برّصغیر کا بٹوارا آپس میں جُڑنے کے لیے ہوا تھا

غلام محی الدین  بدھ 30 جنوری 2013
پاکستان اب وہ نہیں رہا ہم نے نصب العین کھو دیا، عارفہ شمسہ۔  فوٹو : فائل

پاکستان اب وہ نہیں رہا ہم نے نصب العین کھو دیا، عارفہ شمسہ۔ فوٹو : فائل

اسلام آ باد:  آواز اس لیے ہے کہ اسے حرف سے نوازا جائے اور حرف اس لیے ہے کہ اس کو آواز عطا کی جائے، دونوں کے تال میل سے اظہار نمو پاتا ہے ورنہ انسان کے پاس اپنے شرَف کا دعویٰ برحق ثابت کرنے کے لیے ٹامک ٹوئیاں مارنے کے سوا کیا رہ جاتا ہے۔

بڑے ہیں وہ لوگ جن پر حرف اپنے رموز منکشف کرتا ہے، اِنہیں سُجھاتا ہے کہ اسے کیسے، کیوں اور کہاں ادا کرنا ہے، محترمہ عارفہ شمسہ کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے، ان کی عمر اسی دشت کی سیاحی میں گزری ہے۔

سخن آغاز ہوا تو یادوں کے الجھے ہوئے لچھے میں سے بات کا سرا پکڑنے کی کوشش کرتے ہوئے، کچھ خود کلامی کے سے انداز میں گویا ہوئیں ’’سمجھ میں نہیں آتا بات کہاں سے شروع کروں ، گزری عمر کو جو پلٹ کر دیکھتی ہوں تو صدیوں پر محیط ہونے کا احساس شدت سے ہونے لگتا ہے۔ عمر کے طویل عرصے میں پھول اور کانٹوں کے ساتھ نظر نہ آنے والے باریک کنکروں نے بھی پیروں میں زخم ڈال دیے ہیں ۔ مجھے اپنی عمر آج ان گنت برسوں پر پھیلی محسوس ہورہی ہے اور اس کا ہر لمحہ صدیوں پر محیط لگتا ہے ۔ جانے کتنے اوراق ہیں، خاندانی واقعات ہیں، جو میر ے سا تھ ہر وقت رونما ہوتے رہتے ہیں، اب تو میں خود کو ان واقعات کا بس ایک کردار محسوس کر تی ہوں۔

ابا اور اماں سے سنی ہوئی بے شمارباتیں، اسکول کا زمانہ، کم عمر ی میں ہی خواجہ حسن نظامی اور سردار دیوان سنگھ مفتون جیسی شخصیات سے ملنا؛ چوںکہ اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ اتنے عظیم لوگ ہیں، اس لیے یہ ملاقاتیں صرف یادداشتوں تک ہی محدود رہ گئیں۔ اسی طرح چوہدری خلیق الزمان اور معروف سائنس دان سلیم الزمان صدیقی، نواب صدیق علی خان اور ان کی بیگم سے تحریکِ پاکستان کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوششوں کو میں ابھی تک نہیں بھولی‘‘۔

اپنی تربیت کے بارے میں کہتی ہیں ’’ذوالفقار علی(زیڈ اے) بخاری صاحب کی وجہ سے بچپن میںچھوٹی آپا (نجم آراء) کے ساتھ ریڈیو پاکستان جانا شروع ہوا، جہاں بچوں کے پروگرام میں ماجد بھائی کی گود میں بیٹھ کر اپنا تعارف کرانے سے لے کر اسٹودیو نمبر ۹ تک کا سفر اور ہفتہ میں چار سے چھ بجے تک براہِ راست پروگراموں کی کمپیئرنگ کرنا، میری یادوں کا قیمتی اثاثہ ہے۔

الف، ب سیکھنے کے عمل سے لے کرسیکڑوں نام ور اور قد آور شخصیات کے ریڈیو اور اخبارات کے لیے انٹرویوزکرنا، مختلف معروف اخبارات میں مضامین کے ذریعہ سماجی مسئلوں کی نشان دہی کرنا، ریڈیوپاکستان سے اب تک وابستہ رہنے کی لمبی داستان، کالج کا دور، کراچی یو نی ورسٹی میں سوشل ور کس ڈپارٹمنٹ سے بی اے آنرز کی پہلی کلاس میں چار سال گزارنا، بی اے آنرز ا ورایم اے میں پہلی پوزیشن، ایم اے سوشل ورک میں پہلا گولڈ میڈل حاصل کرنا، کراچی یونی ورسٹی اسٹوڈینٹس یونین کے انتخابات میں جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہونا، ملازمت کے نشیب وفراز، خصوصاً فیملی پلاننگ ڈیپارٹمنٹ میں مختلف اعلٰی پوزیشنوں پر ذمہ داریاں نباہنا، نیشنل ری کنسٹرکشن بیورو (این آر بی) سے ریٹائر ہونا، میرے سفر کی وہ چند منازل ہیں جہاں ٹھہر کر میں نے بہت کچھ سیکھا‘‘۔

ماضی کی راکھ کریدتے ہوئے کہنے لگیں ’’اپوا (آل پاکستاں ویمن ایسوسی ایشن) سے گہرا تعلق رہا، بیگم رعنا لیاقت علی کی محبتیں اورقر بتیں، ان کی مالاقاتی معزز شخصیات سے سیاسی اور سماجی سخن آرائیاں ابھی تک یاد ہیں، شہید ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیرشہید بھٹو سمیت لاتعداد ہستیوں سے ملاقاتیں میں کبھی بھول نہیں سکتی۔ کئی سربراہان مملکت سے بالمشافہ ملاقاتیں اور انٹرویوز، پھر تقریباً آدھی دنیا کا سفر جس میں امریکا، کینیڈا ، روس اور یورپ شامل ہیں۔

ان ممالک کے لوگوں سے رابطے، اپنے اکلوتے بھائی عر فان الحق شبلی کا پاکستان کے قیام کے دوران شہید ہوجانا بھی میری تلخ اور شیریں یادوں کاحصہ ہیں۔ اپنی بڑی بہن بشریٰ قمرالاسلام ، ان کے بچوں صدر الاسلام، پروین، نذرالاسلام، انوارالاسلام اور سیف الاسلام اور پھر ان کے بچوں سے بے انتہا محبتیں ، چھوٹی آپا (نجم آراء) کا بے لوث پیار ا ور خاندان کے لیے بے پناہ قربانیاں۔ اپنے اکلوتے بھتیجے رضوان الحق کو میں بھتیجا کہوں، بھائی کہوں، بیٹا یا باپ پکاروں، وہ میرا سب سے زیادہ عزیز دوست اور غم گسار تھا۔ اپنے گھر کی کہانی کا احوال، بے شمار خاندانی جھمیلے، بہت ہی پیا رے اور دل و جان سے عزیز دوستوں کی محبتوں کے ان مٹ نقوش اب بھی میری یادوں میں سر اٹھائے رکھتے ہیں‘‘۔

زندگی میں اپنی مادّی اور روحانی کام یابیوں کے سوال پر کہا ’’ میں نے مٹی گارے سے مکان نہیں بنایا بل کہ اپنے شوہر امداد علی مرحوم کی بے پایاں چاہت اور ان کے خاندان کے مخلصانہ ساتھ سے ایک گھر بنایا تھا۔ تینوں بیٹیوں عنبرین،آفرین اور سروش ان کے شوہر فیصل انصاری، مبارک زیب خان، بلال اختر اور ان کے بچوں حمزائُ لانصاری، سلینہ فیصل، ہانیہ مبارک، حامز زیب خان اور ماریہ بلال سے والِہانہ لگاؤ اور پوری دنیا میں محبت کرنے والے دوستوںکا خزانہ ہی میری اصل جائداد اور سرمایا ہے۔ سمجھ لیں بکھری بکھری باتوں کاایک ڈھیر ہے۔ سوچتی ہوں کہ ان کو سمیٹ کر ایک زنجیر بنا لوں اور ماضی کو حال سے ملا دوں۔ اب میں صرف یادوں میں بھٹکنا نہیں چاہتی بل کہ انہیں رقم کر نے کی کوشش کررہی ہوں، معلوم نہیں، یہ زندگی میں ممکن ہوگا بھی یا نہیں‘‘۔

خاندانی پس منظر سے برسوں کی گرد جھاڑتے ہوئے کہنے لگیں ’’ 1857 کی جنگِ آزادی میں دہلی کی جامع مسجد کو جب ا نگریزوں نے گھوڑوں کا اصطبل بنادیا تھا تو میرے والدصاحب بھیا احسان الحق کے نانا اور ماموں بھیا بشیر الدین اور بھیا وحید الدین نے، جو میرٹھ میں بڑے سرکار اور چھوٹے سرکار کہلاتے تھے، اس وقت لاکھوں روپے دے کر مسجد کو نیلامی سے واگزار کرایا تھا۔ اس وقت کے اخبارات نے لکھا تھا کہ بھیا خاندان کے اس تاریخی کار نامے نے برِّصغیر کے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا ہے۔ عجیب ہے کہ اپنی ہی چیز کو واپس لے لینا احسان عظیم ہو گیا تھا۔

میرے والد ہی نے سب سے پہلے اپنے رسالے اسوۂِ حسنہ میں علامہ راشد الخیری کو مصورِّغم لکھا تھا، تب سے علامہ راشد الخیری کو اسی خطاب سے پکارا جاتا ہے، اس امر کا تذکرہ خود ان کے صاحب زادے علامہ رازق الخیری صاحب نے رسالہ ’’عصمت‘‘ کے سال نامے میں بھی کیا تھا۔ ابا کی زندگی میں رازق الخیری نے ہمارے گھر آ کر اپنا مضمون سنایا تھا۔

ابّا دہلی کے آنریری مجسٹر یٹ اور پھر میونسپل کمیشنر بنے تو ان کے دور کے کارنامے نمایاں طور پر مشہور ہوئے، خاص طور پر دہلی کے انگریز ڈپٹی کمیشنر مسٹر لیئرڈ (Mr. Liard) نے ابا کی بے حد تعریف کی‘‘۔

عارفہ محترمہ پاکستان کو اپنی پہچان قرار دیتی ہیں، ایک دبی دبی افسردگی کے ساتھ کہا ’’وہ پاکستان جس کو قائداعظم اور خان لیاقت علی خان نے بنایا تھا اور اس کے لیے لیاقت علی خان نے جان کا نذرانہ دیا، وہ پاکستان میری شناخت ہے۔ ان دنوں مسلم لیگ حصوں میں بٹی ہوئی نہیں تھی، جو پاکستان کی سلامتی کی ضامن تھی، جہاں سندھی، بلوچی، پنجابی اور پختون ایک آنگن کا حصہ بن چکے تھے۔ سب کی پہچان اور شناخت صرف اور صرف پاکستانی ہوا کرتی تھی،کاش آج پھر ایسا ہو جائے، یہ میرا ارمان ہے‘‘۔

اپنی یادداشتیں قلم بند کرنے کے حوالے سے بتایا ’’عرصہ سے محبت کرنے والے مطالبہ کررہے تھے کہ میں اپنی یادوں کو لکھوں۔ شمع زیدی، جن کو میں ’’صحافن‘‘ بر وزنِ دھوبن کہتی ہوں، جو مجھ سے عمر میں چھوٹی ہونے کے باوجود مجھ پر حکم بھی چلاتی ہیں، پیچھے پڑی ہوئی ہیں کہ آپ بس ایک مرتبہ لکھناشروع کردیں۔ اب جب کہ محترم احمد سلیم صاحب نے بھی ہمت افزائی کی ہے تو آخر کار قلم اُٹھا ہی لیا۔ لکھا ہوا بہت ہی بے ترتیب اور بے ربط لگ رہا ہے لیکن اگر اپنا لکھا ہوا دوبارہ پڑھوں تو شاید عادتاً جو غلط سلط لکھاہے، اس کو پھاڑ دوں اور یوں سب غارت ہو جائے گا۔ اس لیے سوچ لیا کہ اپنی ز ندگی کی بے تر تیبی کو اسی بے تر تیبی کے ساتھ بغیر پڑھے کاغذ پر بکھیر تی رہوںگی۔ وقت ہے کہ تیزی سے گزرتا جا رہا ہے اور یہ برسوں کی کہانی نہ جانے کس طرح رقم کر پاؤں گی۔ اپنی زندگی میں کر بھی پائوں گی یا نہیں۔ پھر یہ بھی سوچتی ہوں کہ نہ جانے پڑھنے والوں کے لیے میری تحریر قابل قبول ہوگی بھی یا نہیں؟ اب زندگی میں صرف ایک تمنا ہے کہ ہاتھ پیر سلامت رہیں اور پروردگار سے اسی حالت میں جا ملوں، میں کسی کی محتاج نہیں ہونا چاہتی، کسی کو آزمائش میں ڈالنا نہیں چاہتی، دنیاکو قریب سے دیکھ لیا، اب مزید کسی شے کی طلب نہیں، میرے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ میرے چاہنے والوں کی دعائیں میرے ساتھ رہیں، اللّٰہ سے یہ ہی التجا ہے‘‘۔

’’ریڈیو میرا شوق تھا مگر میں نے ریڈیو پر مستقل ملازمت نہیں کی‘‘۔ زیڈ اے بخاری جو ان کے اساتذہ میں شامل تھے ان کے بارے میں کہتی ہیں ’’وہ بہت اصول پسند، نفیس مگر سخت گیر استاد تھے، مجھے ان سے بہت ڈر لگتا تھا، والد صاحب کے دوست ہونے کے ناتے کبھی کبھار رعایت بھی مل جاتی تھی لیکن ان کی بصیرت اور نظر اتنی گہری تھی کہ کسی بھی شعبے کی معمولی سے معمولی غلطی بھی ان سے چھپی نہیں رہتی تھی، وہ موسیقی اور ریڈیو ڈرامے کے بہت بڑے نقاد تھے، جب میں اسکول کے زمانے میں ریڈیو پروگرام میں حصہ لینے جاتی تو ہمارے لب و لہجے کی درستی محشر بدایونی اور ارم لکھنوی جیسی محترم شخصیات کیاکرتی تھیں۔ یہ بڑے لوگوں کا فیض ہے کہ ہم آج تک ریڈیو پر کام کر رہے ہیں‘‘۔

ریڈیو پاکستان اور اپنے عہدِ شباب کو یاد کرتے ہوئے کہنے لگیں ’’ریڈیو کو اگر ایک مکمل مکتب فکر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا، اس دور میں ریڈیو ڈرامے سے لوگ درست لب و لہجے کے ساتھ اردو بولنا اور زیر زبر کی غلطی سے مبرا اردو لکھنا سیکھتے تھے۔ ہمارے دور میں ایک جملے کی غلطی کیریئر کو تباہ کر دیتی تھی مگر آج جب ریڈیو، ایف ایم فریکوئنسی کی خیرہ کن طراری میں سے گزر رہا ہے تو ایک الم ناک احساس سا ابھرتا ہے کہ اللٰہ ہم کو یہ دور بھی دیکھنا تھا۔ ہمارے زمانے کی ریڈیو نشریات جامع اور دیرپا اثرات کی حامل ہوتی تھیں مگر آج یہ سب کچھ بے معنی اور سطحی سا ہو کر رہ گیا ہے، اِدھر سنو، اُدھربھول جائو، دکھ ہوتا ہے، کسی نے سچ ہی کہا تھا کہ ’’جتنی جلدی سنو گے، اتنی جلدی بھولو گے‘‘ آج کا ریڈیو کمپیئر اپنا کام، اپنا ہوم ورک مکمل کرکے نہیں آتا، وہ خود کچھ کہنے کی صلاحیت سے عاری ہے، اس لیے دوسروں کے ’’آن لائن‘‘ سہارے ڈھونڈتا ہے، جو دوسرے کہ دیں وہی درست سمجھا جاتاہے، اسی لیے تو پروگرام چوں چوں کا مربہ بن جاتے ہیں۔ کمپیئر کو خود علم نہیں ہوتا کہ بات کو کیسے سمیٹنا ہے جب کہ ماضی میں ریڈیو میزبان یعنی کمپیئر کی موضوع پر مکمل گرفت ہوتی تھی، اُس سے فاش غلطیاں سرزد نہیں ہوتی تھیں مگر آج بڑی بڑی غلطیاں بھی بے خبری اور لاعلمی کے صحرا میں گم ہو جاتی ہیں، کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی۔ ہمارے دور میں ریڈیو نے لوگوں کے رہن سہن، ان کی بود و باش، نشست و برخاست تک کو تبدیل کرکے رکھ دیا تھا، کیا آج ایسا ہو رہا ہے؟ ریڈیو چینلز، ٹی وی چینلز، سوشل میڈیا، آئی ٹی کی جدید ترین سہولتیں قوم کو ایک لب و لہجہ دینے میں ناکام نظر آ رہی ہیں، ہر طرف ہڑبونگ نظر آ رہی ہے اور بدقسمتی سے یہ ہی ہمارا عہد قرار پاتا ہے‘‘۔

ریڈیو پر اپنے یادگار انٹرویوز ریکارڈ کرانے کے حوالے سے انہوں نے کہا ’’سائنس دان سلیم الزماں صدیقی کی باتوں نے میری شخصیت کو بدل کر رکھ دیا تھا، اِسی طرح بیگم رعنا لیاقت علی خان کے انٹرویوز سے میں نے یہ اخذ کیا کہ وہ ویسی ہرگز نہیں تھیں جیسا لوگوں نے ان کو ’’ پینٹ‘‘ کر دیا گیا تھا، وہ عملی طور پر ایک متحرک خاتون تھیں، قرآن مجید کے انگریزی ترجمے اور تفسیر پر ان کو عبور حاصل تھا، بہت ہی سلجھی ہوئی اور باوقار شخصیت کی مالک تھیں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ میں نے اس وقت عبدالستار ایدھی صاحب کا پہلا انٹرویو کیا تھا جب وہ ابھی معروف نہیں ہوئے تھے، ان کو دیکھ کر ان کی باتیں سن کر یقین ہو رہا تھا کہ یہ جو کچھ کہ رہے ہیں، درست کہ رہے ہیں، اُن کے باطن کا اعتماد ہی دوسروں کو اکساتا ہے کہ اُن پر اعتماد کیا جائے‘‘۔

عارفہ شمسہ اردو زبان بولنے والے گھرانے کی فرد ہیں مگر انہوں نے برملا اقرار کیا کہ اردو پاکستان کی قومی زبان ہی نہیں بل کہ رابطے کی زبان ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان بنا تھا تو اردو بولنے والا طبقہ تو بہت محدود تھا، یہاں کی علاقائی زبانیں بہت بلیغ تھیں، اِن حالات میں اردو کو ان پر ٹھونسنے کی غلطی نے بہ حیثیت قوم ہم میں غلط فہمیاں پیدا کر دیں جس کا خمیازہ ہم بھگت رہے ہیں‘‘۔

موسیقی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ’’صرف سننے کی حد تک شوق ہے البتہ شاعری مجھے پسند ہے، میر، غالب، اقبال پھر فیض اور فراز کو میں نے بڑے اشتیاق سے پڑھا ہے مگر اب خوف آنے لگا ہے کہ ایسے بڑے شاعر پاکستان میں دوبارہ پیدا ہوں گے یا آنے والا عہد خالی ہی رہے گا‘‘۔

نئے عہد اور نئی نسل کے حوالے سے انہوں نے دکھی لہجے میں کہا ’’اس عہد میں بے اعتمادی ہر طرف بڑھ گئی ہے۔ نئی نسل نے محنت کرنا چھوڑ دی ہے، میری دعا ہے کہ پاکستان میں وہ وقت جلد از جلد آئے جب ہر طرف اعتماد، بھائی چارے اور رواداری کے شگوفے پھوٹیں۔ کراچی کے حالات دیکھ کر دل گھبرانے لگتا ہے، یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی شہر ہے جہاں میں نے انسانیت کے احترام کا درس حاصل کیا تھا، اب نوجوانوں کو سمجھانے کے لیے ہمارے پاس کوئی راہ نما نہیں ہے، سیدھی راہ گم ہو گئی ہے، بہت خطرناک صورت حال ہے جس کا احساس دھیرے دھیرے سب کو ہو رہا ہے۔ کبھی کبھی سوچتی ہوں کہ میرے والد صاحب نے کیا اِس عہد کے لیے کانگریس چھوڑ کر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی تھی؟ کیا میرا بھائی اس لیے شہید ہواتھا کہ اِس ملک میں لوٹ مار کا بازار گرم ہو گا۔

پاکستان اب وہ نہیں رہا، ہم نے نصب العین کھو دیا، برصغیر کا بٹوارہ آپس میں جڑنے کے لیے ہوا تھا، مگر ہم نے آج تک ایک دوسرے کو دل سے قبول نہیں کیا، منہ پر ہم کچھ کہتے ہیں، دلوں میں بغض، کینہ اور عناد رکھتے ہیں جو نسل در نسل چل رہا ہے، تقریریں سب کرتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم مہاجر، پنجابی، پختون، کشمیری اور بلوچی ہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں کے قول وفعل میں تضاد ہے، وہ ہمیں لڑنے، کٹ مرنے کا درس دیتے ہیں اور ہم ہیں کہ مداری کے جانور بنے اشارے پر ناچتے ہیں۔ مداری اپنے جانوروں کو بھوکا رکھتا ہے، تشدد کرتا ہے، پھر جانور کو ناچ کی تربیت دیتا ہے،آج یہی ہو رہا ہے، بھوک، بے بسی، افلاس، غربت اور بے یقینی کی اِس فضا میں جانور تو اپنی جبلت بھول کر سر نِگوں ہو ہی جاتے ہیں، ہم بھی کہیں جانور ہی تو نہیں بن چکے؟ میں نے پاکستان کو بنتے بھی دیکھا اور ٹوٹتے بھی لیکن میں پھر بھی بڑے یقین سے کہوں گی کہ یہ ملک ہمیشہ قائم رہے گا۔ اِس کے دشمن باہر نہیں ہمارے اندر ہی چھپے ہوئے ہیں،خدارا اِن کو پہچان لو اِن کوجان لو، سب مسئلے ختم ہو جائیں گے‘‘ ۔

عارفہ شمسہ کے حالاتِ زندگی پر ایک نظر

عارفہ شمسہ نے 1943 میں دہلی کے ایک معزز گھرانے میں جنم لیا۔ پانچ سال کی تھیں تو اپنے خاندان کے ساتھ دہلی سے ہجرت کرکے کراچی آ گئیں۔  نیو ٹائون کراچی میں ایک سیکنڈری گرلز اسکول سے ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا، اِسی اسکول میں ان کی کلاس فیلو خواجہ حسن نظامی کی پوتی قرأۃ العین طاہرہ بھی زیر تعلیم تھیں۔ میٹرک کاسمو پولیٹن گرلز سیکنڈری اسکول بندر روڈ (ایم اے جناح روڈ) سے کیا، اِسی شاہ راہ پر ریڈیو پاکستان کی عمارت بھی واقع تھی۔

اسکول سے انہیں تعلیم ملی تو تین عمارتیں چھوڑ کر ریڈیو کی عمارت میں ان کی تربیت شروع ہوئی۔ اپنے دور کے لیجنڈ براڈکاسٹر زیڈ اے بخاری کے زیرِ سایہ تربیت نے انہیں بہت چھوٹی عمر میں ہی درست تلفظ کے ساتھ شستہ لب و لہجہ عطا کیا اور پھر اُس کے بعد صداکاری، کمپیئرنگ اور نیوزکاسٹنگ کے شعبوں میں عارفہ شمسہ کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا۔ بچوں کے ریڈیو پروگرام سے اپنے صوتی کیریئر کا آغاز کیا اور پھر ہر شعبے میں اپنی ادائی کی دھاک بٹھادی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔