پاکستان اور ایران تعلقات

جاوید قاضی  ہفتہ 10 جون 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ایران کی پارلیمنٹ پر دہشت گردوں کا حملہ اور اس حملے کی ذمے داری داعش کا قبول کرنا، مشرق وسطیٰ سے لے کر قطر کے تضاد، خود افغانستان کے اندر دہشت گردی کے عمل کا تیز ہونا، برطانیہ میں یکے بعد دیگرے دہشت گردی کے واقعات اور اس کی ذمے داری بھی داعش کا قبول کرنا۔ ان تمام واقعات و اسباب سے، جو آنکھوںکے سامنے تصویر اترتی ہے، وہ یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے واقعات اور شدت اختیار کریں گے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دہشت گردی کا شکار ان تمام ممالک کے درمیان کوئی مشترکہ حکمت عملی نہیں ہے۔ معاملہ اور بھی زیادہ بگڑا ہوا ہے، وہ یہ کہ ان تمام ریاستوں میں اول تو فطری قیادت کا بحران ہے یا اگر فطری قیادت ہے تو وہاں انتہاپسند سوچ خود دہشت گردی کو ہوا دیتی ہے۔ جیسا کہ ہندوستان، وہاں مضبوط جمہوریت تو ہے، مگر موددی وزیراعظم ہے۔ ایران میں جمہوریت تو ہے مگر وہ بھی مذہبی بنیادوں اور علما کے تابع ہے۔ جس طرح ماضی میں یورپ میں پارلیمنٹ، چرچ کے تابع ہوا کرتی تھی اور خود بادشاہ سلامت بھی۔

سعودی عرب کا کیا کہنا ہے، اتنا پیسہ ہے ان کے پاس اور کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ ایک ہی خاندان کی بادشاہت ہے اور مسلمانوں کی مقدس جگہیں بھی ان ہی کی سلطنت میں پائی جاتی ہیں۔ ایک طرف مسلمانوںکے مذہبی زاویے انھوں نے بنائے اور کچھ یہ زاویے ان کی بادشاہت کو پائیدار اور سلامت رکھنے کے لیے بھی ضروری ہیں اور دوسری طرف بھی دیکھا جائے تو ایران بھی ایک نظریاتی ریاست ہے، اور خود ایران کے مخصوص نظریات اور وہاں کے مخصوص مذہبی شرفا اور ان کے زاویے بھی، ایران کے اقتدار پر قبضہ رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔

القاعدہ کا وجود میں آنا قدرے مختلف حقائق و حالات میں ہوا تھا۔ جب کہ داعش کا بنیادی طورپر ابھرنا اس لیے تھا کہ پھر مذہب کو نئے انداز میں استعمال کرتے ہوئے ان ریاستوں کو اندر سے غیر مستحکم کیا جائے، جو ریاستیں اسرائیل، امریکا اور وہ عرب ریاستیں جہاں پر بادشاہتی نظام حکومت رائج ہو۔

قطر پر یہ الزام ہے کہ وہ مصر کے اندر Brother Hood کو وقعت دیتا ہے اور یمن کے اندر ’’ہوتی باغیوں‘‘ کے ساتھ بھی اس کے تعلقات ہیں۔ ایران کے ساتھ قطر کے تعلقات بڑے گہرے ہیں، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ ان تمام عرب ریاستوں میں سب سے زیادہ منفرد، مہذب Plural & Inclusive قطر کی ریاست ہے۔ یوں تو یہ ملک چھبیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل ہے، لیکن فی کس آمدنی میں دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ ماضی میں عرب دنیا میں جو Spring Revolution آئے، قطر نے ان کی ہمت افزائی کی۔

ابلاغ عامہ میں پوری عرب دنیا کو متحد کرتا ہوا ایک ہی چینل ہے ’’الجزیرہ‘‘ جو کہ قطر میں ہے۔ غرض یہ کہ قطر کم آبادی کا وہ چھوٹا سا ملک ہے جو عرب دنیا میں سعودی عرب کے وسیع اثر کو چیلنج کرتا ہے۔

2022 کا عالمی فٹبال (ورلڈ کپ) قطر کی ریاست میں ہی ہوگا۔ قطر میں آنے والے دنوں میں 200 بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری ہونے جارہی ہے۔ انسانی وسائل میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری خود قطر کی حکومت کرتی ہے اور اب تو دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیز اپنے کیمپس قطر میں کھولنے جارہی ہیں۔

مختصر یہ ہے کہ قطر کی ریاست مسلم دنیا میں یورپ کی حیثیت رکھتی ہے، وہاں بھی ایک ہی خاندان کی حکومت تو ہے مگر 2003 میں، وہ اپنے ملک کو ایک آئین دینے میں کامیاب اس طرح ہوگئے کہ ریفرنڈم کے ذریعے 98% لوگوں نے آئین کی حمایت میں ووٹ ڈالے۔ اگر عرب دنیا کے لیے قطر ایک ماڈل ریاست بن کر ابھرتا ہے تو سعودی بادشاہت پھر کہاں جائے گی؟ جس کا محور ارتقا کے سارے زینوں کو محدود کرنا ہے۔

ایک طرف قطر ہے، جو عرب دنیا کی بہت اوپن سوسائٹی ہے اور دوسری طرف سعودی عرب ہے جو دنیا کی بہت کلوز سوسائٹی ہے اور دونوں ہی عرب ریاستیں ہیں اور پڑوسی بھی۔

شام کو جب طویل آمریت نے اندر سے کھوکھلا کردیا، تو داعش جیسی سوچ کا ابھرنا لازمی تھا۔ اور اس طرح سعودی عرب نے داعش کے نظریے کو مضبوط کیا۔ اس میں برطانیہ کے مسلمانوں کا بھی بڑا گہرا ہاتھ ہے۔ نہ جانے وہ کون سے تضادات تھے، جس نے برطانیہ کے مسلمانوں میں انتہاپرستی اور داعش جیسی سوچ کو تقویت دی۔

اور اب داعش کو کسی ملک کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ ایران ہو، افغانستان ہو، عراق یا شام، داعش کا نیٹ ورک بہت وسیع ہوچکا ہے۔ افغانستان کا پاکستان کو بار بار مورد الزام ٹھہرانا، یہ سوچے بغیر کہ ان کی داخلی صورت حال تضادات سے بھری ہوئی ہے۔ نارتھ افغانستان یوں تو صدر غنی کے مشترکہ افغانستان کا حصہ ہے مگر ان کی سوچ پشتون افغان کی سوچ سے ہٹ کر ہے۔ ہندوستان، افغانستان میں اپنا جال بچھا چکا ہے۔ ہندوستان کا افغانستان میں موجودگی کا مقصد ایک ہی ہے۔ مختصراً یہ کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔

ایران کا طویل بارڈر پاکستان سے ملتا ہے۔ اور اس بارڈر کے قریب ایران کی مذہبی اور قومی اقلیتیں آباد ہیں۔ یعنی ایک طرف تو ایرانی بلوچ ہیں اور دوسری طرف وہ سنی ہیں۔ خود ایران کے شاہ بہادر پورٹ جیسے حساس علاقے، زاہدان جیسے شہر اور ایران کے اہم پٹرول کے ذخائر ایران کے بلوچ علاقوں میں ہیں، اور یہ مجموعی طور پر علیحدگی پرست سوچ رکھتے ہیں۔ شہنشاہ ایران کے زمانے سے ماضی قریب تک، پاکستان اور ایران میں ایک غیر تحریری معاہدہ برقرار رہا کہ پاکستان علیحدگی پرست بلوچ سوچ کو پسپا کرے گا اور ایران اپنی حدود کے اندر اس طرح کی سوچ کو پنپنے نہیںدے گا۔ لیکن وہ غیر تحریری معاہدہ اس وقت ٹوٹنا شروع ہوا جب ہندوستان نے ایرانی بلوچ علاقوں میں خصوصاً شاہ بہادر پورٹ میں اپنا جاسوسی نیٹ ورک بچھایا اور پاکستان میں موجود علیحدگی پسند بلوچ سوچ کو اور اکسایا۔ ایران کا پاکستان پر ایک اور الزام ہے کہ وہ ایران کے بلوچوں میں مذہبی انتہاپرستی کی سوچ کو ابھارنے کے لیے سعودی عرب کو راستہ دے رہا ہے۔

یہ بھی ایک خوش آیند بات ہے کہ ایران کی پارلیمنٹ پر داعش کے حملے کے لیے ایران نے سعودی عرب کو مورد الزام ٹھہرایا اور ماضی قریب کی طرح اس بیان سے اجتناب کیا کہ اس میں پاکستان ملوث ہے۔ جس کو ہم گزشتہ دنوں میں کی ہوئی سفارتی ایکٹیویٹی کی کامیابی کہہ سکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایران سے اپنے تعلقات اور وسیع بنائیں، ایک ایسے وقت میں جب خود امریکا میں غیر ذمے دار قیادت موجود ہے اور ہندوستان کے بہت قریب ہے، اور ہندوستان میں اس وقت موجود مروج سوچ یہی ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم کیا جائے۔ پاکستان اور ہندوستان میں موجود تضادات کا حل بھی اسی بات میں ہے کہ وہ ان تضادات کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ بصورت دیگر مشرق وسطیٰ کی طرح ساؤتھ ایشیاء میں بھی تضادات اور گہرے ہوسکتے ہیں، جس کا نقصان مجموعی طور پر یہاں کے عوام کا ہوگا۔ جن کی خوشی امن سے جڑی ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔