غزوۂ بدر، معرکۂ حق و باطل

عبد القادر شیخ  منگل 13 جون 2017
روایت میں آیا ہے کہ حضرت معاذؓ اپنے ایک ہاتھ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے رہے۔ فوٹو : فائل

روایت میں آیا ہے کہ حضرت معاذؓ اپنے ایک ہاتھ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے رہے۔ فوٹو : فائل

مسلمانوں اور کفار کے درمیان جو پہلی جنگ ہوئی اس کا نام غزوۂ بدر ہے۔

کفار نے یہ جنگ مسلمانوں پر زبردستی مسلط کی تھی اور وہ اس لیے کہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ صرف ایک معبودِ حقیقی کی عبادت کی جائے۔ وہ تو بس یہ چاہتے تھے کہ مکہ میں بت پرستی زوال پذیر نہ ہو اور پوری عرب قوم بُت پرست ہی رہے۔ کیوں کہ یہی ان کے آبا و اجداد کا مذہب تھا۔

دعوتِ توحید دینے کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہوگئے۔ یہ صورت حال دیکھ کر آنحضورؐ نے اللہ کے حکم سے امتِ مسلمہ کو ہجرت کرنے کا حکم فرمایا۔ چناں چہ مکہ سے تمام مسلمان ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے۔ مدینے پہنچے کے بعد بھی کفار نے مسلمانوں کو چین سے نہ رہنے دیا اور ابھی انہیں نئی سرزمین پر منتقل ہوئے دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ کفار مکہ نے مسلمانوں کی مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کردیا۔

حضرت انسؓ کا بیان ہے کہ آنحضرتؐ نے لوگوں کو جنگ کے لیے تیار کیا۔ تاریخی روایات کے مطابق مسلمانوں کا مختصر سا قافلہ جس کی کل تعداد313 تھی، ان میں انصار اور مہاجر سب شامل تھے اور قبائل میں اوس اور خزرج بھی شامل تھے۔

اس قافلے کے ساتھ60  اونٹ، 3 گھوڑے، 60 زرہیں اور چند تلواریں تھیں۔ جب کہ دشمن کی تعداد ایک ہزار نفوس پر مشتمل تھی اور وہ ہر طرح سے لیس تھے۔ ان کے پاس 700 زرہیں، 70 گھوڑے، لاتعداد اونٹ، بے شمار تلواریں اور نیزے تھے۔ ان دونوں افواج کا آمنا سامنا 17رمضان المبارک 2 ہجری بدر کے مقام پر ہوا۔ مسلمانوں کا یہ قلیل لشکر اس جنگ میں جس جوش و خروش کے ساتھ لڑا وہ قابل تحسین تھا۔ انہوں نے اپنے سے تین گنا بڑے لشکر کو ایک ہی دن میں شکست فاش سے دوچار کیا۔

اس جنگ میں جہاں بڑے اپنا جوش اور ولولہ دکھا رہے تھے، وہیں جوان اور بچے بھی ان سے کسی طرح پیچھے نہ تھے۔ بچوں نے محاذ جنگ پر بڑوں ہی کی طرح کارنامے سرانجام دیے۔ یہ نوجوان اپنے بڑوں کے شانہ بہ شانہ وسط میدان پہنچے اور ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جو شاید بڑوں کے لیے بھی ناممکن ہوتا۔ کیوں کہ ابوجہل تلواروں کے سائے میں تیروں اور نیزوں کی باڑھ میں تھا، اس کے ساتھی کہتے جاتے تھے کہ دیکھو ابوالحکم (ابوجہل کا لقب) کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اتنے پہرے کے باوجود دو نوجوان اس تک پہنچنے اور اسے جہنم واصل کرنے میں کام یاب ہوگئے۔

اس جنگ میں شریک ایک برگزیدہ صحابی عبدالرحمن بن عوفؓ بیان کرتے ہیں کہ میں جنگ کے روز صف کے اندر تھا کہ دیکھا دائیں اور بائیں دو نوجوان کھڑے ہیں، ان کی موجودگی سے میں بہت حیران ہوا، اتنے میں ایک نوجوان نے دوسرے سے چُھپتے ہوئے مجھ سے آہستہ سے پوچھا چچا جان ابوجہل کہاں ہے؟ میں نے کہا کہ تمہیں ابوجہل سے کیا لینا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ابوجہل حضورؐ کو گالیاں دیتا ہے، اس ذات کی قسم اگر میں نے اسے دیکھ لیا تو اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا، خواہ اس میں میری جان ہی چلی جائے۔

مجھے اس نوجوان کی بات پر تعجب ہوا۔ ابھی چند لمحے ہی گزرے ہوں گے کہ دوسرے نوجوان نے بھی اسی انداز سے پوچھا۔ میری نظریں میدان کار زار ہی پر مرکوز تھیں کہ اچانک مجھے ابوجہل نظر آیا تو میں نے ان نوجوانوں سے مخاطب ہوکر کہا وہ رہا دشمن اسلام اور تمہارا شکار۔ یہ دیکھتے ہی ان دونوں نے شیر کی طرح اس پر حملہ کر دیا، پھر اسے خون میں لت پت چھوڑا اور آنحضرتؐ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر میدان جنگ کا واقعہ بیان کیا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا، تم دونوں میں سے کس نے ابوجہل کو قتل کیا؟ دونوں بہ یک وقت بولے میں نے۔ آپؐ نے پھر فرمایا اچھا ذرا اپنی تلوار دکھاؤ۔ دونوں نے تلواریں دکھائیں جن پر خون لگا ہوا تھا۔ پھر آپؐ فرمایا واقعی تم دونوں نے ہی اسے جہنم رسید کیا ہے۔

( تاریخ اسلام اور کتب احادیث میں دونوں بچوں کا نام معاذ بن عمرو بن جموع اور معاذ بن عفرا ہے۔ تاریخ ابن ہشام میں دوسرا نام معوذ بن عفرا لکھا ہے۔ )
(صحیح بخاری، مشکوۃ)

ابن اسحاق بیان کرتے ہیں کہ معاذ بن عمرو کہتے ہیں کہ ابوجہل کو میں نے نشانے پر لیا، اس کی پنڈلی کا نشانہ لے کردو ٹکڑے کیے، ایک حصہ دور جاگرا، ادھر میں نے ابوجہل کی ٹانگ کاٹی، ادھر اس کے بیٹے عکرمہ نے میرا بازو کاٹا جو چمڑی سے لٹک کر رہ گیا تھا، لیکن میں اسی طرح محاذ جنگ پر ڈٹا رہا۔ آخر جب تکلیف بڑھی تو میں نے اس بازو کو زمین پر رکھا اور ایک ٹانگ سے دبا کر دوسرے ہاتھ سے زور دار جھٹکا لیا، جس کی وجہ سے وہ بازو میرے جسم سے الگ ہوگیا اور تکلیف میں کمی ہوگئی۔ اس کے بعد معوذ اس کے پاس پہنچے اور کاری ضربیں لگا کر اسے نیم مردہ کردیا، بس صرف سانس چل رہی تھی اس کے بعد معوذ بھی بے جگری کے ساتھ لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ اور ابوجہل کا سر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے کاٹ کر آنحضورؐ کی خدمت میں پیش کیا جسے دیکھ کر آپؐ نے فرمایا یہ آج کے فرعون کا سر ہے۔

روایت میں آیا ہے کہ حضرت معاذؓ اپنے ایک ہاتھ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوتے رہے۔ وہ حضرت عثمانؓ کے دور خلافت تک زندہ رہے جب کہ معوذؓ میدان بدر ہی میں شہادت کے منصب پر فائز ہوگئے تھے۔ اس لیے ابوجہل کا جنگ کے میدان میں چھوڑا ہوا مال حضرت معاذ بن عمروؓ کو پورا ملا مگر تلوار حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ کو ملی، جنہوں نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ (سنن ابی داؤد)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔