نواز شریف،ہلالِ احمر اورسی پیک

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 9 جون 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

کوئی تین ماہ پہلے پاکستانی میڈیا میں یہ خبر شایع اور نشر ہُوئی کہ ’’سی پیک‘‘ کے تحت چین، پاکستان کو گوادر اور گلگت کے لیے دو جدید ترین اسپتال فراہم کر رہا ہے۔ دونوں عطیہ ہوں گے۔ کسی ملک کی طرف سے کسی ملک کو اسپتال بنانے کے لیے مالی امدادفراہم کرنے کی بات تو سُنی تھی لیکن یہ ’’اسپتال فراہم‘‘ کرنے کی بات ذرا منفرد بھی تھی اور سُننے والوں کو انوکھی بھی لگی۔

واقعہ یہ ہے کہ چین خود بھی انوکھا ملک ہے اور اِس کی ہر بات بھی نرالی اور منفرد ہے۔ ’’سی پیک‘‘ کے تحت پاکستان کو 46 ارب ڈالر کی امداد فراہم کرنے اور اِس بے مثال منصوبے کے ذریعے پاکستان میں توانائی کے بحرانوں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرنے کے اقدامات نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔

شائد اِسی وجہ سے بھارت اور امریکا کے پیٹ میں بَل پڑ رہے ہیں۔ فی الحقیقت ’’سی پیک‘‘ کے منصوبے کو بروئے کار لانے اور اِسے پاکستان کے کئی علاقوں میں عملی شکل دینے کا سارا کریڈٹ وزیر اعظم جناب نواز شریف کو جاتا ہے۔ پاکستان میں جاری کئی سیاسی بحرانوں کے باوصف نواز شریف پاکستان کی ترقی اور ڈویلپمنٹ کے کسی منصوبے سے دستکش نہیں ہُوئے ہیں۔ اُنہیں اِس ضمن میں بجا طور پر شاباش دی جا سکتی ہے۔ ہلالِ احمر پاکستان کو، میڈیکل کے شعبے میں، چین کی طرف سے جو شاندار اور بے مثال امداد فراہم کی جا رہی ہے، وہ بھی دراصل ’’سی پیک‘‘ ہی کی برکتوں کا شاخسانہ ہے۔ اس سے بلوچستان، گوادر اور گلگت بلتستان کے بے شمار لوگوں کی بہبود اور طبّی فلاح کے دروازے کُھلنے والے ہیں۔

ہلالِ احمر پاکستان کے چیئرمین جناب ڈاکٹر سعید الٰہی نے اپنے وزیر اعظم کی ایما پر ہی چین کی ریڈ کراس سوسائٹی (RCSC) سے سلسلہ جنبانی جاری رکھا اور اس میں اُنہیں خاطر خواہ کامیابیاں بھی ملی ہیں۔ چین کی طرف سے پاکستان کو دو جدید ترین اسپتال فراہم کرنے کا اعلان بھی اِسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے جو پاک، چین دوستی کی بھی ایک نئی مثال ہے۔ چین کی طرف سے اعلان کیا گیا تھا کہ دو’’بنے بنائے‘‘ (Pre Fabricated)  اسپتال بطور عطیہ پاکستان کے دیے جا رہے ہیں۔ اِن میں سے ایک گوادر اور دوسرا گلگت میں نصب کیا جائے گا۔ گوادر کا اسپتال دس بَیڈ اور گلگت کا اسپتال 50 بَیڈز پر مشتمل ہو گا۔ دونوں علاقے ہی پسماندہ ہیں اور دونوں ہی کو جدید ترین اسپتالوں کی فوری ضرورت بھی ہے۔ جب یہ خوش کُن اعلان میڈیا کی زینت بنا تو ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ دونوں بنے بنائے اسپتالوں کا سارا سامان بذریعہ بحری جہاز چین سے گوادر کی بندرگاہ پر اُتارا جائے گا اور یہ کہ دونوں اسپتالوں کا افتتاح مئی2017ء کے پہلے ہفتے کر دیا جائے گا اور ان اسپتالوں کا افتتاح چین کی ریڈ کراس سوسائٹی کے  محترم صدر کریں گے۔

مئی کا مہینہ گزر گیا اور جون کا مہینہ آ گیا مگر ان دونوں اسپتالوں اور ان کے افتتاح کی کوئی خبر سامنے نہ آسکی۔ میری نظروں سے تو کم از کم نہیں گزری تھی؛ چنانچہ مَیں نے چیئرمین ہلالِ احمر پاکستان ڈاکٹر سعید الٰہی سے گزشتہ روز رابطہ کیا اور اِسی سلسلے میں اُن سے چند سوالات بھی پوچھے۔ ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب کہنے لگے: ’’چین کے وعدے فولاد کی طرح مضبوط اور پکّے ہوتے ہیں۔ چینی قیادت اور اُن کے تمام فیصلہ ساز گہرے غور و فکر کے بعد ہی کسی سے کوئی وعدہ کرتے ہیں۔‘‘ پھر وہ سنجیدگی سے بولے: ’’گوادر کا (بنا بنایا) اسپتال چین سے آ چکا ہے اور اُس کی تنصیب بھی مکمل ہو چکی ہے۔ جدید ترین میڈیکل مشینری بھی لگائی جا چکی ہے لیکن ابھی یہ آپریشنل نہیں ہُوا ہے۔

اِس کے چالُو ہونے سے گوادر اور اِس کے آس پاس کے دو سو کلو میٹر کے ’’رداس‘‘ میں بسنے والے پاکستانیوں کو شاندار اور فوری طبّی سہولیات فراہم کرنے کا دیرینہ خواب اپنی تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ چین کی طرف سے اہلِ بلوچستان کو یہ بہت مفید اور بہت بڑا تحفہ ہے۔ اِس کا کریڈٹ جناب نواز شریف اور جناب شہباز شریف کو براہ راست جاتا ہے کہ اُنہی کے ویژن کے مطابق سی پیک کا ڈول ڈالا گیا۔ ہم نے تو اپنے قائدین کی دی گئی لائن آف ایکشن کے تحت ہی چینی ریڈ کراس قیادت سے معاملات کو آگے بڑھایا اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس میدان میں کامیابیاں عطا فرمائیں۔‘‘ سعید الٰہی صاحب نے اِسی ضمن میں مزید معلومات فراہم کرتے ہُوئے بتایا: ’’گلگت بلتستان میں بھی یہ بنا بنایا اسپتال جَلد تنصیب کے مراحل طے کرنے والا ہے۔

ہماری کوشش یہ ہے کہ گلگت میں پہلے سے موجود کسی اسپتال میں جگہ مل جائے تو مزید آسانیاں ہو جائیں گی۔ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ صاحب نے ہم سے اس سلسلے میں وعدہ تو کیا ہے۔ (چین سے گلگت کے لیے آنے والا) یہ اسپتال گوادر سے پانچ گنا بڑا ہو گا اور یوں GB کے عوام کو اپنے مریضوں کو جدید طبّی سہولتیں حاصل کرنے کے لیے بلندیوں سے نشیب کی طرف کبھی نہیں اُترنا پڑے گا۔ اور یہ بات تو بہر حال طے ہے کہ اِن دونوں اسپتالوں کا افتتاح ’’چائنہ ریڈ کراس فاؤنڈیشن‘‘کے صدر جناب Zhe Chen کے دستِ مبارک سے ہو گا۔‘‘ جناب Zhe Chen خود بھی میڈیکل ڈاکٹر ہیں اور اُن کی بیگم بھی۔

ہلالِ احمر پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر سعید الٰہی اپنے ادارے کو مزید بہتر بنانے، اِسے وسعت دینے اور ’’سی پیک‘‘ کے تحت ’’چائنہ ریڈ کراس فاؤنڈیشن‘‘ کا زیادہ سے زیادہ تعاون حاصل کرنے کے لیے گزشتہ تین برسوں میں سات آٹھ بار چین کے مختلف شہروں کا دَورہ کر چکے ہیں۔ مثلاً: بیجنگ، کاشغر، اُرمچی، ہنان، ینان، کرامائے وغیرہ۔ ڈاکٹر سعید الٰہی نے گفتگو کے دوران بتایا: ’’سی پیک کے تحت گوادر اور گلگت کو چین کی طرف سے جو دو اسپتال فراہم کیے جا رہے ہیں، اِس کا تمام اہم میڈیکل عملہ، تجربہ کار ڈاکٹرز، جدید میڈیکل مشینری چین کا ذمے ہوگی۔

چینی ڈاکٹرز حضرات دو سال کے لیے ان دونوں اسپتالوں میں خدمات انجام دیتے رہیں گے۔ اس عرصے میں وہ پاکستانیوں کو ہر قسم کی متعلقہ تربیت بھی فراہم کریں گے تا کہ اُن کی رخصت کے بعد کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ اس پراجیکٹ میں ٹریننگ دینا اور تکنیکی استطاعت کی فراہمی ہی چینیوں کا اصل ذمے ہے۔‘‘ ڈاکٹر صاحب بتا رہے تھے کہ چین کی طرف سے، سی پیک کے تحت، پاکستان کو یہ میڈیکل سہولتیںفراہم کرنا ہم پر ایک بڑے احسان سے کم نہیں ہے۔ چائنہ ریڈ کراس فاؤنڈیشن، گوادر کے لیے، ایک نہایت جدید ایمبولینس بھی عطیہ کر رہی ہے۔ چین کی ایمبولینس سروس (جو 999 کے نام سے دنیا بھر میں معروف ہے) دنیا کی سب سے بڑی Chain ہے۔

ڈاکٹر سعید الٰہی نے دورانِ گفتگو بتایا: ’’چین ریڈ کراس سوسائٹی (RCSC) بوجوہ چین سے باہر کسی ملک کو اتنی بھاری ’’مقدار‘‘ میں اعانت فراہم نہیں کر سکتی تھی؛ چنانچہ محض پاکستان کی محبت میں چین نے قوانین میں تبدیلی کر کے ’’چائنہ ریڈ کراس فاؤنڈیشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ اب اِسی ادارے کے تحت گلگت بلتستان اور گوادر میں اسپتال بھی فراہم کیے جا رہے ہیں ، طبّی آلات بھی اور میڈیکل عملہ بھی۔ جوں جوں سی پیک کے تحت پاکستان میں چینی خدمات کا دائرہ زیادہ بروئے کار آتا جائے گا، چینی ایمبولینس سروس کی پاکستان میں خدمات اور تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اس سروس میں چین کی طرف سے ائر ایمبولینس کا وعدہ بھی شامل ہے۔ یہ ائر ایمبولینس زیادہ تر گلگت اور بلتستان کے دُور دراز اور دشوار گزار علاقوں میں استعمال کی جائے گی۔‘‘ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو، سی پیک کے پس منظر میں، پاک چین دوستی کے بالکل ہی نئے دَر وا کر رہی تھی۔

ہلالِ احمر پاکستان سے صرف چین ہی تعاون اور اعانت کا کردار ادا نہیں کر رہا۔ دوسرے کئی مغربی ممالک بھی پاکستان کے اِس سب سے بڑے انسانی فلاحی ادارے کی طرف دستِ تعاون بڑھا رہے ہیں کہ یہ ادارہ پچھلے سات عشروں سے اُن کے اعتماد اور اعتبار پر پورا اُترتا چلا آ رہا ہے۔ہلالِ احمر پاکستان کی امداد کرنے والے مغربی ممالک میں ڈنمارک، ناروے، جرمنی، کینیڈا سرِ فہرست ہیں۔ ترکی کا کردار بھی نمایاں ہے۔ ڈاکٹر سعید الٰہی صاحب نے بتایا کہ اب امریکی ریڈ کراس والے بھی ہم سے تعاون کرنے کی حامی بھر چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔