رمضان المبارک میں تزکیۂ نفس کا مکمل نصاب

 جمعـء 9 جون 2017
رمضان المبارک بہت برکتوں، رحمتوں اور بہت زیادہ بخشش کا مہینہ ہے۔ فوٹو : فائل

رمضان المبارک بہت برکتوں، رحمتوں اور بہت زیادہ بخشش کا مہینہ ہے۔ فوٹو : فائل

’’ مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تاکہ تم پرہیز گار بنو۔‘‘

یہ خطاب خاص مومنین کے لیے ہے۔ یہ ان کی روحانی تربیت اور حصولِ رحمت کے لیے ایک خاص اہتمام ہے۔ روزے کی فرضیت محض مشقت نہیں بل کہ ایک خاص مقصد کے حصول کے لیے ایک تربیتی پروگرام ہے اور وہ مقصد ہے حصولِ تقویٰ۔

تقویٰ ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو انسان کو اللہ کی نافرمانی سے روک دے اور عملاً اللہ کی عظمت سے آشنائی نصیب ہو یعنی انسان کا ہر عمل اس بات کی گواہی دے کہ اسے اللہ سے تعلق عبدیت حاصل ہے اور وہ اپنی حیثیت کے مطابق اللہ کی عظمت سے آشنا ہے۔ گویا روزہ وہ نعمت ہے جس کے نتیجے میں مومن کو اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ سے ایک ایسا تعلق نصیب ہو جائے جو ہاتھ کو اُٹھنے اور قدم کو چلنے سے تھام لے اور حدود اللہ سے تجاوز نہ کرنے دے۔

رمضان المبارک بہت برکتوں، رحمتوں اور بہت زیادہ بخشش کا مہینہ ہے۔ یہ ماہ ِمبارک اپنی برکات اپنے انعامات اور اللہ کی عطا و بخشش کے اعتبار سے تمام مہینوں کا سردار مہینہ ہے۔ جسے اللہ کریم نے اپنا مہینہ قرار دیا ہے اور انسانی فطرت اور مزاج کے مطابق اس کا اہتمام فرمایا ہے کہ ساری کائنات سے کاٹ کر جائز ضروریات سے بھی مقررہ اوقات میں کنارہ کش کرکے اپنے رو بہ رو بٹھا کر شرف ہم کلامی عطا فرمایا۔

اللہ کریم فرماتے ہیں یہی تو وہ مہینہ ہے جس میں مَیں نے تم سے بات کی اور جس کی خوشی میں ہر سال یہ پورا مہینہ تمہیں عطا کر دیا۔ جب تم مجھے بھول رہے تھے مجھ سے دور جارہے تھے، مجھ سے بچھڑ رہے تھے اور دنیا کی رنگینیوں پر فریفتہ ہو رہے تھے، میں نے تمہاری خواہشات کو کاٹ دیا، تم پر قدغن لگائی کہ مقررہ اوقات میں ان کو چھوڑ دو اور میرے رو بہ رو ہوجاؤ، تمہیں بٹھا کر میں نے اپنا نغمہ چھیڑا اپنے ذاتی کلام سے نوازا، میں نے تم سے باتیں کیں۔ تمہیں پکارا اور اپنا دامنِِ شفقت کھول کر رکھ دیا۔

رمضان المبارک کی اصل اساس یہ ہے کہ یہ وہ مبارک مہینہ ہے جسے ایک خاص تقدس ایک خاص اعزاز دے کر، ایک سربلندی دے کر اس لیے منتخب فرمایا گیا کہ اس میں اللہ کا کلام نازل ہوا۔ ہر نبی ؑ پر جو کلام الہی نازل ہوا اس کی ابتدا رمضان المبارک ہی میں ہوئی اور قرآن کریم بھی سارے کا سارا علم الہی سے لوحِ محفوظ میں آیا، لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر رمضان المبارک میں منتقل فرمایا گیا اور نزول وحی کی ابتدا اسی ماہِ مبارک میں ہوئی پھر مسلسل نازل ہوتا رہا۔ اس مہینے کو یہ شرف حاصل ہے کہ یہ مشتِ غبار میں وہ اہلیت پیدا کرتا ہے وہ پاکیزگی پیدا کرتا ہے، وہ طہارت پیدا کرتا ہے، وہ لطافت لے آتا ہے کہ کلامِ الہی کو سننے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیقِ ارزاں ہوجاتی ہے۔ جس میں عملاً یہ تربیت دی جاتی ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جہاں یہ تقدس نہیں ہوتا وہاں کلامِ الہی سے ہدایت نصیب نہیں ہوتی ہے۔ یوں تو رمضان کی ہر رات کا قیام تراویح اور تہجد، ہر ایک کی اپنی خصوصیت ہے۔ دن بھر اللہ کی فرماں برداری میں جائز امور سے پرہیز بندۂ مومن کو ذات باری سے ایک خاص قرب عطا کرتا ہے کہ اللہ تو رگِ جاں سے بھی زیادہ قریب تر ہے۔ لیکن قریب ہونا اور بات ہے اور بندے کو قرب کا احساس ہو، یہ اؒلگ بات ہے تو روزہ اس احساس کو بیدار کرتا ہے کہ تیرا مالک تیر ے پاس ہے۔

یہ احساس ترقی کرتا ہے اور بندہ اپنا محاسبہ کرنے کے قابل ہو جاتا ہے۔ یعنی پہلے عشرے میں رحمتِ خداوندی سے احساسِ زیاں پیدا ہوا جیسا کہ حدیث پاک میں ارشاد ہے کہ اس کا پہلا عشرہ رحمت عامہ کا ہے۔ جس میں رحمت باری کا سیلاب امڈتا ہے اور رحمت باری ہر لحظہ، ہر آن پورے جوبن سے برس رہی ہوتی ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اپنے کاسۂ دل کو سیدھا رکھتے ہیں۔ اگر کہیں کمی ہوتی ہے تو ٹیڑھ پن دل میں ہوتا ہے، باران رحمت میں کمی نہیں ہوتی۔

کہیں ہمارے اعتقاد کی کم زوریاں، کہیں رسومات کی پیروی، کہیں ہمارے کردار کی خامیاں ہمارے کاسۂ دل کو ٹیڑھا کردیتی ہیں اور اس میں کچھ نہیں پڑتا۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہوں نے کاسۂ دل کو سیدھا رکھا اور رحمت باری سے بھرلیا۔ دوسرے عشرے تک احساسِ ندامت نے زور پکڑا اور اصلاح احوال، توبہ اور مغفرت کے لیے کوشاں ہوا جب اپنا احتساب کرنے کا حوصلہ آیا تو تیسرے عشرے کی طاق راتوں میں اپنے ربِّ کریم کی بے پایاں مغفرت کا طالب ہوا۔ راتوں کو قیام کا ذوق عطا ہوا تو اللہ کریم کی طرف سے مزید سہولت عطا ہوئی۔

رمضان المبارک کو اپنے نقوش ثبت کرنے چاہئیں عملاً اور شکلاً جو روزہ ہے کہ کھانے پینے سے رک گئے یا اور امور سے رک گئے یہ پابندی تو ختم ہوگئی۔ رمضان المبارک کا مہینہ تو گزر گیا لیکن ہر خطا سے رکنے کی پابندی کو اگر طبیعت میں جگہ دے گیا تو رمضان گیا نہیں رمضان موجود ہے۔ اگر جھوٹ بولنے سے ڈر لگتا ہے تو رمضان موجود ہے، اس کی برکات موجود ہیں۔ اگر حرام کھانے سے ڈر لگتا ہے تو رمضان موجود ہے، اس کی برکات موجود ہیں۔ اطاعت الہی کی رغبت باقی ہے تو رمضان باقی ہے، اس کی برکات باقی ہیں۔اور اگر یہ نصیب نہیں ہوئیں تو پھر واقعی رمضان گزر گیا۔ اور یاد رکھیں گزرے ہوئے لمحات لوٹا نہیں کرتے۔

اپنی زندگی کا محاسبہ کرتے ہوئے، اپنی خطاؤں کی بخشش چاہتے ہوئے، اپنے گناہوں اور لغزشوں کو پیش نظر رکھ کر اللہ سے بخشش طلب کی اور ماہ رمضان المبارک کا روزہ رکھا تو ایک روزہ زندگی بھر کی خطاؤں کی بخشش کے لیے کافی ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا ایمان بڑا مضبوط ہے، یاد رکھیے جو ایمان اللہ کی نافرمانی کرنے سے روکنے کا کام نہیں کرتا وہ مضبوط نہیں کم زور ہے۔ جو ایمان حرام کھانے کو برداشت کر لیتا ہے اور حلال پہ اصرار نہیں کرتا جو ایمان فرائض کی پابندی سے محروم انسان کے ساتھ گزارا کرتا ہے وہ کم زور ہے۔

آج ہمارے ایمان میں دراڑیں پڑچکی ہیں جو رسومات ہم نے خود ایجاد کیں انہیں ہم اپنے لیے باعث عزت سمجھ کر پوری پابندی سے ان پر عمل کرتے ہیں۔ وہ شادی کی ہوں، جنازے کی ہوں، مرنے والے کی ہوں یا پیدا ہونے والے کی۔ ہر رسم کو ہم فرض عین سے زیادہ اہمیت دے کر نبھاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں ہم اپنی اور اپنے ذاتی وقار کو داؤ پر نہیں لگا سکتے۔ جب اطاعت الہی کی بات آتی ہے تو ہم نرم پڑ جاتے ہیں۔ طبیعت خراب ہو تو نماز چھوٹ جاتی ہے۔ مہمان آجائیں تو ذکر الہی رہ جاتا ہے۔ حلال و حرام کی تمیز بہت کم رہ جاتی ہے، یہ کم زور ایمان کی نشانیاں ہیں۔

رمضان کے روزے ہم پر فرض کیے جانے کی غرض و غایت ہی یہی ہے کہ ہمیں صفتِ تقویٰ عطا ہوجائے یعنی ہماری روحیں، ہمارے اندر کا انسان بہار آشنا ہوسکے، پھل پھول سکے، اپنی خوش بو دے سکے اور اپنے کمال کو پاسکے۔ یہ مہینہ صرف روزوں کا نہیں حقیقی تبدیلی کا مہینہ ہے۔ یہ ایک بھٹی ہے جس طرح سونے کو بھٹی میں ڈالا جائے تو اس کا کھوٹ نکل جاتا ہے، اس طرح رمضان کے تیس دن ایک بھٹی ہیں۔ اس میں سے مومن کندن بن کر نکلتا ہے۔

(مولانا امیر محمد اکرم اعوان)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔