عید کے کپڑے، کوئی محروم نہ ہو

نسیم انجم  اتوار 11 جون 2017
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ماہ رمضان شروع ہو چکا ہے اور عید کی تیاریاں زور وشور سے جاری ہیں۔ ایک طرف امرا ہیں، متوسط طبقہ ہے تو دوسری طرف غربا ومساکین ہیں، جن کے پاس دو وقت کی خوراک میسر نہیں، سجے ہوئے بازاروں کو دیکھ کر ان کی مایوسی پروان چڑھتی ہے، جو بہت سے مسائل کو جنم دیتی ہے۔

سب سے اہم مسئلہ عید کے مواقع پر خودکشی کا ہے، مزدور طبقے کی تنخواہ بے حد قلیل ہوتی ہے موجودہ بجٹ کے تحت بمشکل 15 ہزار ماہانہ ہوئی ہے، ایک خاندان کا گزارہ بھلا 15 ہزار میں کیسے ممکن ہے اور پھر وہ لوگ بھی ہیں جو بیروزگار ہیں یا پھر روز کنواں کھودتے، روز پانی پیتے ہیں، یہ لوگ بھلا عید اور بقر عید جیسے تہواروں کے لیے بچت کیسے کرسکتے ہیں؟ ان کے بچے تعلیم اور علاج سے محروم رہتے ہیں۔

اس قسم کی دشواریاں انھیں جیتے جی مار دیتی ہیں اور ایک وقت آتا ہے جب ان پر یاسیت کا شدید قسم کا دورہ پڑتا ہے اس کی وجہ ان کے بچے عید کے کپڑوںسے محروم رہتے ہیں ان کے چہروں پر حسرت اور محرومی کے سیاہ سائے رقص کرتے ہیں۔ غریب ماں باپ کے لیے یہ صورتحال نہایت تکلیف دہ ہوتی ہے۔ لہٰذا ماں سوچے نہ سوچے باپ نہ کہ سوچتا ہے بلکہ عمل بھی کر ڈالتا ہے۔ خود بھی زہر کھاتا ہے اور بیوی بچوں کو بھی کھانے پینے کی چیزمیں ملاکر دے دیتا ہے، اس طرح پورا گھرانہ ابدی نیند سوجاتا ہے۔

ایسے حالات میں بھی حکومت چین کی بانسری بجاتی ہے وہ ذرا برابر بھی مسکین و بے سہارا لوگوں کی مدد کرنے کے لیے کوئی فنڈ دیتی ہے اور نہ ملازمت فراہم کرتی ہے۔ اہل اقتدار کی بے حسی کی مثالیں تاریخ کے تاریک صفحوں میں رقم ہیں۔ پانی، بجلی، کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے، اسے کوئی حل کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھتا۔ اسی طرح گرانی کا زہر جس نے لوگوں کو جیتے جی مار دیا ہے۔ مایوسیوں اور غموں کی بہتات کے باعث غیرت مند شخص کو اپنے گھرانے سمیت مرنے پر مجبور کردیتی ہے، اس کی وجہ اس کے خالی کشکول میں کوئی خیرات دینے کو تیار نہیں۔

پاکستانی اسلامی ملک ہے، زکوٰۃ کا نظام رائج ہے اور باقاعدگی کے ساتھ بینکوں میں اس کی کٹوتی ہوتی ہے، زکوٰۃ کی رقم کروڑوں تک پہنچ جاتی ہے، کیا ہی اچھا ہو کہ حق دار کو اس کا حق ادا کردیا جائے تو دین و دنیا سنور سکتی ہے، لیکن ضرورت مند حاجت روائی کے لیے ترستے ہیں اور جو زکوٰۃ کے مستحق نہیں ہیں وہ عیش کرتے ہیں۔ فرعون و نمرود کے پاس بھی بے پناہ دولت تھی۔ پھر کس طرح انھیں عذاب نے گھیر لیا، پیسہ کام آیا کہ زندگی خرید لیتے۔ بے پناہ دولت کے مالک، ارب کھرب پتی جان لیوا بیماری سے محض دولت کی خاطر چھٹکارا پاسکتے ہیں! نہیں نا۔ پھر دولت کی ہوس اس قدر کیوں؟ کہ غریب کا حصہ بھی مالدرار کی تجوری میں جاکر پوری دولت کو حرام مال میں تبدیل کردیتا ہے اور یہ حرام مال دکھوں، بیماریوں اور اولاد کی نافرمانی کے نتیجے میں سامنے آتا ہے۔

پسماندہ علاقوں میں جاکر دیکھیں، ہزاروں گھرانے دو وقت کی روٹی اور علاج کے لیے ترس رہے ہیں۔ پھر وہی بات یاد آجاتی ہے، بجلی اور پانی کی، رمضان کے مہینے میں نہانے دھونے کے لیے پانی کی بوند بوند سے محروم ہوگئے ہیں۔ ماہ رمضان میں بھی واٹر بورڈ کا وہی حال ہے۔ ٹینکر منافع بخش تجارت ہے۔ دولت پیسہ بٹورا جا رہا ہے، اسکولوں اور اسپتالوں کی حالت بھی ابتر ہے، جو کل مسیحا کے نام سے پکارے جاتے تھے آج وہ ڈاکو بن گئے ہیں۔ لاشوں کی تجارت کرتے ہیں اور مرنے والے کے لواحقین کو ایک بڑا سا بل پیش کردیتے ہیں۔

ایک بات افسوسناک ہے کہ خودکشی کرنے والے اس حقیقت کو یکسر فراموش کردیتے ہیں کہ یا پھر وہ جانتے نہیں، ان کے پاس علم نہیں ہے کہ اپنی موت کا اپنے ہاتھ سامان کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا، اس کی بخشش نہیں ہو گی اور اس ہی اذیت سے بار بار دوچار ہو گا جو اس نے موت کو گلے لگاتے ہوئے اٹھائی تھی، لہٰذا اس بات کا شعور دینا عالم دین اور مبلغ کا اولین فرض ہے۔ ہمیشہ کی طرح یہ سال بڑی تیزی سے گزرا ہے۔ عید قریب آرہی ہے، زندگی کے مسائل اور خاص طور پر بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے جینا دوبھر کردیا ہے۔

بے شمار علاقے پانی سے محروم ہیں، گرمیوں کا مہینہ ہے ایسے میں روزے دار کو دن گزارنا مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن اﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو صبر و شکر سے نوازتا ہے۔ اﷲ نے قرآن پاک میں فرمایا ہے کہ روزہ فرض عبادت ہے اس کو بلا عذر چھوڑا نہیں جاسکتا، اسی طرح عید اور اس کی خوشیاں منانا ہر مسلمان کا حق ہے۔

بیشک زندگی بہت مختصر ہوتی ہے اس چھوٹی سے زندگی میں بڑی بڑے خواہشات کا جنم لینا اور ان خواہشات کو ناجائز طریقے سے پورا کرنا انسان کا اپنے اوپر بڑا ظلم ہے، جتنی دولت، جائیداد ہوتی ہے، اتنے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں، حاسدوں میں اضافہ ہوتا ہے، دشمنیاں بڑھتی ہیں اور اکثر اوقات آپس کے لڑائی جھگڑے پورے پورے خاندان کی جان لے لیتے ہیں۔ خوش نصیب وہ ہیں جو قانع ہیں، ہر معاملے میں قناعت کرتے اور اپنے رب کی رضا پر راضی رہتے ہیں اور اس کی نعمتوں کا شکر بجا لاتے ہیں اور اس دنیا اور اس کی رنگینیوں کو خس و خاشاک سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔

یقیناً وہ ہی لوگ کامیاب ہیں۔اﷲ کے نزدیک سب سے اچھا عمل ایک دوسرے کی مدد کرنا ہے، ظالم کے ظلم سے آزاد کرانا، حاجت مند کی حاجت پوری کرنا عمل صالح ہے۔ اﷲ نے ان نیکیوں کے بدلے بہترین انعام سے نوازنے کا وعدہ کیا ہے۔ سب سے بڑی بات تو یہ کہ دنیا میں ہی عزت و مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے۔ اور اعتماد کی فضا میں ہی عزت و مرتبہ حاصل ہوجاتا ہے اور اعتماد کی فضا پروان چڑھتی ہے۔ لہٰذا مخلوق خدا کی خدمت کرنے کے لیے اس سال کچھ نیا کیا جائے تو اس طریقہ کار سے بہت سے لوگوں کو سچی مسرت حاصل ہوسکتی ہے۔

ان کے گھروں میں امیدوں اور آرزوؤں کے چراغ روشن ہوسکتے ہیں، اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے ایک انجمن ’’فلاح انسانی‘‘ کے نام سے بنائی ہے، یہ انجمن ان گھرانوں میں عید کے کپڑے مہیا کرے گی، جو عید کے لباس بنانے کی سکت نہیں رکھتے۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ مجھ سے رابطہ کریں۔ میں فون پر ہی مخیر حضرات کا فون نمبر ضرورت مند حضرات کو دے دوںگی، وہ صاحبان ثروت شناختی کارڈ دیکھ کر ان کی مطلوبہ اشیا انھیں فراہم کریںگے۔

شاید اس عمل سے سب نہیں تو چند گھرانوں کو عید کی حقیقی خوشیاں مل جائیں اور یہ افراد خودکشی کرنے سے بچ جائیں۔ ویسے تو دوسرے ملکوں کی طرح ہمارے ملک میں بھی سستے اور مفت عید بازار ہر پسماندہ علاقے میں لگانا چاہیے اور یہ کام حکومت کا ہے۔ سال میں کئی بار صاحبان اقتدار بیرون ملک جاتے ہیں۔ شاپنگ کرنے اور سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ وہ ان ملکوں سے ایسی چیزوں کو اپنے ملک میں لاکر کیوں نہیں عام کرتے ہیں، جن کے کرنے سے ان کی توقیر میں اضافہ اور غریب عوام کو فائدہ حاصل ہو۔ وہاں تو کرسمس مواقعوں پر اشیا سستی ہی نہیں بلکہ مفت بھی تحائف کی شکل میں تقسیم کردی جاتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔