6 روزہ جنگ کی 50 ویں سالگرہ

زاہدہ حنا  اتوار 11 جون 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

یہ کل کی بات محسوس ہوتی ہے جب کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر فلسطینیوںکے حق میں مظاہرے ہوتے تھے۔ فلسطینی لڑکے ہماری یونیورسٹیوںمیں پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ یاسر عرفات مزاحمت کی علامت تھے۔ ان کے سر کے گرد لپٹا ہوا چار خانوں والا رومال ہمارے نوجوانوں کو بہت محبوب ہوگیا تھا۔ الطاف فاطمہ نے فلسطینی کرداروں پر ایک کہانی لکھی۔ قرۃ العین حیدر ’’یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے‘‘ لکھ رہی تھیں۔

ہمارے ایک اہم ادیب حسن منظر نے فلسطین کے مسئلے پر ناول ’حبس‘ لکھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے فلسطین ہمارے جغرافیے کا حصہ ہے۔ اور پھر 1967 کی 6 روزہ جنگ ہوئی جس میں اسرائیل نے فتح کے پھریرے لہرائے۔ یروشلم ان کی تحویل میں گیا اور یوں 2 ہزار برس بعد اسرائیلی یہودی اس شہر میں داخل ہوئے جس سے انھیں نکالا گیا تھا۔

یقین نہیں آتا کہ ان دنوں پر سے نصف صدی گزر گئی ہے۔ ان دنوں اس جنگ کی 50 ویں سالگرہ منائی جارہی ہے۔ مصر کے جمال عبدالناصر اور دوسرے عرب رہنماؤں کا خیال تھا کہ وہ اسرائیل کو مچھر کی طرح مسل دیں گے۔ لیکن ہوا اس کے بر عکس۔ یہ 6 روزہ جنگ ختم ہوئی تو اسرائیل کا رقبہ پہلے سے 3 گنا بڑھ چکا تھا۔

اسرائیلی جو اب تک خود کو مظلوم سمجھتے تھے، اب ظالم کا روپ دھار چکے تھے۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ عربوں نے ان کے وطن پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، اب وہ دنیا میں ایک قابض مملکت کے طور پر دیکھے جارہے تھے۔ یہیں سے اسرائیلوں کی ایک مختصر سی آبادی نے اپنے حکمرانوں کے رویوں پر اعتراض شروع کیا اور اسرائیل کے اندر سے اختلافی آوازیں اٹھنی شروع ہوئیں۔ پہلے پہل انھیں ’غدار‘ کہہ کر نظر انداز کردیا جاتا تھا لیکن گذشتہ 50 برسوں کے دوران ان یہودیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو فلسطین کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں، مظاہرے کرتے ہیں۔ اسرائیلی عوام کی اکثریت ان لوگوں کو ’’گمراہ‘‘ اور ’’غدار‘‘ سمجھتی ہے۔

پچاس برس پہلے جب یہ چھ روزہ جنگ ہوئی، اس کے بعد فلسطین کی جنگ آزادی میں دو نام اخباروں، کتابوں اور ٹیلی وژن چینلوں پر ابھر کر سامنے آئے۔ ان میں سے ایک لیلیٰ خالد تھی اور دوسری کا نام حنان اشروی تھا۔ مغرب میں اور ہمارے یہاں یہ دونوں عورتیں فلسطین کی جدوجہد آزادی کا استعارہ بن گئیں۔ ان میں سے لیلیٰ خالد کو راتوں رات اس وقت شہرت ملی جب اس نے 1969 میں روم سے تل ابیب جانے والی ٹی ڈبلیو اے کی فلائٹ 840 کو اغوا کیا۔ نوجوان، لیلیٰ نے ذاتی خوابوں کی قربانی دیتے ہوئے یہ خطرناک کام فلسطین کی آزادی کے لیے کیا تھا اور دنیا بھر کے اخبارات اس کی تصویروں سے بھرے ہوئے تھے۔ لیلیٰ خالد گرفتار ہوئی، جیل گئی اور جب چھوٹ کر آئی تو ایک بار پھر اس نے ایک طیارہ اغوا کیا۔

لیلیٰ اب اس طرح سرگرم نہیں لیکن اس کے خیال میں فلسطین کی آزادی مسلح جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ دنیا لیلیٰ خالد کو دہشت گرد کہتی ہے لیکن اس کے خیال میں وہ آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اصل دہشت گرد صیہونی ہیں جنھوں نے ہمارے وطن پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے، دہشت گرد استعماری طاقتیں ہیں جو دنیا کے لوگوں پر جنگیں مسلط کرتی ہیں۔ 50برس پہلے اسرائیل نے جن زمینوں پر قبضہ کیا تھا، ان پر یہودیوں کی آباد کاری کو وہ دہشت گردی سے تعبیر کرتی ہے۔

لیلیٰ خالد کے خیالات کے برعکس حنان اشروی ہے۔ فلسطین کی آزادی کے لیے حنان اشروی نے ابتدا سے ہی سیاسی جدوجہد کو اختیار کیا۔ چھ روزہ جنگ جب شروع اور ختم ہوئی تو وہ بیروت کی امریکن یونیورسٹی میں انگریزی ادب پڑھ رہی تھی۔ وہ فلسطین کے ایک خوشحال اور بااثر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی لیکن جب اس نے لوٹ کر اپنے گھر رام اللہ جانا چاہا تو اس میں اسے کتنے پاپڑ بیلنے پڑے، اس کا اندازہ حنان کی ایک تحریر سے ہوتا ہے۔ اپنے گھر جانے کے لیے اسے پہلے اردن کا سفر کرنا پڑا، وہاں سے وہ رام اللہ کے لیے روانہ ہوئی تو حنان کو تفتیش کاروں کا سامنا کرنا پڑا۔

گھنٹوں اس سے اس کے اور خاندان کے بارے میں پوچھ گچھ ہوئی، جب وہ اس مرحلے سے بھی گزر گئی تو اس کی جامہ تلاشی ہوئی۔ اسرائیلی فوج نے اس کا تمام سامان ضبط کرلیا۔ ان مراحل کے بعد جب وہ گھر پہنچی تو یہ وہ زمین نہیں تھی جسے وہ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کئی برس پہلے چھوڑ کر گئی تھی۔ وہ لکھتی ہے کہ ’رام اللہ‘ جسے ’فلسطین کی دلہن‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، وہ دلہن بے حرمت کی جاچکی تھی۔ پی ایل او ’ممنوع‘ ہوچکی تھی۔

رام اللہ پہنچنے کے بعد حنان نے دوسرے ہم خیال فلسطینیوں سے مل کر بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں ’امن پیش قدمی‘ کا آغاز کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1988 میں الجزائر میں ایک کانفرنس ہوئی جس میں امن کی خواہش اور عام فلسطینی کے مصائب کو نظر میں رکھتے ہوئے پی ایل او کا یہ وفد فلسطین کی تاریخی زمین کے صرف 22 فیصد پر راضی ہوگیا۔

دراصل وہ لوگ جو اپنی زمینوں اور اپنے گھروں میں آرام سے ہیں، جن کے باورچی خانے ہمہ وقت گرم رہتے ہیں، جن کے نلوں میں پانی آتا ہے اور اس صاف پانی کو وہ پی سکتے ہیں، اس سے نہا سکتے ہیں، انھیں اندازہ ہی نہیں کہ فلسطینی کس غربت اور کس مپرسی کے عالم میں زندگی کی گھڑیاں گزار رہے ہیں۔ کھیتوں اور باغات کی بات جانے دیجیے، فلسطینیوں کو پینے کے لیے صرف 14 فیصد پانی ملتا ہے جب کہ یہودی آباد کاروں کے سوئمنگ پول صاف تازہ پانی سے چھلک رہے ہوتے ہیں اور ان کے لان سرسبزو شاداب رہتے ہیں۔

حنان اشروی کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مشرقی یروشلم میں فلسطینیوں کا داخلہ ممنوع ہے سوائے ان خوش نصیبوں کے جن کے پاس یروشلم کے آئی ڈی کارڈ ہیں۔ حنان کے والدین کا گھر مقبوضہ مشرقی علاقے میں ہے۔ اس کے پاس یروشلم کا آئی ڈی کارڈ بھی ہے لیکن رام اللہ سے اپنی ماں کے گھر پہنچنے میں اسے ایک گھنٹہ لگتا ہے جب کہ اب سے پہلے یہ صرف  15 منٹ کا راستہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دس قدم پر چیک پوسٹ ہے جہاں فوجی آپ کی اور آپ کی گاڑی کی تلاشی لیتے ہیں۔

نصف صدی پہلے ہونے والی جنگ میں جب اسرائیل نے فلسطین کے بہت بڑے خطے پر قبضہ کیا، اس کے بعد سے آج تک حنان اشروی اور اس جیسے بہت سے دوسرے فلسطینی عدم تشدد کو اپنا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے ہیں اور ان کے مظاہروں یا جلسوں میں نوجوانوں کو تشدد کی تلقین نہیں کی جاتی لیکن اس کا اسرائیلی فوج پر الٹا اثر ہوتا ہے اور وہ پرامن جلسوں کو بھی سختی سے تتر بتر کرتے ہیں۔

1991 میں جب حنان اور دوسرے فلسطینی رہنماؤں کی امریکی وزیر خارجہ جیمز بیکر سے ملاقات ہوئی اور ان لوگوں نے اسرائیل کی طرف سے انسانی حقوق کی بد ترین خلاف ورزریوں کی طرف توجہ دلائی تو امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ آپ ان سے مذاکرات کریں، مقبوضہ علاقوں میں نئی آبادیاں رک جائیں گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ فلسطینی اپنے جائز حقوق سے محروم ہوتے رہے اور مقبوضہ علاقے میں رہنے والے آباد کاروں کی نخوت اور بے رحمی میں اضافہ ہوتا رہا۔

حنان اشروی کو اس بات کا صدمہ ہے کہ اس کی بیٹی اور نواسی کو مقبوضہ مشرقی یروشلم کا آئی ڈی کارڈ نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں اس کی بیٹی اور نواسی اپنے بزرگوں سے ملنے کی مسرت سے محروم ہیں۔ 1967 میں ہونے والی 6دن کی جنگ کے ہولناک نتائج سے فلسطینی آج تک نہیں سنبھل سکے ہیں۔ اب جب کہ اس شرم ناک شکست کی 50ویں سالگرہ منائی جارہی ہے، ایک عام فلسطینی سے ان کے رہنماؤں تک سب ہی کو یہ بات شدت سے یاد آرہی ہے کہ وہ اپنی آبائی زمین سے دھکیلے جاتے رہے ہیں، ان میں سے کچھ نے دوسرے ملکوں کا رخ کیا اور وہاں تارکین وطن کی الم ناک زندگی گزار رہے ہیں جب کہ بیشتر وطن میں خوار ہورہے ہیں۔

ایک زمانہ تھا جب ساری دنیا بہ طور خاص تیسری دنیا کے ملکوں میں فلسطینیوں سے گہر ی ہمدردی پائی جاتی تھی لیکن جب فلسطینی تحریک آزادی کی رہنمائی وہ تنظیمیں کرنے لگیں جو عسکریت پسند تھیں اور مذہب و مسلک کی بنیاد پر لڑائی لڑ رہی تھیں تو رفتہ رفتہ ان لوگوں کی ہمدردیاں کم ہوتی چلی گئیں جو  انسانی حقوق کی لڑائی کی بنیاد پر فلسطین کے ساتھ تھے۔ یہی سبب ہوا کہ وہ فلسطینی بھی پس منظر میں دھکیل دیے گئے جو اپنی زمین سے عشق کرتے تھے لیکن مسلمان نہیں تھے۔

یاد رہے کہ ایڈورڈ سعید، حنان اشروی، لیلیٰ خالد اور کئی دوسرے اہم فلسطینی رہنما مسلمان نہیں ہیں لیکن وہ اپنے وطن فلسطین کی آزادی کے لیے جان ہتھیلی پر رکھ کر پھرے ہیں۔ ان لوگوں میں لیلیٰ خالد سے زیادہ جان پر کھیل جانے والے کام کم کم کسی فلسطینی نے کیے ہیں۔ لیلیٰ خالد کے بارے میں ایک کالم مجھ پر قرض رہا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔