بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان کو مشکل میں رکھنا چاہتا ہے، ماہرین

اجمل ستار ملک  جمعـء 9 جون 2017
کابل کانفرنس سے قبل دھماکا بھارتی سازش تھی، سلمان عابد، افغانستان کو دوست بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں، عاصم اللہ بخش۔ فوٹو : ایکسپریس

کابل کانفرنس سے قبل دھماکا بھارتی سازش تھی، سلمان عابد، افغانستان کو دوست بنانے کے اقدامات کرنے چاہئیں، عاصم اللہ بخش۔ فوٹو : ایکسپریس

 لاہور:  بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان کو مشکل میں رکھنا چاہتا ہے۔ کابل کانفرنس سے چند روز قبل ہونے والا دھماکہ بھارتی سازش ہے تاکہ پاکستان کو مورد الزام ٹہرایا جا سکے۔

پاکستان نے ہمیشہ ایک قدم آگے بڑھ کر افغانستان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کی اور نیک نیتی کے ساتھ افغانستان میں نہ صرف امن کی حمایت کی بلکہ اس سلسلے میں ہر قسم کا مصالحتی کردار بھی ادا کیا مگر ہمیشہ ہماری کوششوں کو سبوتاژ کردیا گیا۔ اصل مسئلہ افغانستان کا اندرونی بحران ہے، اسے چاہیے کہ اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو ٹہرانے کے بجائے اپنے اندرونی معاملات خود سنبھالے۔ گزشتہ چند دنوں میں دنیا میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں مگر ہم پاناما کیس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہمیں ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر آزاد خارجہ پالیسی بنانی ہوگی ورنہ سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ان خیالات کا اظہار دفاعی و سیاسی تجزیہ نگاروں اور ماہرین امور خارجہ نے ’’پاک افغان تعلقات‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے انجام دیئے۔ دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا اس وقت انٹرنیشنل گیم پلان چل رہا ہے جس کا ہم حصہ ہیں مگر ہمیں صورتحال کا اندازہ ہی نہیں ہے کہ دنیا کہاں جارہی ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کو غیر مستحکم رکھنا امریکا، بھارت، روس و دیگر ممالک کے مفاد میں ہوسکتا ہے۔

امریکا اور بھارت کے مفادات ایک ہیں جبکہ اب ایران بھی کافی حد تک ان کیساتھ ہے، دوسری طرف چین، روس اور پاکستان کے بعض مفادات مشترک ہیں لہٰذا یہ خطہ اس صورتحال ہے دوچار ہے، ایران کو پاکستان کیساتھ ہونا چاہیے تھا مگرہم نے دیر کردی جس کا نقصان ہورہا ہے، اگر ایران پاکستان کے ساتھ ہوتا تو پھر افغانستان کے مسائل کو بہتر طریقے سے ہینڈل کیا جاسکتا تھا۔

بھارت افغانستان کے ذریعے پاکستان کو آکسیجن پر رکھنا چاہتا ہے، پاکستان نے عالمی گیم میں خود کو کمزور کیا ہے، اب ہم مسائل کے حل کیلئے دوسروں کی مدد کی طرف دیکھ رہے ہیں، افغانستان میں پاکستان کی بات سننے والے تو موجود ہیں مگر ماننے والے بہت کم ہیں، اب اگر روس اور چین ملکر بات کریں تو افغانستان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت کو گیم کا اندازہ نہیں ہے، قطر، سعودی عرب اور ایران میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا کہیں نہ کہیں لنک افغانستان سے ہے، ہمیں اپنے اندرونی معاملات کو درست کرنا ہوگا اور مضبوط خارجہ پالیسی بنانا ہوگی، صرف اسی صورت میں ہی مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

ماہر امور خارجہ ڈاکٹر فاروق حسنات نے کہا کہ حکومت پاناما کیس میں مصروف ہے جبکہ دنیا تیزی سے تبدیل ہورہی ہے، اس کیس کا فیصلہ آنے تک معاملات میں کوئی پیش رفت نہیں ہوگی۔ ہمیں دنیا میں ہونے والی تبدیلی کے لحاظ سے اسٹرٹیجی بنانا ہوگی ورنہ ہمیں مزید مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ افغانستان میں کشمکش کا شکار ہیں، انھوں نے افغانستان کے حوالے سے کوئی پالیسی نہیں بنائی، وہ افغانستان سے فوج بھی نہیں نکال سکتے اور نہ مزید فوج وہاں بھیج سکتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ افغانستان میں مختلف قبائل ہیں، کل آبادی کا 40فیصد پشتون ہیں جو طالبان کے حمایتی ہیںجبکہ دیگر قبائل میں تاجک، ازبک، ہزارہ جات وغیرہ ہیں۔ اشرف غنی پشتون جبکہ عبداللہ عبداللہ تاجک ہیں، امریکہ نے وہاں قبائل کو طاقت دی مگر یہ فارمولا کارگر ثابت نہیں ہوا۔ افغانستانکے حوالے سے ہماری پالیسی واضح نہیں ہے، ہم ازبکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ زمینی تجارت کرنا چاہتے ہیں مگر افغانستان میں ان قبائل کے خلاف ہیں جو عجیب بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا افغانستان میں قابض ہے اور افغان طالبان کی جنگ آزادی کی ہے لہٰذا طالبان کو مذاکرات کی میز پر لائے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے مسائل کے حل کیلئے پاکستان کو اکیلے ایڈوانچر نہیں کرنا چاہیے بلکہ روس، چین، ترکی و دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر الائنس بنایا جائے بصورت دیگر نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔

دانشور سلمان عابد نے کہا افغانستان پاکستان کیلئے ایک مسلسل درد سر ہے، افغانستان داخلی بحران کا شکار ہے، دو فریقین کے شراکت اقتدار کا امریکی فارمولا کامیاب نہیں ہوا جس کی وجہ سے افغان حکومت ناکام نظر آرہی ہے، بھارت دہشت گردی کا ذمے دار پاکستان کو ٹھہراتا ہے اور اب یہی بیانیہ افغانستان کا ہے اور بھارت نے اس حوالے سے افغان میڈیا کو ٹریننگ دی ہے، افغانستان اور بھارت کی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں گٹھ جوڑ ہے، وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے پر کام کررہی ہیں جبکہ افغانستان اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔

افغانستان میں ہونے والے حالیہ دھماکے میں بھارت ملوث ہے، اس نے خود یہ دھماکہ کرایا تاکہ الزام پاکستان پر لگایا جاسکے، بھارت افغانستان کا سٹرٹیجک اور اکنامک پارٹنر ہے، عبداللہ عبداللہ کا جھکاؤ بھارت کی طرف ہے جبکہ اشرف غنی کو بھی اب پاکستان کیخلاف بات کرنے کی طرف لیجایا جارہا ہے لہٰذا پاکستان کو معاملے کی سنگینی کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ افغانستان سمیت خطے کے تمام مسائل کے حل کیلیے سیاسی و ملٹری قیادت کو ایک پیج پر آنا ہوگا، سفارتی محاذ پر اچھا پرفارم کرنا ہوگا اور طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہوگا، بصورت دیگر مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر عاصم اللہ بخش نے کہا بھارت، افغانستان میں عدم استحکام اور کشیدہ صورتحال کے ذریعے پاکستان کو مشکل میں رکھنا چاہتا ہے کیونکہ اس طرح پاکستان کے وسائل تقسیم رہیں گے۔ افغانستان کی صورتحال کے حوالے سے بھارت، امریکا اور ایران اہم ہیں، بھارت کے افغانستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں، امریکہ افغانستان کے ذریعے روس اور چین کا اس خطے میں اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا ہے جبکہ ایران کو بھی طالبان کے حوالے سے مسائل ہیں، ہمیں ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔ اشرف غنی پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں۔

حالیہ کابل کانفرنس میں اشرف غنی نے اپنی 36منٹ کی تقریر میں 9مرتبہ پاکستان کا نام لیا اور کہا پاکستان اپنا ایجنڈا لیکر آئے کے کس طرح آگے بڑھاجائے، اس طرح کے ماحول میں اشرف غنی کی جانب سے پاکستان کا بار بار نام لینا معمولی بات نہیں، ہمیں اس کانفرنس کی سختی کو نظر انداز کرکے مثبت انداز میں آگے بڑھنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں افغانستان کو دوست بنانے کے حوالے سے اقدامات کرنے چاہئیں اور اس کیلئے بیک ڈور ڈپلومیسی، سیاسی تعلقات و ہر ممکن طریقہ استعمال کیا جائے۔ افغانستان کی طرف سے اگر کوئی سرحدی خلاف ورزی یا کوئی اور معاملہ ہوتا ہے تو اس کا جواب ضرور دیا جائے لیکن اس پر سخت بیانات نہ دیے جائیں تاکہ افغانستان کی عوام تک کوئی سخت پیغام نہ جائے۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور امن کا راستہ مشکل ہے مگر اس کے بغیر خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ہمارے سٹرٹیجک مفادات کا مکمل حصول ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔