر آئی تھی جب کہ دوسری طرف اس شخص (خاتون کے موجودہ شوہر) کی بھی یہ دوسری شادی تھی جس کی بیوی بھی انتقال کر چکی تھی جس سے اس کی ایک بیٹی تھی (یہی لڑکی) جس کی عمر اس کی خالائیں24، 25 سال بتا رہی تھیں ان کو اپنے سابقہ بہنوئی سے یہ گلہ تھا کہ وہ اپنی اس بچی پر کوئی توجہ نہیں دے رہے اور اپنی موجودہ بیگم اور اپنی نجی مصروفیات میں اس قدر گم ہیں کہ ہمارے لاکھ کہنے سننے پر بھی اس بچی کا گھر آباد کرنے پر کوئی دلچسپی نہیں لے رہے جب کہ متعدد بار ہم نے بھی اور دیگر جاننے والوں نے بھی اس بچی کے لیے بے شمار اچھے اور بہترین رشتے انھیں بتائے لیکن یہ اس قدر بے حس ہو چکے ہیں کہ انھیں اپنی جوان بچی کے اس اہم فرض کو نبھانے کا احساس ہی نہیں ہے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ان کی دوسری بیگم کو اپنے گھر میں ایک فل ٹائم نوکرانی چاہیے جو ہمہ وقت نہ صرف ان کے گھر کو سنبھالے بلکہ ان کے بچوں کی بھی دیکھ بھال کرے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ آج یہ بچی جو اتنے صاف ستھرے حلیے میں نظر آ رہی ہے وہ اس لیے کہ اسے اب ہم اپنے گھر لے آئے ہیں ورنہ آپ اگر (ان کا اشارہ میزبان کی جانب تھا) اسے اس کے باپ کے گھر میں دیکھ لیتیں تو آپ پہچان نہیں سکتی تھیں کہ یہ اسی گھر کی بیٹی ہے یا پھر کوئی نوکرانی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وہاں کتنے خراب اور گندے حلیے میں رہتی ہے، یہ وہاں اس گھر میں اکیلی صبح سے شام تک بے شمار کام کرتی ہے جب کہ اس کی سوتیلی ماں کو تو جاب سے آنے کے بعد آرام کرنے، گھومنے پھرنے یا پارلر اور جم جانے سے ہی فرصت نہیں ملتی، اوپر سے آئے دن گھر میں دعوتیں ہوتی رہتی ہیں۔

اسی دوران میزبان نے بچی کے والد، اس کی سوتیلی ماں، بہن بھائی کو پروگرام میں بلایا تو پروگرام میں شامل تمام لوگ یہ دیکھ کر مجھ سمیت شدید حیران رہ گئے کہ اس بچی کے سوتیلے بہن بھائی اس بچی سے نہ صرف بے حد گرم جوشی سے ملے بلکہ اس کی سوتیلی بہن تو ماں باپ کے بجائے لپک کر جگہ نہ ہونے کے باوجود اسی بچی کے ساتھ زبردستی جا کر بیٹھی جب کہ اس کا بھائی جو دیکھنے میں کالج اسٹوڈنٹ لگ رہا تھا اس نے پروگرام میں آ کر اپنی سگی ماں کے خلاف اتنا کچھ کہا جسے سن کر یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ نوجوان لڑکا جو انتہائی جوش و غصے کے عالم میں بول رہا تھا، یہ سچ مچ ان بنی سنوری خاتون ہی کا سگا بیٹا ہے۔ اس نے بھی کم و بیش وہی باتیں کیں جو اس معصوم لڑکی کی خالائیں کر چکی تھیں صرف اس میں اس بات کا اضافہ کیا کہ ہمیں اپنی سگی ماں سے کبھی وہ پیار محبت و شفقت نہیں ملی جو ہمیں اس سے ملی۔

(اس کا اشارہ اپنی سوتیلی بہن کی طرف تھا)۔ اس نے ہمیں ماں بن کر پالا ہے، ہم چھ سات سال کے تھے اس وقت سے یہ ہماری دیکھ بھال کر رہی ہے یہ ہمیں اسکول کے لیے تیار کرتی تھی ہم دونوں بہن بھائی کے سارے کام کرتی تھی، ہم نے اسے ہمیشہ مصروف ہی دیکھا۔ یہ ایک طرف واشنگ مشین لگاتی تو دوسری طرف آٹا گوندھ رہی ہوتی تو تیسری طرف کوئی اور کام بھی دیکھتی جاتی۔ اس نے بلاشبہ وہ کچھ کیا جو آج تک ہماری سگی ماں نے نہیں کیا کہ یہ زیادہ تر وقت تو اپنی نئی شادی ہی میں الجھی رہیں اس سے فرصت ملتی تو پارلر اور جم آنے جانے، گھومنے پھرنے یا پھر آئے دن کی دعوتوں میں مصروف رہتیں۔ اسی لیے انھیں کبھی ہماری جانب دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملی، جس پر اس خاتون کے اپنے جواں سال بیٹے سے یہ سب سن کر ہمارے ساتھ ساتھ پروگرام میں شریک تمام افراد ششدر رہ گئے۔

اس پروگرام کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو اگر رشتوں میں لفظ سوتیلا شامل ہو جائے تو اس سے تعلقات میں بے حد کڑواہٹ آ جاتی ہے جب کہ یہاں تو رشتے ہی خالص نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ان کی محبت و یگانگت دیدنی تھی جب کہ ہم نے چند روز قبل پاکستان کی ایک صف اول کی گلوکارہ کے حوالے سے پڑھا جن کی آواز کانوں میں رس گھول دیتی تھی اور بدقسمتی سے ابھی ہم ان کے حوالے سے لکھ ہی رہے تھے کہ ان کی وفات کی خبر آ گئی کہ وہ جو کافی عرصے سے علیل تھیں، علاج کی غرض سے اپنے بھائی کے پاس امریکا جا رہی تھیں کہ دوران پرواز بحرین کے مناما ایئر پورٹ پر ان کی سانس کی ڈور ٹوٹ گئی تو یہ جان کر ہمیں بے حد دکھ پہنچا کہ ان کے حوالے سے چند روز قبل ہی پڑھا تھا جسے پڑھ کر انتہائی افسوس ہوا تھا کہ یہ عظیم گلوکارہ بے حد کسمپرسی میں زندگی بسر کر رہی تھیں، ملک کے اعلیٰ ترین اعزاز کے علاوہ بے شمار دیگر ایوارڈز حاصل کرنے والی یہ گلوکارہ خود کہہ رہی تھیں کہ ’’میں اس قدر بیمار رہنے لگی ہوں کہ مجھے ہر وقت دعاؤں کی ضرورت رہتی ہے، تو مجھے تمام حاصل ہونے والے اعزازات میرے کس کام کے کہ ان سے دوائیں نہیں آتیں‘‘ وہ بلڈ پریشر، شوگر اور پھیپھڑوں کی سوزش کے عارضے میں مبتلا تھیں، اس ضمن میں ہم نے ان کی وفات کے بعد پڑھا کہ وہ کچھ عرصہ پہلے بھی کئی ماہ تک امریکی ریاست میامی میں اپنے بھائی کے پاس رہیں اور اپنا علاج کرواتی رہیں۔ پھر طبیعت بہتر ہونے پر واپس وطن آ گئیں۔ اور پھر کچھ عرصہ بعدعلاج کی غرض سے امریکا کے لیے روانہ ہو گئیں مگر زندگی نے وفا نہ کی اور یوں یہ ہر دلعزیز گلوکارہ ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔