ایران میں دہشت گردی

ایڈیٹوریل  جمعـء 9 جون 2017
اسمبلی میں فائرنگ سے زخمی افراد کو ایمبولینس کے ذریعے اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

اسمبلی میں فائرنگ سے زخمی افراد کو ایمبولینس کے ذریعے اسپتال منتقل کیا جارہا ہے۔ فوٹو: انٹرنیٹ

ایران کے دارالحکومت تہران میں ایرانی پارلیمنٹ اور ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے مزار پر دہشت گردانہ حملوں میں13افراد جاں بحق اور بیالیس زخمی ہو گئے۔ چار حملہ آوروں کو سیکیورٹی فورسز نے ہلاک کردیا جب کہ دو نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ پاکستان نے  دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے عالمی سطح پر تعاون اور مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا نے ایک بیان میں کہا ہم دکھ کی اس گھڑی میں ایرانی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔ پاکستان نے دہشت گرد حملوں میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر ایرانی حکومت ،لواحقین اور عوام کے ساتھ دلی تعزیت کا اظہار کیا اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی ہے۔بھارت، افغانستان، امریکا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور اقوام متحدہ سمیت دیگر ممالک نے ایران میں دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے جانی نقصان پر افسوس کا اظہارکیا ہے۔ ایرانی صدر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ حملوں نے ایران کے دہشت گردی کے خلاف عزم کو مزید مضبوط کیا ہے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے حملوں کی ذمے داری قبول کر لی۔

ایران میں ہونے والے دہشت گردی کے یہ حملے پورے خطے میں آنے والے خطرات کا پیش خیمہ ہیں۔ داعش نے حملے کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے 24سیکنڈ کی ایک ویڈیو جاری کی ہے جو ان کے مطابق پارلیمان کی عمارت پر حملے کے دوران بنائی گئی‘ اگر داعش کا دعویٰ درست ہے تو ایران کے اندر اس تنظیم کی کارروائی کا یہ پہلا واقعہ ہے۔بعض خبروں کے مطابق ایران کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ اور آیت اللہ خمینی کے مزار پر حملہ کرنے والے ایرانی تھے جنہوں نے شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ایرانی میڈیا کے مطابق چار دہشت گردوں نے ایرانی پارلیمنٹ کی عمارت میں خواتین کے لباس میں ملبوس داخل ہو کر فائرنگ کی‘ آیت اللہ خمینی کے مزار پر خود کش حملہ کیا گیا‘ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق خود کش حملہ کرنے والی ایک عورت تھی۔

ایران میں پہلے بھی دہشت گردی کے اکادکا واقعات رونما ہوتے رہے ہیں لیکن اپنی شدت اور نوعیت کے لحاظ سے یہ پہلا بڑا واقعہ ہے جس نے ایران کی سلامتی کے لیے مسائل پیدا کر دیے ہیں۔ اس واقعہ سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ داعش بڑی تیزی سے پورے خطے میں اپنا اثرورسوخ قائم کر رہی ہے‘ پہلے اس نے عراق اور شام کو اپنا مرکز بنایا پھر اس نے ترکی‘ سعودی عرب اور افغانستان میں اپنی شاخیں قائم کیں جنہوں نے وہاں دہشت گردی کی کارروائیاں کر کے امن و امان کے مسائل پیدا کیے۔ ایسی اطلاعات بھی سامنے آتی رہتی ہیں کہ افغانستان میں داعش کے دائرے کار میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور یورپ کے مختلف ممالک سے نوجوانوں کی ایک تعداد داعش میں شمولیت اختیار کر رہی ہے۔ یہ حملہ اس امر پر بھی دلالت کرتا ہے کہ  ایران جو سلامتی کے لحاظ سے محفوظ تصور کیا جاتا تھا وہ بھی اب داعش کے نشانے پر آ گیا ہے ۔

یہ تو اس کا تہران میں پہلا بڑا حملہ ہے اگر اس نے ایران میں اپنا اثرورسوخ بڑھا لیا ہے تو اس خدشے کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ آیندہ بھی وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرے گی۔ زیادہ تشویشناک امر یہ ہے کہ داعش نے اپنی کارروائیوں کو موثر بنانے کے لیے خواتین کو بھی اپنے گروپ میں شامل کر لیا جو خود کش حملہ آوروں کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ یہ صورت حال پورے خطے کے لیے پریشان کن ہے۔

ایک جانب ایران اور عرب ممالک کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آ گئے ہیں اور ریاستی سطح پر ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی کی جا رہی ہے‘ اسی مخالفت کا نتیجہ ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب نے تہران میں حملوں کی ذمے داری سعودی عرب اور امریکا پر عائد کر دی ہے۔ یہ حملے پاکستان‘ ایران اور پورے عرب خطے کے لیے ایک اشارہ ہیں کہ اگر انھوں نے اپنا مستقبل دہشت گردی سے محفوظ کرنا ہے تو انھیں آپس کے اختلافات بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ناسور کے خلاف مشترکہ طور پر کوششیں کرنا ہوں گی‘ اگر انھوں نے اس خطرے کا بروقت ادراک نہ کیا اور آپسی اختلافات کو یونہی ہوا دیتے رہے تو دہشت گرد تنظیموں کو مزید تقویت ملے گی اور وہ پورے خطے کا امن و امان داؤ پر لگا دیں گی۔ اب بھی وقت ہے کہ مسلم ممالک باہمی اختلافات ختم کر کے دہشت گردی کے خلاف متحد ہو کر کوششیں کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔