لوڈشیڈنگ

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعـء 9 جون 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

آج کا ہر دلعزیز موضوع گرمی اور لوڈشیڈنگ ہے۔ بقول ایک صاحب اگر ہمارے نامور شاعر آج سلامت ہوتے تو کچھ یوں اظہار خیال کرتے۔

علامہ اقبال: ’’وجود بجلی سے ہے تصویر کائنات میں رنگ… بجلی نہ ہو تو ٹی وی، فریج، کمپوٹر سب بند‘‘

مرزا غالب: ’’پہلے آتی تھی کبھی کبھی بجلی… اب کسی وقت بھی نہیں آتی‘‘

مومن خان مومن: ’’کبھی ہمارے تمہارے گھر بجلی تھی … تمھیں یاد ہو، کہ نہ یاد ہو‘‘

بہادرشاہ ظفر: ’’عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن … دو احتجاج میں کٹ گئے، دو انتظار میں‘‘

میر تقی میر: ’’ابتدائے لوڈشیڈنگ ہے روتا ہے کیا؟ … آگے آگے دیکھئے، ہوتا ہے کیا؟‘‘

ہمیں نہیں معلوم بحر سے قدرے گرے یہ اشعار کس کے ہیں، البتہ ہماری دانست میں اصل سوال یہ ہے کہ بجلی آج کل بریکنگ نیوز کیوں بنی ہوئی ہے؟ اور لوگ بجلی گھروں، دفتروں پر حملے کیوں کررہے ہیں؟ ہمارے خیال میں اس کا جواب ہے ہمارا موجودہ طرز زندگی اور پلوشن (یعنی آلودگی)۔

یہ بات اس طرح سمجھی جاسکتی ہے کہ آج سے تیس چالیس سال پہلے کراچی سمیت تمام شہروں میں کھلے صحن والے، ہوادار سنگل اسٹوری مکانات ہوا کرتے تھے، بعض گھروں میں تو روشن دان ہوا کرتے تھے، حیدرآباد شہر تو روشن دانوں کا شہر کہلاتا تھا۔ کراچی شہر میں ہوا گھروں میں اس قدر تیز آتی تھی کہ بقول ہماری خالہ، اس شہر میں تو پنکھا خریدنے کی ضرورت ہی نہیں۔ پھر اس شہر میں فلیٹس متعارف کرائے گئے، سرمایہ داروں یعنی بلڈرز نے سرمایہ کاری کی۔ شروع شروع میں رہائش کے لیے روشنی اور ہوا کا خیال رکھا گیا۔

نقشے کے مطابق فلیٹس اور کئی کئی منزلہ مکانات بننے لگے۔ پھر رفتہ رفتہ تمام معاملات الٹ ہوتے چلے گئے، کم جگہ میں زیادہ سے زیادہ رہائشی یونٹس بناکر فروخت کیے جانے لگے۔ چھوٹے سرمایہ داروں، ٹھیکیداروں نے بجائے رہنے کے نقطہ نظر سے، صرف فروخت کرنے یا کرائے پر دینے کے نقطہ نظر سے رہائشی یونٹس بنانا شروع کردیے، جن کا مطمع نظر تھا کہ رہائش کسی انسان کے رہنے کے قابل ہو یا نہ ہو مگر پیسہ بنانے کے قابل ضرور ہو۔ چنانچہ قانونی نقشوں کے برخلاف ساٹھ گز جیسے چھوٹے پلاٹس کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرکے کئی منزلہ عمارت تعمیر کرکے فروخت اور کرائے پر دینے کا عمل شروع ہوا۔ اس طرح ساٹھ، اسی، ایک سو بیس گز اور فلیٹس کی تعمیرات میں بھی یہی دھندہ شروع ہوگیا۔

قانوناً ایک پلاٹ کو تقسیم کرکے فروخت کرنا منع تھا مگر یہ سلسلہ کراچی شہر میں تو عروج پر ہے، ساٹھ سے ہزار گز تک کے پلاٹ کو تقسیم کرکے مکانات اور فلیٹس کی شکل میں فروخت شاندار طریقے سے جاری ہے، نقشہ جات اور قانون کی خلاف ورزی کھلے عام جاری ہے اور یہ سب کچھ کراچی جیسے شہر کے گنجان علاقوں میں بھی دن کی روشنی میں کیا جارہا ہے۔ بعض منصوبے تو شہر میں ٹریفک جام کا مسلسل سبب بن چکے ہیں کیونکہ ان تعمیرات میں گراؤنڈ فلور پر بڑ ے بڑے ڈپارٹمنٹل اسٹور کھل چکے ہیں۔

یوں اس عمل سے پیسے والے، ٹھیکیدار اور بڑے سرمایہ دار خوب منافع کما رہے ہیں مگر شہر اور شہریوں کا برا حال ہے، خاص کر اس وقت کہ جب کسی وجہ سے بجلی منقطع ہوجائے تو مکینوں کو دن کے وقت بھی روشنی اور ہوا میسر نہیں ہوتی۔ لہٰذا گرم موسم میں جب بجلی نہ ہو تو شہریوں کی اکثریت سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوتی ہے۔ بھولے لوگ بجلی گھروں پر حملہ کرکے یا سڑک بلاک کرکے غصہ نکالتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ تیس چالیس سال پہلے تو شہریوں کی بڑی اکثریت کے گھروں میں تو بجلی ہی نہیں ہوتی تھی، تو انھیں اس بات پر غصہ کیوں نہیں آتا تھا کہ بجلی نہیں ہے؟ اس لیے کہ عام لوگوں کی رہائش بھی کھلی، صحن والی اور ہوا دار ہوتی تھی۔ گھر قانونی نقشے کے مطابق بنے ہوتے تھے۔ اب اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لوگوں کے ایسے اچھے رہائشی کلچر کو ختم کس نے کیا؟ اس کا جواب ہے، ٹھیکداروں، بلڈرز (سرمایہ داروں) نے ہی کیا۔ دوسرا سوال ان کا ساتھ کس نے دیا؟ جواب، نااہل اور رشوت خور نقشہ پاس کرنے والے سرکاری ملازمین نے۔ اور تیسرا سوال خاموشی سے یہ سب کچھ ہوتا ہوا کس نے دیکھا، روکا کیوں نہیں؟ جواب، ہمارے منتخب عوامی نمایندوں، ہماری پیاری جماعتوں نے۔

آج کراچی جیسے بڑے شہر کے اکثر علاقوں میں گھر تو کیا محلے کی گلیاں بھی اس قدر تنگ ہیں کہ بیک وقت دو موٹر سائیکلیں بھی گزر نہیں سکتیں، محلے کے باہر میدان، پارکس، خالی پلاٹ سب چائنا کٹنگ اور مختلف مافیاؤں کی نذر ہوگئے ہیں۔ تفریحی پارکس گنتی کے رہ گئے ہیں۔ اس سب پر عمل اور جب کراچی کا ادارہ ’کے ای ایس سی‘ فروخت کیا جا رہا تھا، اس وقت ہمارے کس کس منتخب نمایندے اور جماعت نے احتجاج کیا تھا؟ ذرا اخبارات اٹھا کر ریکارڈ چیک کریں، ذرا ماضی میں جھانکیں، اس ملک اور خاص کر اس شہر میں گزشتہ دو دہائیوں میں کن کن نان ایشوز پر پہیہ جام ہڑتالیں اور احتجاج ہوئے؟ اور اصل عوامی ایشوز پر کیا ہوا؟

آج ہر دوسرے شہری کے پاس سکون کے لیے پنکھے، کولر، فریج، اے سی اور سواری کے لیے وہ وہ گاڑیاں ہیں کہ جو کسی مغل بادشاہ تو کیا، فرعون جیسے بادشاہ کو بھی حاصل نہیں تھیں، مگر اس سب کے باوجود شہریوں کی بڑی تعداد صرف بجلی منقطع ہوجانے پر فقیروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے۔

اب آیئے مسئلے کے دوسرے پہلو کی جانب جو ہمارے جدید معیار زندگی کو اپنانے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے آلودگی اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی گرمی ہے۔ 1980 کی دہائی میں سائنس دان یہ راز کھول چکے تھے کہ فریج، اے سی اور گاڑیوں وغیرہ کے علاوہ انڈسٹریز چلنے سے گرین گیسز کا اخراج ہورہا ہے، جس سے فضا میں آلودگی بڑھ رہی ہے اور ’اوزون‘ کی سطح متاثر ہورہی ہے جس کے نتیجے میں زمین میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے، سمندری سطح بلند ہو رہی ہے، سمندری، فضائی اور ہوائی طوفان اور زلزلوں کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں۔ ان مذکورہ مشینریز کو کم سے کم استعمال کرکے اور سبزہ اگا کر گرمی کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

سائنسدانوں کی وارننگ کے باوجود لوگ معیار زندگی بلند کرنے کے لیے بلاضرورت بھی اے سی اور گاڑیاں وغیرہ استعمال کر رہے ہیں اور اس کو اپنی شان سمجھتے ہیں۔ حالانکہ یہ پیش گوئی بھی ہے کہ پاکستان کے کئی شہروں میں درجہ حرارت پچاس ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ چکا ہے اور آیندہ برسوں میں یہ پچاس سے اوپر پہنچ جائے گا، جس کے بعد اے سی بھی کام کرنا چھوڑ دیں گے۔ دوسری طرف حال یہ ہے کہ حکومتی ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے بھی ملک بھر میں کروڑوں کی تعداد میں درخت کاٹ دیے گئے، جب کہ ان کے مقابلے میں ایک فیصد بھی نئے درخت نہیں لگائے گئے۔

خوبصورت اور بلند معیار زندگی کے لیے دنیا بھر میں قدرتی نباتات کو ختم کیا جارہا ہے، ایمیزون کے جنگلات جو اس زمین کے پھیپھڑے کہلاتے تھے، کاٹ دیے گئے، بلند معیار زندگی کے لیے دن رات انڈسٹریز کا پہیہ چل رہا ہے۔ اس عمل سے سرمایہ دار خوب سرمایہ کما رہا ہے، لوگ معیار زندگی بلند کرکے خوش ہو رہے ہیں، مگر وہ یہ بھول رہے ہیںکہ ان کے معیار زندگی کی بلندی کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت کی بلندی بھی بڑھ رہی ہے۔ آج وہ بجلی والوں کے خلاف احتجاج کرکے یا جنریٹر سے بجلی حاصل کرکے ائیر کنڈیشڈ استعمال کرکے گرمی میں سکون حاصل کرلیں گے مگر کل جب پچاس سے اوپر درجہ حرارت ہوا اور اے سی بھی بند ہوگئے تو کیا کریں گے؟ آیئے غور کریں، زندگی کو سادگی سے گزاریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔