نواز شریف ’’آستانہ‘‘ سے کیا لائے ہیں؟

تنویر قیصر شاہد  پير 12 جون 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

ملک میں وزیر اعظم اور اُن کے خاندان کے بعض افراد کے پاؤں تلے سے زمین کھینچنے ا ور اُنہیں دیوار سے لگانے کے لیے سیاسی مخالفین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں لیکن عالمی سطح پر ملکی مفادات کے تحفظ کی خاطر نواز شریف کی تگ وتاز جاری ہیں۔ مخالفین تو یہ توقعات لگائے بیٹھے تھے کہ نواز شریف سیاسی بحرانوں کے بھنور کا شکار بن کر رہ جائیں گے ۔ ایسا مگر ہو نہیں سکا ہے۔

گذشتہ چند ایام کے دوران وزیر اعظم صاحب پاکستان کے لیے کیا کرسکے ہیں،اِس کا اندازہ اُن کامیابیوں سے لگایا جا سکتاہے جو 8اور 9جون2017ء کو قزاقستان کے دارالحکومت ’’آستانہ‘‘میں سمیٹی گئی ہیں۔ آٹھ اور نو جون کو دو دن کیلیے ’’آستانہ‘‘ میں ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ (SCO)کا سربراہی اجلاس ہُوا ہے۔ بظاہر تو قزاقستان کے صدر اس کے میزبان تھے لیکن اس اہم ترین علاقائی تنظیم کے عقب میں روس اور چین کا طاقتور ہاتھ کار فرما تھا کہ یہ دونوں ممالک ہی دراصل ’’ایس سی او‘‘ یا ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ پر غالب ہیں۔

سولہ سال قبل روس اور چین ہی کی قیادت میں ’’ایس سی او‘‘ کی اساس رکھی گئی تھی۔ قزاقستان، کرغستان،تاجکستان اور ازبکستان بھی اس تنظیم کے بنیادی ارکان تھے۔پاکستان کی یہ خواہش تھی کہ وہ بھی ’’ایس سی او‘‘ کا باقاعدہ رکن بن سکے مگر کوشش کے باوجود کامیابی نہیں مل سکی تھی۔ بارہ سال قبل پاکستان کو اس کی فُل ممبر شپ تو نہ مل سکی لیکن اِس کے امکانات روشن ہو گئے تھے کہ تسلّی کیلیے پاکستان کو ’’ایس سی او‘‘ میں ’’آبزرور‘‘ کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ اُس وقت یہ بھی غنیمت تھا۔ راقم کو بھی اس دوران دوبار، بیجنگ اور بشکیک میں، شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاسوں میں شریک ہونے کے مواقع ملے۔

یوں ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کس شدت سے ’’ایس سی او‘‘ کی رکنیت کے حصول کا طلبگار تھا۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ بھارت کی بھی کوشش تھی کہ اُسے بھی اِس شاندار تنظیم،جو غیر معمولی معاشی اور فوجی طاقت حاصل کرنے والی ہے،کی ممبر شپ مل جائے مگر اسے بھی صبرہی کا گھونٹ بھرنا پڑ رہا تھا۔ بلاآخر تین دن قبل پاسکتان کو ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ یا ’’ایس سی او‘‘ کی مستقل رکنیت مل گئی ہے۔ پاکستان کو رکن بنانے کے لیے چین (جو رواں لمحوں میں دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے) اور روس نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ خوش کُن بات یہ بھی ہے کہ پاکستان کے روس اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات خوشگوار حد تک استوار ہو چکے ہیں۔

9جون 2017ء کو ’’آستانہ‘‘ میں روسی قائد جناب پوٹن کا یہ کہنا کہ ’’پاکستان کو ہر چیلنج سے نمٹنے میں مدد دیں گے‘‘ دراصل اس امر کا غماز ہے کہ سفارتی محاذ پر نوازشریف کی کوششیں ثمرآور ثابت ہُوئی ہیں۔ ماضی میں تو بوجوہ روس اور پاکستان کے درمیان دشمنی اور عناد کی فضا پائی جاتی رہی ہے۔ اس کا بھارت مسلسل فائدہ اُٹھاتا رہا ۔ اب بھی روس اور چین نے (شائد)جنوبی ایشیا میں توازن قائم رکھنے کیلیے پاکستان کے ساتھ بھارت کو بھی ’’ایس سی او‘‘ کی رکنیت سے نواز دیا ہے۔

’’ایس سی او‘‘ کا باقاعدہ رکن بننے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے ’’آستانہ‘‘ میں عالمی رہنماؤں کے سامنے جو خطاب کیا ہے، اس میں دنیا بھر کے ساتھ ساتھ پاکستان کے سبھی ہمسایوں(خصوصاً افغانستان اور بھارت) کو امن، دوستی،تعاون اور آشتی کا پیغام دیا گیا ہے۔ اس بے مثل فورم میں شریک ہونے کا جو فوری فائدہ پاکستان کو پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کا  بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی  اور افغان صدر اشرف غنی سے مکالمہ اور معانقہ ہُوا ہے۔

اگرچہ مودی صاحب سے علیک سلیک مختصر ہی تھی لیکن برف ذرا سی پگھلی تو ہے کہ پاکستان اور بھارت کی باہمی کشیدگی(جو ایل او سی پر خونریز بھی ہوتی جارہی ہے)پر دنیا بھر کے طاقت کے مراکز میں تشویش پائی جاتی ہے۔ اور یہ تشویش بے جا اور بے بنیاد بھی نہیں ہے کہ یہ دونوں ہمسایہ ممالک جوہری قوتوں کے مالک بھی ہیں۔ کوئی ذرا سی چنگاری بہت کچھ فنا کر سکتی ہے۔

’’آستانہ‘‘ میں وزیر اعظم پاکستان کی افغان صدر  اشرف غنی سے ایک گھنٹے سے زائد وقت کے لیے ملاقات ہُوئی ہے۔ افغانستان اور پاکستان کی کشیدگی بھی عروج پر ہے اور بول چال بھی تقریباً بند ۔ افغانستان ’’کسی‘‘ کی شہ پر پاکستان پر تہمتیں بھی لگا رہا ہے اور پاکستان کے خلاف ’’کسی‘‘ کا آلہ کار بھی بن رہا ہے۔ فریقین کے شکوے شکائتیں روز افزوں ہیں۔ اِن دگرگوں اور کھنچے حالات میں پاکستانی وزیر اعظم اور افغان صدر کی ملاقات ہوتی ہے تو اِسے معمولی خیال نہیں کیا جانا چاہیے۔

نواز شریف نے شائستہ اور مستحکم لہجے میں ڈاکٹر اشرف غنی سے کہا ہے کہ پاکستان پر کوئی بھی الزام لگانے سے قبل آپ کو ثبوت فراہم کرنا ہوں گے اور یہ کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغانستان کو محفوظ جنت بنا کر جس طرح پاکستان کو جہنم بنانے کی مذموم حرکتیں کر رہے ہیں، یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے اور یہ کہ افغانستان کو یہ خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ پاکستان کسی بھی شکل میں افغانستان کے خلاف کسی بھی جگہ محاذ نہیں کھولے ہُوئے ہے۔ نواز شریف کے اس پیغام سے پہلے سپہ سالارِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ اپنی تازہ کور کمانڈر کانفرنس میں بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان کو پاکستان پر الزام دھرنے سے قبل اپنے باطن میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے۔

وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں پاکستان کا ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘ کا رکن بننا کوئی معمولی کامیابی نہیں ہے۔ یہ تنظیم کئی اعتبار سے کس قدر اہمیت کی حامل بن چکی ہے،اس کا اندازہ صرف اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ’’ایس سی او‘‘ کے تمام رکن ممالک کی آبادی ساڑھے تین ارب ہے اور ’’ایس سی او‘‘ کا جی ڈی پی دنیا بھر کے جی ڈی پی کے 25فیصد سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔پاکستان کی شمولیت سے ’’ایس سی او‘‘ میں کیا جوہری تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں، اس سوال کا جواب پانے کے لیے ہمیں روس کے ممتاز ترین دانشور اور تجزیہ نگار ڈاکٹر بورس وولخونسکی کے مفصل مقالے کا مطالعہ کرنا پڑے گا۔

ڈاکٹر بورس ماسکو کی اسٹیٹ یونیورسٹی میں استاد بھی رہے ہیں۔ اُنہوں نے روس کے معروف تحقیقی جریدے Russia Beyond The Headlinesمیں یوں لکھا ہے:’’شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان اور بھارت کو مستقل رکنیت سے ملنے اس تنظیم کی کایا ہی پلٹ جائے گی اور اس کی ہیئت میں یکسر تبدیلیاں پیدا ہوں گی۔‘‘ڈاکٹر وولخونسکی مزید کہتے ہیں کہ ایس سی او میں پاکستان کی شمولیت سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے نہ صرف بھارت پر بے پناہ دباؤ آئے گا بلکہ دنیا کو پاکستان کے مغرب میں واقع افغانستان کی آگ کو بھی فوری طورپر ٹھنڈا کرنا پڑے گا اور یہ معرکہ ’’ایس سی او‘‘ کے آٹھوں رکن ممالک اور چاروں آبزرورز ممالک آسانی کے ساتھ انجام دے سکیں گے۔

ڈاکٹر بورس لکھتے ہے:’’ وَن بیلٹ ،وَن روڈ اور ’’سی پیک‘‘ کے فارمولے کے تحت پاکستان اور چین پہلے ہی معاشی طور پر بہت قریب آ چکے ہیں۔ ایس سی او کا رکن بننے کے بعد چین اور پاکستان کا باہمی تعاون مزید بڑھے گا۔‘‘معروف بھارتی دانشور اور کالم نگار جناب اے جی نورانی نے بھی اپنے تازہ ترین تجزئیے میں پاکستان کے ’’ایس سی او‘‘ کے مستقل رکن بننے کے حوالے سے مثبت توقعات کا اظہار کیا ہے۔ اپنے آرٹیکل بعنوانSCO,s New Membersمیں نُورانی صاحب نے لکھا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے مستقل رکن بننے سے دونوں ممالک کے متنازع معاملات کے حل کی طرف ممکنہ پیش قدمی کی بجا طور پر امید لگائی جا سکتی ہے۔

جنیوا میں پاکستان کے سابق مستقل مندوب جناب ضمیر اکرم نے بھی وطنِ عزیز کے ایک انگریزی معاصر کو انٹرویو دیتے ہُوئے کہا ہے کہ بِلا شبہ پاکستان کے ’’شنگھائی تعاون تنظیم‘‘کے مستقل رکن بننے سے ایک زبردست بلاک میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہُوا ہے اور یہ کہ ’’اگر بھارت ،پاکستان کے ساتھ امن کا متمنی ہے تو ’’ایس سی او‘‘ کا پلیٹ فارم حصولِ امن کے لیے بہترین کردار ادا کر سکے گا۔‘‘ آئیے ہم سب دعا کرتے ہیں کہ اللہ پاک اس پلیٹ فارم پر پاکستان کی عزت و احترام میں اضافہ فرمائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔