ایران میں اعتدال پسندوں کی کامیابی

زمرد نقوی  پير 12 جون 2017
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ جب ریاض میں امریکا عرب اسلامی کانفرنس ہورہی تھی تو اس سے صرف ایک دن پہلے ایران میں صدارتی انتخابات ہورہے تھے۔ جس میں ایرانی قوم نے اپنے مقدر کا فیصلہ کرنا تھا کہ آیا کہ وہ ایسی لیڈر شپ چاہتے ہیں جو مغرب سے محاذ آرائی میں اضافہ کرے یا اس میں کمی لائے۔ ایران مخالف قوتوں خصوصاً اسرائیل کو یقینا افسوس ہوا ہوگا کہ ایرانی عوام نے ایسی لیڈر شپ چنی جو مغرب سے مذاکرات کو ترجیح دیتی ہے۔

یہ انتخابات ایران کے بارہویں صدارتی انتخابات تھے جس میں مردوں سے بڑھ کر عورتوں نے حصہ لیا۔ ووٹروں کا ہجوم اور ان کے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ حکام کو ووٹنگ کے وقت کئی گھنٹے آگے بڑھانا پڑا۔ ووٹنگ کی شرح 73 فیصد رہی۔ ایرانی صدر حسن روحانی نے 57 فیصد ووٹ حاصل کیے جب کہ ان کے حریف ابراہیم رئیسی جو قدامات پسندوں کے نمایندے تھے نے 38 فیصد سے کچھ زیادہ ووٹ حاصل کیے۔

یہ ایرانی صدر کی اپنے حریف پر واضح برتری تھی کہ ایرانی عوام ماضی کی محاذ آرائی کو دہرانا نہیں چاہتے۔ انھوں نے اپنے ملک کیلیے لاکھوں کی تعداد میں قربانیاں دیں لیکن وہ اس محاذ آرائی کی دلدل سے نکل کر خوش حالی اور مزید آزادی چاہتے ہیں۔ یہ ان کا حق بھی ہے۔

رد انقلاب کے نام پر ان کی بہت سی آزادیاں سلب کرلی گئیں خاص طور پر خواتین اس سے بہت زیادہ متاثر ہوئیں۔ بقول صدر روحانی ایرانی عوام کے گھروں کے اندر بھی حقوق متاثر ہوئے۔ صدر روحانی کے مخالف ابراہیم رئیسی عالم دین ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل ہیں۔ صدر روحانی نے بھی قم سے مذہبی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھوں نے برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

ایرانی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے لیے بہت سے امیدوار تھے لیکن آخر میں یہ مقابلہ دو امیدواروں کے درمیان ہی رہ گیا۔ ان میں روحانی اعتدال پسندوں کی نمایندگی کرتے تھے جب کہ ابراہیم رئیسی قدامت پسندوں کی۔ چنانچہ دونوں امیدواروں کے ووٹ لینے کی شرح سے ثابت ہوتا ہے کہ ایرانی قوم اعتدال پسندوں اور قدامت پسندوں میں تقسیم ہوگئی جس میں اعتدال پسندوں کا پلڑا واضح طور پر بھاری رہا۔

صدر روحانی نے الیکشن میں اپنی بھر پور فتح کے بعد ٹیلی ویژن پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ووٹروں نے ان لوگوں سے دوری کو ترجیح دی جو ملک کو ماضی میں لے جانا چاہتے تھے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ایرانی عوام باقی دنیا کے ساتھ امن اور دوستی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں لیکن وہ کسی بھی صورت میں دھمکی یا بے عزتی برداشت نہیں کریں گے۔

ایرانی انتخابات کے نتائج نے اعتدال پسندوں اور قدامت پسندوں کے درمیان تقسیم واضح کردی ہے جس میں ماضی کے مقابلے میں غالب اکثریت اعتدال پسندوںکی ہے جو چاہتی ہے کہ معیشت پر زیادہ توجہ دی جائے۔ ایران میں بے روزگاری اور مہنگائی کا  زیادہ تر شکار نوجوان طبقہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد نے روحانی کی حمایت کی۔ معیشت کی خرابی کی اصل وجہ تو عالمی معاشی پابندیاں رہیں جس نے ایرانی معیشت پر بہت برا اثر ڈالا اور ایرانی عوام نے ان پابندیوں کو طویل عرصے تک بڑے حوصلے سے برداشت کیا۔

موجودہ ایرانی قیادت کی بڑی کامیابی ایران امریکا جوہری ڈیل ہے جس کے نتیجے میں ایران پر پابندیاں مکمل طور پر تو نہیں کافی حد تک کم ہوئی ہیں جس کا ایرانی معیشت پر مثبت اثر پڑا۔ اس ہونے والی جوہری ڈیل کو صدر ٹرمپ اقتدار میں آنے کے بعد بھی ختم نہیں کرسکے جب کہ انتخاب میں ان کا دعویٰ تھا کہ وہ امریکی صدر بننے کے بعد اس معاہدے کو منسوخ کردیں گے۔ بظاہر اس کی وجہ یورپی یونین اور برطانیہ کی یقین دہانی کہ اس معاہدے کی ہر صورت پابندی کی جائے گی کہ یہ پوری دنیا کے لیے مفید ہے کیونکہ یہ معاہدہ صرف امریکا اور ایران کے درمیان نہیں بلکہ عالمی طاقتوں روس، چین، برطانیہ، جرمنی اور فرانس کے درمیان ہوا ہے اور وہی اس کی گارنٹر ہیں۔

صدر روحانی نے ٹرمپ کے سعودی عرب کے دورے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے عوام نے اس انتخاب کے ذریعے ہمسایہ ممالک اور پورے ریجن کو یہ پیغام دیا ہے کہ پورے علاقے کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلیے جمہوریت ہی واحد راستہ ہے نہ کہ غیر ملکی طاقتوں پر انحصار۔ روسی صدر پیوٹن پہلے شخص تھے جنہوں نے ایرانی صدر کو دوبارہ جیت پر مبارکباد دی۔ اسی طرح یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی چیف موگرائی نے دنیا سے قربت اور علاقائی امن کے لیے ایرانی عوام کے ساتھ مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

ایک ایرانی تجزیہ کار نے اس انتخاب پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ ایرانی عوام اب کوئی ریڈیکل تبدیلی نہیں چاہتے کیونکہ اب وہ اتنے میچور ہوچکے ہیں کہ سمجھتے ہیں کہ معیشت کی بہتری عالمی تعلقات کو اعتدال پسندی سے چلانے میں ہے۔ صدر روحانی کی دوبارہ جیت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بہت سے غیر ملکی سرمایہ کاروں نے تہران کے لیے اپنی ٹکٹیں بک کرانی شروع کردی ہیں۔ روحانی کے مخالف ابراہیم رئیسی اگر کامیاب ہوجاتے تو پورا خطہ ایک نئی محاذ آرائی کا شکار ہوجاتا جس کا ایران کو بڑا نقصان ہوتا۔

ایرانی عوام نے بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے بالکل درست فیصلہ کیا جس سے ایران مخالف قوتوں کی امیدوں پر پانی پھرگیا۔ آج کی دنیا میں انتہا پسندی سے اعتدال پسندی کی طرف جانا ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔ امریکی صدر امریکی انتخابات میں اور اقتدار میں آنے کے بعد مسلسل ایران مخالف بیانات دیتے رہے تاکہ ایرانی عوام غصے اور جذبات سے مغلوب ہوکر قدامت پسندوں کو ووٹ دے دیں لیکن ٹرمپ اس میں مکمل طور پر ناکام رہے۔

… ایرانی انقلاب اس سال کے آخر اور اگلے سال کے شروع میں اہم مرحلے میں داخل ہوجائے گا۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔