ذہین اور مکار کا فرق

سید معظم حئی  ہفتہ 10 جون 2017
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

آپ اس ذہین اورمکار والے معاملے کوکہیں ہلکا نہ لے بیٹھیے گا۔ یہ ذہین اور مکار والا ہی دراصل حساب کتاب ہے کہ جس پر قوموں اور ان کے ملکوں کی تقدیرکا دارومدار ٹھہرتا ہے۔ ویسے یہ حساب کتاب ہے بڑا ہی سیدھا سادا جس ملک کی آبادی میں جتنے زیادہ ذہین ہوں  گے اور جتنے کم مکار وہ ملک زندگی کے ہر شعبے میں اتنی ہی ترقی کرے گا، وہ ملک اتنا ہی اپنے لوگوں کے لیے دنیا بھر میں رہائش کی بہترین جگہ بنے گا، دنیا بھر سے لوگ اپنے ملک چھوڑکر اس ملک میں رہنے کو آئیں گے،اس کی شہریت لینا چاہیں گے۔

جب کہ جس ملک میں جتنے زیادہ مکار ہوں گے اور جتنے کم ذہین وہ ملک اپنے لوگوں کے لیے دنیا بھر میں رہائش کی بد ترین جگہ بنے گا۔اس کے لوگ اپنا ملک چھوڑکر دنیا بھر میں دوسرے ملکوں کی شہریت لینے کے لیے دھکے کھاتے پھریں گے۔ آپ کو زندگی کے ہر شعبے، ہر میدان، ہر پہلو میں ذہین اور مکارکا فرق صاف دکھائی دے گا، نیچے سے اوپر تک، دائیں سے بائیں تک، ہم یہ معاملہ واضح کرنے کے لیے اپنے ارد گرد پھیلی مثالوں سے کام لیتے ہیں۔ ہم بالکل نیچے سے شروع کرتے ہیں مثلاً یہ کہ مکار سڑک پہ دوسروں کو راستہ دینے کے بجائے دوسروں کے راستے کا حق بھی مارکر اپنی چالاکی پہ خود کو داد دیتا ہے۔ ساتھ ہی اپنے حساب میں دوسروں کا حق مارنے کا گناہ لکھواتا ہے۔ ادھر ذہین اپنے راستے کا حق ہوتے ہوئے بھی دوسروں کو پہلے گزرنے کا حق دے کر اپنے حق میں صبر اور حقوق العباد کی نیکی بھی اپنے نام کراتا ہے۔

’’سب ایسا ہی کرتے ہیں‘‘ کی وجہ بناکر مکار اپنے گھر، دکان کے آگے کی فٹ پاتھ اور سڑک پہ قبضہ جماکے خود کو بڑا ہوشیار جانتا ہے اور کیونکہ فٹ پاتھ اور سڑک عوام کی ملکیت ہوتے ہیں چنانچہ یہ مکار ایک دو نہیں بلکہ ہزاروں، لاکھوں انسانوں کا حق مارنے کا گناۂ جاریہ اپنے حساب میں لکھواتا چلاجاتا ہے۔ ساتھ ہی ’’سب‘‘ کی طرح روزحشر اپنے کاندھوں پہ قبضہ کی گئی زمین لادے جانے کا پکا بندوبست کروا ڈالتا ہے۔ ذہین اپنے گھر، دکان کے سامنے کی جگہ پہ قبضہ جمانے کے بجائے اس جگہ کو اپنے گھر، دکان کی طرح صاف رکھ کر اور وہاں سایہ دار درخت لگاکر ’’سب‘‘ کو حساب میں ملنے والے عذاب کے برعکس اپنے لیے ثواب جاریہ کماتا ہے۔ مکار بجلی چراکے اپنی ہوشیاری پہ اتراتا ہے اور ساتھ ہی چوری کی حرام بجلی میں اپنے حلال کام بھی حرام کرتا ہے اور بجلی چوری کا جو بوجھ بجلی نہ چوری کرنے والوں پہ پڑتا ہے اور بجلی چوری کے نتیجے میں لوڈ شیڈنگ سے جو ہزاروں لاکھوں لوگوں کو جوان گنت تکالیف پہنچتی ہیں ان تمام کے وبال میں حصہ دار بن جاتا ہے۔

ذہین بجلی چوری کے بجائے بجلی ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور اصراف سے بچنے کی نیکی اپنے نام کراتا ہے۔ مکار کی عزت نفس نہیں ہوتی وہ طاقتور کے آگے جھکتا ہے اورکمزور کو دباتا ہے، مکارکی وفاداری اپنے مفاد سے ہوتی ہے۔ ذہین کی اپنے اصولوں سے، ذہین اپنی عزت نفس کی عزت کرتا ہے۔ مکار خوشامد کی کھاتا ہے۔ ذہین اپنے کام سے نام کماتا ہے، مکار چیزوں، عہدوں، تعلقات اور مال سے خود کو بڑا سمجھتا ہے اور بے نام مرتا ہے، ذہین اپنے کام اورکردار سے بڑا بنتا ہے اور مر کر بھی بڑا رہتا ہے، شخصیت کا بودا، کردارکو بونا،مکار پروٹوکول کے بل پہ بڑا اتراتا پھرتا ہے، خلق خدا کو اذیت پہنچاتا ہے، ان گنت انسانوں کو پہنچنے والی ان گنت تکالیف کا گناہ خود پہ سوارکرتا ہے۔ اس کے پروٹوکول کی وجہ سے مرنے والے انسانوں کے لواحقین پہ کبھی اپنی خفیہ ایجنسی سے دباؤ ڈالتا ہے کبھی اپنی پولیس اور درباریوں کے ذریعے زر زبردستی اور لالچ سے معاملہ دباتا ہے اور انسانوں کے حق جیسے گناہ کے ساتھ مزید گناہ اپنی قبرکے لیے لکھواتا ہے۔ جہاں اسے بچانے کو نہ خفیہ والے، نہ درباری نہ پولیس ہوگی۔ ذہین چونکہ کردار کا بڑا ہوتا ہے، شخصیت کا کھرا ہوتا ہے اسے خود کو بڑا دکھانے کے لیے لمبے چوڑے پروٹوکول کی ضرورت نہیں ہوتی چنانچہ وہ خدا کی مخلوق کو پہنچنے والی ان گنت تکالیف کے ان گنت گناہوں سے بچا رہتا ہے۔

مکار جوکسی وزارت میں آجائے تو کروڑوں، اربوں لوٹ کر کروڑوں انسانوں کے حقوق العباد کے اربوں، کھربوں گناہ کماتا ہے، مثلاً مکارکو جو بلدیات کی کہیں وزارت مل جائے تو پورے پورے شہرکا پانی چوری کرواکے مہنگے داموں واٹر ٹینکروں سے بکواکے حرام کے کروڑوں، اربوں روپے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کی بے اندازہ اذیت اور بے شمار بد دعائیں بٹورتا ہے۔ ذہین وزارت کو دنیا اور آخرت کا امتحان سمجھتا ہے، مکار حسد کرتا ہے، ذہین محنت کرتا ہے، مکار تعویذ گنڈے، کالا جادو، سفلی کراکے اپنی دوزخ پکی کراتا ہے۔ ذہین خدا پہ بھروسا کرکے ترقی کرتا ہے جاتا ہے۔ مکار عبادت دکھاوے کو اور نیکی جتانے کو کرتا ہے اور ثواب کی جگہ گناہ سمیٹتا ہے۔

ذہین اپنی عبادت کی تصویریں نہیں چھپواتا، فلمیں نہیں چلواتا، اپنی نیکی کا ڈھنڈورا نہیں پیٹتا، ثواب در ثواب کماتا ہے، مکار اپنی عبادتوں، نیکیوں، دکھاؤں، بکروں کی قربانیوں اور پیروں، فقیروں، مولویوں کو نواز کر ان کی نوازشوں سے سمجھتا ہے کہ اس کا حرام مال حلال ہوگیا اس کے ’’سارے گناہ ‘‘معاف ہوگئے جب کہ دین میں کوئی ایسی عبادت، کوئی ایسی نیکی، کوئی ایسا عمل نہیں جو حرام کو حرام بنادے، ناحق کو حق کردے۔ اسلام میں کوئی این آر او نہیں اور حقوق العباد کے گناہوں کی کوئی معافی نہیں سوائے اس کے کہ جن ہزاروں، لاکھوں، کروڑوں انسانوں کے اربوں کھربوں جو حقوق مارے گئے ہوں وہ ان سب کی دل سے معافی دے دیں۔ ورنہ ’’سارے گناہ‘‘ اسے ہی معاف نہیں ہوتے یہ خدائے بزرگ و برتر کا قانون اور خدا کے قانون میں کوئی استثنیٰ نہیں، مکان درباری ہوتا ہے، خوشامدی ہوتا ہے۔ حرام مال، عہدوں اور دوسرے فائدوں کے لیے اپنے آقاؤں کے جھوٹ کو سچ اور حرام کو حلال، غلط کو صحیح ثابت کرکے خود بھی ان تمام گناہوں کا شریک کار بن جاتا ہے۔ ذہین حق بات کرتا عزت پاتا ہے۔ مکار باس ہوتا ہے۔

ذہین لیڈر، مکار ’’میں‘‘ ہوتا ہے۔ ذہین ’’ہم‘‘ مکار حکمران ہوتا ہے، ذہین راہ نما، مکار اپنا اور اپنے خاندان کا مفاد دیکھتا ہے۔ ذہین اپنی قوم اور ملک کا مکار اپنے ملک کو لوٹ لوٹ کر دنیا بھر میں بینک اکاؤنٹ، جائیدادیں، اور کاروبار بناتا ہے ذہین اپنے ملک کو ایسا بناتا ہے جہاں دنیا بھر کے لوگ اپنی دولت لے کر آئیں۔ مکار لوٹ مار حرام کماکے سمجھتا ہے کہ وہ اپنی اولادوں کے لیے بڑا مال چھوڑ کر جارہاہے جب کہ حقیقتاً وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنے اولادوں کو بھی حرام میں شامل کرکے ان کے لیے بھی خدا کا عذاب یقینی بناکر جارہاہوتا ہے ذہین اپنی اولادوں کے لیے حلال مال اور قابل فخر نام چھوڑ کر جارہاہوتا ہے۔ مکارکے تاریخ کے کوڑے دان میں گم ہوجاتا ہے، اگر یاد بھی رکھا جائے تو اپنی لالچ، لوٹ مار اور دوسرے جرائم سے یاد کیا جاتا ہے، ذہین اپنے اچھے کاموں سے مر کر بھی اچھے لفظوں میں زندہ رہتا ہے۔

تو جناب اب ذرا اپنے چاروں طرف دیکھیے، سامنے آئینے میں دیکھئے، آپ سمجھ گئے ناکہ ہماری قوم ایسی اور ہمارا ملک ایسا کیوں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔