ہاں! کرپشن کا خاتمہ ہوسکتا ہے! (آخری قسط)

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 14 جون 2017
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے فوج اور عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے یا پارٹی کا کردار قابلِ رشک نہیں رہا۔ موجودہ سیاسی قیادت کے نزدیک ایمانداری اہمیّت نہ ہونے کے برابر ہے، اربابِ سیم و زر کو ہی پارٹی قائدین کا قرب حاصل ہے۔ صرف ارب پتی ہی اُن کے منظورِ نظر ہیں اور وہ کم وسیلہ حضرات جن کا سرمایہ صرف اُجلا کردار ہے، انھیں نہ قیادت تک رسائی ہے اور نہ ان کی پارٹی میں کوئی اہمیّت وہ ہر پارٹی کی پچھلی نشستوں پر بیٹھے کُڑھتے رہتے ہیں۔

کرپشن کے سرطان کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو بڑے سخت ، غیر مقبول اور بے رحمانہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ اس سلسلے میں چند تجاویز پیش کررہا ہوں۔

٭ اس وقت بدعنوانی کے خلاف کارروائی کرنے کا ذمے دار سب سے بڑا ادارہ NAB(نیب) ہے۔ نیب کے سربراہ کی تقررّی کا طریقۂ کار تبدیل ہونا چاہیے۔ نہ جانے اس اہم اشو کو سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کیوں شامل نہیںکیا، نیب کا سربراہ ایسا شخص ہونا چاہیے جس پر کوئی انگلی نہ اٹھاسکے اور جس کے نام سے ہی حرام خور اور بڑے بڑے مگرمچھ خوف کھائیں۔اس کے  انتخاب کا اختیار سیاستدانوں کے پاس نہیں بلکہ قومی اداروں کے انتہائی نیک نام ریٹائرڈ افراد پر مشتمل ایک سرچ کمیٹی کے پاس ہونا چاہیے۔ مسلح افواج اور عدلیہ میں ہونے والی کرپشن بھی نیب کے دائرۂ اختیار سے باہر نہ ہو۔ ایک ٹرم کے لیے اس کا سربراہ اعلیٰ کردار کا سول سرونٹ ہو اور دوسری بار اس کی سربراہی کسی نیک نام جرنیل کو دی جائے۔ اس سے سول اور فوجی اداروں کی کمٹمنٹ، کیپیسٹی اور کارکردگی بھی عوام کے سامنے آتی رہیگی۔ ایف آئی اے ، ایف بے آر اور قومی بینک بھی حکومتی کنٹرول سے باہر ہوں۔

٭عدلیہ، پولیس، انتظامیہ اور ٹیکس سروسز کے ریٹائر ہونے والے انتہائی نیک نام افسروں کو ڈویژن کی سطح پر محتسب مقرر کیا جائے۔ ان کے پاس بدعنوانی کا مقدمہ درج کرنے،گرفتار کرنے اور تفتیش کے اختیارات ہوں۔ وہ اپنے اپنے دائرہ ٔ کار میں انسدادِ بدعنوانی کے ذمّے دار ہوں۔ انھیں اپنے ادارے کے علاوہ کچھ اَور اِداروں کی ذمّے داری بھی دی جاسکتی ہے۔ محتسب کا انتخاب درست ہونے کی صورت میں نچلی سطح پرکرپشن کا موثر طور پر تدارک ہوگا  اور عوام کے جائز کام رشوت کے بغیر بھی ہونے لگیں گے۔

٭عوام کا پیسہ (Public Money) جس ادارے یا محکمے میں بھی خرچ ہو، اس کی مکمّل تفصیل اُس ادارے کی ویب سائیٹ پر دکھائی جائے۔ اگر ارکانِ پارلیمنٹ یا ارکانِ عدلیہ کی تنخواہیں بڑھائی جائیں یا نئی گاڑیاں خریدی جائیں تو وہ بھی قومی اسمبلی اور سپریم کورٹ کی ویب سائیٹ پر دکھائی جائے۔

٭تمام  وزارتوں اور ڈویژنوں کے لیے لازم قرار دیا جائے کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ رقم کے معاہدے آن لائن کریں، اور یہ On line transactions بھی بینکوں کے ذریعے ہوں۔

٭سپریم کورٹ 1980ء سے لے کر اب تک بینکوں کے قرضے معاف کرانے والوں کی مکمل فہرست طلب کرے اور جس فیکٹری کے نام پر لیے گئے قرضے معاف کرائے گئے ہوں اُس فیکٹری کے اصل مالک (قرضہ لینے یا معاف کرانے کی درخواست تو ڈائریکٹر یا مینیجر کے نام سے بھی دی جاتی ہے) اس کی بیوی، بھائیوں اور بچّوں پر پندرہ سال کے لیے سیاست میں حصّہ لینے پر پابندی لگادی جائے۔

٭سیاسی اور انتخابی نظام کی صفائی (purification)کے لیے آئین کے آرٹیکلز 62 اور63کے سخت نفاذ کے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ سپریم کورٹ سختی سے ریٹرننگ افسروں کو پابند کرے کہ وہ انتخابی امیدواروں کے کردار کے بارے میں مکمل چھان پھٹک کریں۔ امیدواروں کی اسکروٹنی کی مدّت تین مہینے تک بڑھادی جائے تاکہ ان کے بارے میں الزامات اور تفتیش و تحقیق مکمل کی جاسکے۔ تمام امیدواروں کے کردار اور شہرت کے بارے میں انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نیک نام افسروں اور ڈویژنل سطح پر مقرّر محتسب صاحبان سے رپورٹیں لی جائیں۔

٭اگر کوئی اسمبلی کا رکن بدعنوانی یا کمیشن خوری میں ملوّث پایا جائے تو پارلیمنٹ اس کا تحفّظ نہ کرے اور نہ ہی اس کے  خلاف ہونے والی قانونی کارروائی کے آگے استحقاق کے بیرئیرکھڑے کیے جائیں۔ جرم ثابت ہونے کی صورت میں نہ صرف رکنِ پارلیمنٹ کو سزا دی جائے بلکہ پندرہ سال تک وہ خود اس کی بیوی، بیٹا، بیٹی یا بھائی سیاست میں حصّہ لینے کے لیے نااہل قراردیے جائیں۔

٭ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی کرپشن کرنے والوں اور اشیائے خورد ونوش اور دوائیوں میں ملاوٹ کرنے والوں کے لیے سزائے موت مقرّر کی جائے۔

٭ اگر کوئی سرکاری ملازم کرپشن میں ملوّث پایا جائے تو سزائے قید اور جرمانے کے علاوہ اس کے  خونی رشتوں پر دس سال کے لیے سرکاری ملازمت کے دروازے بند کردیے جائیں۔

٭اہم دفاتر میں کلوز سرکٹ ٹی وی کیمرے نصب ہوں جن کے کنٹرول روم محتسب اور NABکے دفاتر میں ہوں تاکہ ان دفاترمیں ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں کی نگرانی کی جاسکے۔

٭جس طرح قانون میں کچھ کیسوں کی تفتیش مکمل کرنے کے لیے وقت مقررکردیا گیا ہے اسی طرحAnti Corruption Courts کو کرپشن کے مقدمات کے فیصلے ایک مخصوص مدّت کے اندر کرنے اور سنانے کا پابند کیا جائے۔

٭بدعنوانی میں ملوّث ہونے والے سرکاری افسروں کو نوکری سے برخاست کیا جائے اور ان کی  جائیداد ضبط کرکے نیلام کی جائے۔

٭سی ایس ایس اور پی سی ایس کے امتحانات میں سائیکولوجیکل ٹیسٹ کے ذریعے امیدواروں کے رجحانات معلوم کیے جائیں اور نوکری کے ذریعے مال بنانے کا رجحان رکھنے والوں اور حلال و حرام کی تمیز پر یقین نہ رکھنے والوںکو سروس میں داخل ہونے سے روکا جائے۔

٭بدقسمتی سے اس وقت سول سروسز کے کسی تربیّتی ادارے میں دیانتداری یا کردار سازی پر بالکل زور نہیں دیا جاتا۔ ٹریننگ اکیڈیمیوں میں سب سے زیادہ توجّہ کردار سازی اور ایمانداری کا وصف پیدا کرنے پر دی جائے اور تمام اداروں کی تربیّت گاہوں میں چُن کر باکردار اور رزقِ حلال کو فروغ دینے کے جذبے سے سرشار افراد کو سربراہ مقرّر کیا جائے۔

٭ہر سروس گروپ اور ہر ادارے پر لازم ہوکہ وہ اپنی سالانہ رپورٹ عدالتِ عظمیٰ میں پیش کرے اور اس میں اس سال کے نیک نام اور بدنام افسروں کی فہرست شامل ہو۔ بہت سے ملکوں میں پولیس اور انتظامیہ کے سالانہ عشائیوں میں اس سال بھر کے نیک نام اور بدنام افسروں کے ناموں کا اعلان کیا جاتا ہے۔دوستوں اور کولیگز کا دباؤ (Peer Presure) سرکاری افسروں کو گمراہ ہونے سے بچانے کا ایک موثر ذریعہ بن سکتا ہے۔

٭سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بڑھاکر انھیں پرائیوٹ سیکٹر کے برابر کیا جائے اور احتساب کا نظام بہت موثّر بنایا جائے۔ سنگاپور میں لی کوآن نے سرکاری ملازموں کی تنخواہیں کئی گنا بڑھا کر انھیں معاشی مسائل سے بے نیاز کردیا تھا مگر احتساب کا اتنا کڑا نظام وضع کیا کہ کرپشن میں ملوث ایک وزیر کو اپنے رہنما کا سامنا کرنا کرنے کی ہمت نہ ہوئی او ر اُس نے اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرلیا۔ سرکاری اداروں میں موٹروے پولیس کرپشن سے پاک ہے اسی لیے اس کا ذکر ماڈل اور مثال کے طور پر کیا جاتا ہے۔ کئی دیگر عوامل کے علاوہ تنخواہ میں خاطر خوا ہ اضافہ بھی وہاں ملازمین کی  ایمانداری کا سبب بنا تھا۔

٭ہر محکمے کے ایماندار افسروں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان کی ضرورتوں کا خیال رکھا جائے، اچھی تعیناتیوں میںانھیں ترجیح دی جائے تاکہ دوسرے تمام ملازمین تک یہ میسج پہنچے کہ ایمانداری اتنا پسندیدہ اور ارفعٰ عمل ہے کہ اس پر عمل پیرا ہونے والوں کو عزّت بھی ملتی ہے اور ان کے  نخرے بھی اٹھائے جاتے ہیں۔

٭کلمہ گو تو اﷲ اور رسول کریم ؐ کا حکم سمجھ کر مالِ حرام سے ہر حال اور ہر صورت میں بچنے کے پابند ہیں۔ یہ چیز بچپن سے ہی ذہنوں میں ڈالی جائے۔گھر سب سے بڑی تربیّت گاہ ہوا کرتی تھی جو اب غیر فعال ہو چکی ہے، اس ادارے کو زندہ اور بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ والدین اپنے فرائض سے کوتاہی نہ برتیںاور مسلسل تربیّت کے ذریعے کرپشن اور مالِ حرام سے نفرت بچّوں کے رگ و پے میں اسطرح اتاریں جس طرح سؤر کے گوشت سے نفرت مسلمانوں کے دل و دماغ میں سرایت کرچکی ہے۔ اگر بچپن سے ہی ان کے  ذہنوں میں یہ بات بیٹھ گئی تو پھر وہ عملی زندگی کے جس شعبے میں بھی جائیںگے ان کی سمت درست رہے گی اور وہ مالِ حرام سے بچے رہیںگے۔

٭اسکولوں میں صبح اسمبلی کے دوران مالِ حرام کمانے کو ایک سنگین اور قابلِ نفرت جرم کے طور پر پیش کیا جائے اور رزقِ حلال کی فضیلت اور افادیّت بچوں کے دل و دماغ میں ڈال دی جائے۔

٭کسی بھی قسم کی بدعنوانی اور رشوت ستانی کی سنگینی اور اس کے مضر اثرات کے بارے میں بچّوں کو Sensitise کرنے کے لیے اسکولوں اور کالجوں کے نصاب میں ایسے مضامین اور کہانیاں شامل کی جائیں جن میں بددیانت اور حرام خور شخص کو ولن اور دیانتدا ر شخص کو ہیرو کے طور پر پیش کیا جائے۔

٭والدین اور اساتذہ کے علاوہ میڈیا بھی اپنا کردار ادا کرے، کوئی سیاسی پارٹی کسی داغدار شہرت کے مالک شخص کو اپنی نمائیندگی کے لیے کسی چینل پر نہ بھیجے۔ میڈیا مالکان بھی کرپشن کے خاتمے کے لیے اتنا حصّہ ضرور ڈالیں کہ ناجائز ذرایع سے پیسہ بنانے والے کسی شخص کو کسی ٹاک شو میں مدعو نہ کریں۔ ٹی وی چینل کرپٹ لوگوں کو ملک دشمن قرار دیکر ان کا مکمل بائیکاٹ کریں۔

یہ سب کچھ ہوسکتا ہے! یہ کون کریگا؟ اس کا جواب ہے ایسی قیادت جس کا دامن پاک ہو اور جو مالی اور اخلاقی طور پر پاکیزہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔