کچھ ذکر کوئٹہ کی لوکل بسوں کا

ببرک کارمل جمالی  منگل 13 جون 2017
کوئٹہ میں بس پر چڑھنے سے پہلے یہ خیال ضرور ذہن میں آتے ہیں جیسے کیا بس میں چڑھنے سے پہلے ہم جتنے خوشحال ہیں، کیا بس سے اترنے کے بعد بھی ایسے ہی خوشحال رہیں گے؟

کوئٹہ میں بس پر چڑھنے سے پہلے یہ خیال ضرور ذہن میں آتے ہیں جیسے کیا بس میں چڑھنے سے پہلے ہم جتنے خوشحال ہیں، کیا بس سے اترنے کے بعد بھی ایسے ہی خوشحال رہیں گے؟

بلوچ جتنا اپنی ثقافت، اپنی آن اور اپنے لوگوں سے پیار کرتے ہیں اُس سے کہیں زیادہ ہمارے دلوں میں اپنے پاک وطن کی محبت موجود ہے۔ بلوچ پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہیں، لیکن چند مفاد پرستوں کی وجہ سے بلوچوں کو دنیا کے سامنے جس طرح پیش کیا جاتا ہے ویسا کچھ نہیں ہے۔

اب جب بات بلوچستان کی چھڑ ہی گئی ہے تو کیوں نہ ذکر ہوجائے بلوچستان کی دو مشہور سوغات کا۔ جی ہاں میں بات کررہا ہوں مچھ جیل اور کوئٹہ کی لوکل بسوں کا۔ مچھ جیل میں بے مہار قیدی رکھے جاتے ہیں تو لوکل بسوں میں بے مہار لوگ۔ اللہ ہمارے ملک کو اپنی حفظ و امان میں رکھے اور دشمنوں کے تمام ناپاک عزائم ناکام بنائیں، اور ہمارے بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہِ راست پر لائے جنہوں نے کوئٹہ کو خون میں نہلایا دیا ہے۔ کوئٹہ میں سب سے زیادہ دھماکے اِن بسوں میں ہی ہوئے ہیں۔

کوئٹہ کی لوکل بس سفر کیلئے بہت اچھی ہے مگر ہر روز ان لوکل بسوں میں موبائل چوری عام ہے۔ جس طرح کوئی نیا مجرم جرم کرنے سے پہلے دس مرتبہ سوچتا اور پندرہ مرتبہ ہچکچاتا ہے، بالکل اُسی طرح کوئٹہ کا ہر شہری کسی بھی پبلک بس میں سفر کرنے سے پہلے اِسی کیفیت سے گزرتا ہے۔ پبلک بسوں میں سفر کرنے سے پہلے شہریوں کو بہت سے سوالات پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑتا ہے۔ اتنا غور اگر سی ایس ایس کے امتحانی سوالات پر کیا جائے تو وہ بھی حل ہوجائیں گے۔

مثال کے طور پر بس پر چڑھنے سے پہلے یہ خیال ضرور ذہن میں آتے ہیں کہ

  • کیا بس میں چڑھنے سے پہلے ہم جتنے خوشحال ہیں، کیا بس سے اترنے کے بعد بھی ایسے ہی خوشحال رہیں گے؟
  • جس شریفانہ حلیے اور بشرے کے ساتھ بس میں سوار ہورہے ہیں کیا اترتے وقت بھی شائستگی کی کوئی جھلک پائی جائے گی؟
  • کیا اِس لوکل سفر کے بعد کوئی اور سفر بھی نصیب ہوگا؟
  • سیلنڈر دھماکے میں ناقابل شناخت ہونے پر جسم کے کس حصے سے ڈی این اے ٹیسٹ لیا جائے گا؟

اِس کے علاوہ کوئٹہ کی لوکل بس کی ایک ایسی خاصیت جو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور وہ ہے اِس میں بجنے والی شاندار موسیقی۔ بس میں موسیقی کے ذریعے جو تشدد کیا جاتا ہے، اُس سے صرف قوتِ سماعت ہی متاثر نہیں ہوتی بلکہ ایمان بھی لرز جاتا ہے۔

کوئٹہ شہر میں 600 سے زائد لوکل بسیں چلتی ہے جن میں 70 فیصد لوکل بسوں کے ڈرائیور براہوی بولتے ہیں اور 30 فیصد پشتو بولتے اور سمجھتے بھی ہیں۔ لوکل بسوں پر روزانہ چوریاں عام ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ چور بھی ان بس والوں نے پال رکھے ہوتے ہیں۔

کوئٹہ کی اہم شاہراہوں پر لوکل بسیں چلتی نہیں بلکہ دوڑتی ہیں جس کی وجہ کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں اور کئی لوگ بس کی چھتوں سے گرچکے ہیں۔ اکثر بسوں کی کھڑکیاں تک نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے سردیوں میں ٹھرٹھراتی ہوئی ہوا سے لوگ بہت تنگ ہوتے ہیں اور کھڑکی والی بسوں کو ڈھونڈا جاتا ہے، لیکن وہ ڈھونڈنے سے بھی بہت ہی مشکل سے ملتی ہیں۔

حکومت نے انہی پرانی اور ناکارہ بسوں کی مرمت کے لیے مالکان کو پابند کیا تھا لیکن ایسا کچھ نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے محکمہ آر ٹی اے نے ان کی 130 بسوں کی روٹ پرمٹ منسوخ کرکے اُن کے روٹ بند کردئیے تھے، مگر وزیروں کی سفارشات لے کر وہ اِن بسوں کو دوبارہ روٹ پر لے آئے۔

لوکل بس والے من بھایا کرایہ وصول کرتے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ اور لوکل بس ایسوسی ایشن کے ٹرانسپورٹروں کے درمیان ڈپٹی کمشنر آفس میں ایک فیصلہ کیا گیا تھا کہ طالب علموں کیلئے 10 روپیہ کرایہ اور عام آدمی کیلئے 20 روپیہ کرایہ رکھا جائے گا، لیکن اِس فیصلے پر تاحال عمل درآمد نہیں کروایا جاسکا۔

کوئٹہ شہر سے تمام بس اڈوں کو ہزار گنجی کوئٹہ شہر سے باہر منتقل کیا گیا ہے۔ حکومت بلوچستان نے محکمہ کیو ڈی اے کو ہدایات جاری کردی تھی کہ ہزار گنجی میں ٹرانسپورٹروں اور عوام کو سہولیات فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جائیں۔ جن پر آج تک عمل نہیں کیا گیا، اور سچ پوچھیے تو یہ متعلقہ محکمہ کیلئے لمحہ فکریہ ہی ہے۔

یہ باتیں بیان کرنے کا مقصد محض تنقید کرنا نہیں ہے، بلکہ اپنی اِس خواہش کا اظہار کرنا ہے کہ جلد از جلد اِس نظام میں بہتری لائی جاسکے اور عام عوام کو روزانہ کی بنیاد پر جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اُس سے کچھ نجات حاصل کروائی جاسکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔
ببرک کارمل جمالی

ببرک کارمل جمالی

بلاگر بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کرچکے ہیں جبکہ بلوچستان کے مسائل پر دس سال سے باقاعدہ لکھ رہے ہیں۔ پاکستان کے مختلف اخبارات میں آپ کے کالم اور بلاگ شائع ہوتے رہتے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔