لوگوں سے محبت کرو

رئیس فاطمہ  اتوار 11 جون 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

سید محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’جو کام سب سے زیادہ مغفرت کا سبب ہوگا، وہ کشادہ روی اور شیریں زبانی ہوگا۔‘‘

ذرا غور کیجیے اور پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی گفتگو کا اندازہ دیکھیے۔ یہ زبانی، کلامی سرعام دست و گریباں ہونا، باقاعدہ گالم گلوچ کرنا، خواتین سے نازیبا رویہ رکھنا انھیں برا بھلا کہنا اور ٹاک شوز میں جس طرح کی یہ باتیں کرتے ہیں، جس جس طرح کے الزامات مخالف جماعتوں پر لگاتے ہیں۔ لیکن دعویٰ ہے پرہیزگار مسلمان کا۔ کیا ان لوگوں کو اس حدیث کا علم نہیں۔ ان سب کا قول و فعل میں تضاد ہی ان کو رسوا کرتا ہے۔

خاتم الانبیاؐ نے فرمایا ہے کہ ’’پانچ چیزوں سے اللہ کی پناہ مانگو۔ اول یہ کہ جس قوم میں فحاشی عام ہونے لگتی ہے تو اس قوم میں ایسی ایسی بیماریاں پھیلنے لگتی ہیں جو ان سے پہلے لوگوں میں نہ تھیں۔ اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے وہ قحط، مصائب اور بادشاہوں کے ظلم و ستم میں مبتلا کردی جاتی ہے اور جب کوئی قوم اپنے اموال کی زکوٰۃ نہیں دیتی تو بارش ان سے روک دی جاتی ہے اور اگر چوپائے نہ ہوں تو ان پر کبھی بھی بارش نہ برسے۔ اور جو قوم اللہ اور اس کے رسولؐ کے عہد کو توڑتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیروں کو ان پر مسلط فرما دیتے ہیں، جو اس قوم سے دشمنی رکھتے ہیں۔ اور جب مسلمان حکمران کتاب اللہ کے مطابق فیصلے نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ اس قوم کو خانہ جنگی اور باہمی اختلاف میں مبتلا فرما دیتے ہیں۔‘‘

مندرجہ بالا فرمودات نبویؐ کی روشنی میں اپنا اور حکمرانوں کا جائزہ لیجیے تو واضح نظر آتا ہے کہ تمام بلائیں ہم پر حملہ آور ہیں۔ فحاشی کو پھیلانے میں بڑا ہاتھ الیکٹرانک میڈیا کا ہے۔ ڈراموں میں سے خواتین کے دوپٹے سرے سے غائب کردیے گئے ہیں، جینز اور ٹی شرٹ اسکرین پہ چھا گئے ہیں اور ہر وہ طریقہ اپنایا جا رہا ہے جس سے سفلی جذبات کو ہوا ملے۔ ڈراموں میں کوئی جان نہیں، ایک جیسی کہانیاں، عشقیہ جذبات کو ابھارنا، گھروں سے بھاگ کر یا چوری چھپے نکاح کرنا، یہی موضوعات ہیں۔

ذرا غور کیجیے کہ میرے پیارے نبیؐ کی کہی ہوئی تمام باتیں آج پاکستان میں کس طرح سچ ثابت ہو رہی ہیں۔ ناپ تول میں بے ایمانی کے مظاہرے عام ہیں، بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ غیروں کو ہم پر مسلط کردیا گیا ہے، ہم امریکا کے غلام بن چکے ہیں۔ حکمرانوں کی نااہلی کی بدولت پاکستان ایک طرح سے مسلسل خانہ جنگی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ غیروں کا آلۂ کار بن کر کبھی افغان جہاد کے نام پر ڈالر کمانا اور روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور اب اسلامی ممالک کی متحدہ فوج کا سربراہ ایک پاکستانی کو مقرر کرنے کا کیا مطلب؟

سعودی عرب نے جو ریڈ کارپٹ ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے ہوائی جہاز کی سیڑھیوں سے لے کر مقررہ جگہ تک بچھا کر 110 ارب ڈالر کے ہتھیار خریدنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے، وہ کیا ہے؟ کیا پاکستان کو اس سے کوئی فائدہ ہوگا؟ امریکا کو پاکستان میں ’’جمہوریت‘‘ کی بڑی فکر ہے۔ لیکن سعودی عرب کی بادشاہت سے اسے کوئی خطرہ نہیں۔ ’’تیل دیتے رہو ہتھیار لیتے رہو اور عیش کرو۔‘‘

ایک بار عقبہ بن عامر حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ’’یا رسول اللہؐ! آخرت میں سرخرو ہونے اور نجات حاصل کرنے کے لیے کیا کیا جائے؟‘‘ حضورؐ نے فرمایا: ’’ (1) اپنی زبان پہ قابو رکھو۔ (2) اپنے گناہوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور کثرت سے رویا کرو، توبہ و استغفار کیا کرو۔ اگر تم مجھے ان دو چیزوں کی ضمانت دے دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دوں گا۔ اپنی زبان سے کسی کی غیبت نہ کرو، کسی کی عیب جوئی نہ کرو، کسی کو برا بھلا نہ کہو، کسی پر تہمت نہ لگاؤ۔ تو جنت تمہارے لیے ہے۔‘‘

لیکن پاکستانی سوسائٹی میں یہ عیب عام ہیں۔ حضور نے جنت کی بشارت اور ضمانت کے لیے سب سے زیادہ زبان کو قابو میں رکھنا اور کسی پر تہمت لگانے اور جھوٹا الزام لگانے سے منع فرمایا ہے۔ لیکن یہ ایک عام مشاہدہ ہے کہ لوگ صرف پانچ وقت کی نماز ادا کرکے اسلام کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔ میرا ذاتی مشاہدہ ہے کہ بالخصوص خواتین اس معاملے میں بہت آگے ہیں۔ جو موجود نہیں اس کی برائی ہو رہی ہے، الزام تراشی ہو رہی ہے، غیبت ہورہی ہے، ہر طریقے سے خود کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ دو چار خواتین بھی ہاں میں ہاں ملا رہی ہیں۔

اچانک اذان ہوتی ہے اور یہیں الزام تراشی کرنے والیاں دوپٹے سروں پہ لپیٹ کر نماز کے لیے کھڑی ہوجاتی ہیں اور پھر نماز ادا کرنے کے بعد سلسلہ گفتگو غیبت اور بہتان تراشی کا وہیں سے جڑ جاتا ہے جہاں سے چھوٹا تھا، اور جوں ہی یہ بہتان لگانے والی خطرناک عورتیں وہاں سے اٹھتی ہیں، دوسری ان کے بارے میں شروع ہوجاتی ہیں، اور حیرت کا اظہار کرتی ہیں کہ یہ عیب جوئی اور بہتان لگانے والی کیسا صاف منہ پہ جھوٹ بول رہی تھی، وہی مثل ہے کہ ’’نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی۔‘‘

جو لوگ بہتان تراشی کرتے ہیں ان کے بارے میں بھی لوگ کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے۔ کہتے ہیں جہنم میں عورتوں کی تعداد مردوں سے زیادہ ہوگی۔ یقیناً، کیونکہ عورتیں عیب جوئی اور غیبت میں ماہر ہوتی ہیں۔ شوہر کے رشتے داروں اور اس کے والدین کی برائیوں میں سب سے آگے۔ قرآن خوانی میں سپارہ پڑھتے پڑھتے تھوڑی دیر کے لیے بند کیا اور برابر میں بیٹھی خاتون سے کسی نہ کسی کی برائی میں مصروف ہوگئیں۔

داماد کو اس کے ماں باپ سے چھڑانے والیوں کی تعداد انڈیا اور پاکستان میں سب سے زیادہ ہے، بیوی نے شوہر کو قسم دے دی کہ ’’اگر اپنی ماں کا نام لیا یا فون ریسیو کیا تو میں بچوں کو چھوڑ کر میکے چلی جاؤں گی۔‘‘ شریف آدمی چپ ہو جاتا ہے اور باپ کے انتقال کے بعد بیوہ ماں کو تنہائی کے کنوئیں میں دھکیل کر بیوی کے حکم کی تعمیل کرتا ہے۔

ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پوپلزئی نے اپنا چاند خود نکال لیا اور 13 شہادتیں بھی جمع کرلیں۔ کرلو جو کرنا ہے۔  جو حکومت ایک مولوی کو کنٹرول نہ کرسکی وہ کیا مہنگائی کم کرے گی اور کیا دہشت گردی۔ صرف دعوے ہی دعوے۔ میری ہی نہیں بہت سے لوگوں کی رائے یہی کہ رویت ہلال کمیٹی کو ختم کردینا چاہیے۔ دراصل یہ ایوب خان نے  بنائی تھی۔ اس طرح آسانی سے قوم کو اور مسلمانوں کو تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے کہ بھارت کا مسلمان اپنا چاند دیکھے، پاکستان کا مسلمان اپنا، پشاور کا اپنا، لندن میں رہنے والے مسلمان اپنا اپنا چاند تلاش کریں؟

یہ کام مولویوں کا نہیں ہے بلکہ سائنس دانوں کا ہے جو کئی سال کی چاند اور سورج گرہن کی تاریخیں بتا دیتے ہیں۔ ایوب خان سے پہلے یہ کام محکمہ موسمیات کا تھا۔ وہی اعلان کرتے تھے، لیکن ایوب خان نے اختیارات ان رویت ہلال کمیٹی کے سپرد کردیے۔ لاعلمی ہمارے ملک کی سب سے بڑی وجہ ہے جو لوگوں کو نہ متحد ہونے دیتی ہے نہ ان کا شعور بیدار ہونے دیتی ہے۔ آپ ہر چیز کے لیے الیکٹرانک میڈیا کے محتاج ہیں، فون کے، انٹرنیٹ کے ذریعے آپ کو جدید معلومات مل جاتی ہیں۔

ٹرمپ کا خطاب عین اسی وقت پاکستانیوں نے بھی دیکھا جس وقت وہ سعودی عرب میں خطاب کر رہے تھے۔ تو یہ رمضان اور عید کے چاند کو ایسی کیا آفت آگئی ہے کہ اپنے اپنے علاقے اور ملکوں میں الگ الگ چاند دیکھ کر رمضان اور عید کا تعین کیا جائے۔ کیوں نہ سربراہان مملکت، وزارت مذہبی امور اور محکمہ موسمیات مل کر یہ طے کرلیں کہ پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن عید منائیں گے اور ایک ہی دن حضورؐ کا یوم ولادت۔ کیا ہم اس ایک بات پر بھی متفق نہیں ہوسکتے؟

ہمارا قبلہ و کعبہ ایک ہے، جب مختلف ملکوں اور مختلف مسلکوں کے لوگ حج ایک ہی دن ادا کرتے ہیں تو عید، بقر عید الگ الگ کیوں؟ رمضان الگ الگ کیوں؟ چلیے صاحب کہیں تو متفق ہوجائیے، سعودی عرب میں اگر چاند نظر آجائے تو وہیں سے اعلان ہو کہ پہلا روزہ کب ہوگا اور عید، بقر عید کب ہوگی۔ اس طرح غیروں کو مذاق اڑانے کا موقع تو ہم خود فراہم کرتے ہیں۔ ذرا سوچیے یہ زمینی مسائل ہیں انھیں یہیں حل کیجیے۔ رویت ہلال کمیٹی کو ختم کیجیے اور طے کر لیجیے کہ یہ مذہبی تہوار پوری دنیا کے مسلمان ایک ہی دن منائیں گے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔