ہمارے جگر کھاتے گدھ

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 14 جون 2017

میرے زمینی خداؤ خدارا ہمیں بھیانک، وحشت ناک اور ڈراؤنے ملک کا اصل چہر ہ دکھانے کے بجائے مصنوعی، تصوراتی، میک اپ زدہ، جھوٹا اور خوابوں کے ملک کا چہرہ دکھانا بند کردو کیونکہ ہم پاکستان کے اصل چہرے سے واقف ہیں لیکن تم اصل چہرے سے کیسے واقف ہوسکتے ہو کیونکہ جب کسی نے قحط سالی کا سامنا کیا ہو، بھوک سے ہونے والی اموات اس کے سامنے ہورہی ہوں تب ہی وہ پوری طرح آنکھیں کھول کر بدقسمتی کی حالت کو دیکھ سکتا ہے جب کسی نے اپنی عاجز آنکھوں سے پھیکی پڑی ہوئی دن کی روشنی میں بھوکے بچوں کے چہرے دیکھے ہوں جب تلملا تی ہوئی ماؤں کو موت کے منہ میں جاتے ہوئے بچوں کو مایوسی کے عالم میں دودھ سے خالی اپنی چھاتیوں سے لگاتے دیکھا ہوگا اور مردوں کے بھوت جیسے ڈھانچوں کو فرش پر بچھی ہوئی چٹائیوں پر پڑے جب وہ صرف مہربان موت کے انتظار میں ہوں دیکھا ہوگا تب ہی وہ سمجھ سکے گا کہ اصل چہرہ کیا ہے اور تب ہی وہ سوالات کی اصلی نوعیت کو سمجھ سکے گا۔ یقینا جنہوں نے ہمارے برباد پاکستان میں سمائی ہوئی محرومی کو خود دیکھا ہو اور انھیں عملی طور پر  بے انت دکھوں کا کچھ تجربہ ہو توا نہیں احساس ہونا چاہیے کہ اب لوگ محض وعدوں، دعوؤں، اعلانات پر بھروسہ نہیں کرسکتے انھیں عملی اقدامات نظر آنے چاہیں۔ آج پاکستان ایسی جگہ میں بدل گیا ہے جہاں بھوک کا دیو خوفناک فصل کاٹ رہا ہے۔

اس لیے اب صرف باتیں ہی باتیں فضول، لچر، لغوکے علاوہ اور کچھ نہیں ہیں۔ اب جیتے جاگتے گوشت پوست سے انسان صرف باتوں اور خوابوں پر زندہ نہیں رہ سکتے زمینی حقائق انتہائی ہولناک ہوچکے ہیں، بھوکے پیٹ باتوں اور خوابوں سے نہیں بھرتے اب وہ تمہاری سونے کی روٹیوں کا مزید انتظار نہیں کرسکتے انھیں آج ہی گندم کی روٹی چاہیے بھوکے پیٹ تمہاری طرح انتہائی خود غرض ہوتے ہیں جو زمین رہنے والوں کے پیٹ نہیں بھرتی ہے تو پھر اس میں رہنے والے اس زمین میں زہر بھرنا شروع کردیتے ہیں پھر کچھ عرصے بعد زمین سے گندم نہیں بلکہ زہر کی فصلیں اگتی ہیں پھر زمین اور انسان دونوں ہی زہریلے ہوجاتے ہیں ذہن میں رہے زہر کسی کا دوست ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی آنکھیں ہوتی ہیں نہ ہی دل اور نہ ہی ذہن ہوتا ہے وہ وہ ہی کام کرتا ہے جو وہ کرتا ہے اگر محلوں میں رہنے والے اور قلعوں میں بند یہ سمجھتے ہیں کہ وہ زہر سے محفوظ رہیں گے تو وہ اول درجے کے احمق اور بے وقوف ہیں زہر اور زہریلے ان ان جگہوں سے ان کے محلوں اور قلعوں میں چپ چاپ داخل ہوجاتے ہیں۔ جہاں سے ان کو کبھی امید ہی نہیں ہوتی ہے پھر وہ وہی کام کرتے ہیں جو وہ کرتے ہیں وہ ہر چیز اور انسانوں کو جلا کر رکھ دیتے ہیں۔

اگر تم ان حالات کو اپنی کامیابی اور فتح سمجھتے ہو تو ذرا تاریخ میں محفوظ بادشاہ اشوک کا گریہ ضرور پڑھ لینا جب اشوک اپنے عظیم لشکر کے ساتھ ریاست کالنگا پر حملہ آور ہوا اور اسے تہس نہس کردیا اور پھر طاقت کے نشے میں دھت اپنے گھوڑے پر سوار ہوکر کالنگا کے میدان میں اپنی فتح کا نظارہ کرنے نکلا تو اس نے دیکھا کہ میدان میں دور دور تک ایک لاکھ سے زائد سپاہیوں کی لاشیں بکھری پڑی ہیں مردارخور گدھ ان پر اتر آئے ہیں بہت سے نیم مردہ ہیں،کراہتے اور پانی مانگتے ہوئے۔ پڑوس کی بستیوں کی عورتوں آن پہنچی ہیں جو میدان جنگ میں بکھری ہوئی لاشوں میں اپنے پیاروں کو تلاش کررہی ہیں اور آہ وبکا کررہی ہیں۔

کالنگا کے میدان میں بادشاہ اشوک نے دیکھا کہ فتح کا چہرہ کتنا بھیانک ہے اس کے بدن پر لرزہ طاری ہوگیا وہ اپنے گھوڑے سے اترگیا اور اپنا چہر ہ آسمان کی طرف اٹھایا اور نوحہ کیا ’’یہ میں نے کیا کردیا اگر یہ فتح ہے تو شکست کسے کہتے ہیں؟ یا فتح ہے یا شکست؟ یہ انصاف ہے یا انصافی؟ یہ شجاعت ہے یا بزدلی؟ کیا بچوں اور عورتوں کا قتل بہادری ہے؟ کیا میں نے یہ سب کچھ اپنی سلطنت کو وسعت دینے اور دولت مند کرنے کے لیے کیا یا دوسری بادشاہت کی شان و شوکت کو غارت کرنے کے لیے؟ کسی نے اپنا شوہرکھو دیا، کسی نے اپنا باپ اور کسی نے اپنا بچہ، اور کوئی بچہ اپنی ماں کے پیٹ میں ہی قتل ہوا۔ لاشوں کے یہ انبار کیا ہیں۔ یہ فتح کے نشان ہیں یا شکست کے‘‘ انسانوں کی بربادی کسی کی فتح نہیں ہوسکتی بلکہ یہ تمام حریفوں کی شکست ہوتی ہے جس وقت موت ایک قبر سے دوسری قبر تک لنگڑاتی پھرتی ہے تو اس وقت موت کی کراہیں صاف سنائی دیتی ہیں۔

یاد رکھو چیتھڑوں میں لپٹے، بیمار، بھوکے، بدحواس انسان انسانیت کا دیوالیہ پن کے سوا کچھ نہیں۔ جب زندگی چرالی جاتی ہے اور اس کی جگہ موت عطا کر دی جاتی ہے تو پھر اس جگہ وحشت بھی چیختی چلاتی ہے جب ہم تمدن کی بات کرتے ہیں تو قدیم انسان کو اس لیے غیر ترقی یافتہ کہتے ہیں کہ وہ وحشتی تھا ظالم تھا اور خود غرض تھا تو کیا آج انسان کم وحشی ہے کم ظالم ہے اور کم خود غرض ہے؟

مستقبل کبھی مایوس، لاشوں، خون، بے اعتمادی، نفرت پر تعمیر نہیں کیا جاسکتا جو حالات ہمارے آج ہیں اور جوکل تھے اور جن لوگوں سے ہمارا واسطہ پڑا ہوا ہے تو ہمارا آنے والا کل بھی آج سے مختلف نہیں ہوگا، اسی طرح سے پورے ملک میں لوبان کی خوشبو پھیلی رہی گی۔ اسی طرح سے اذیتوں کو دور کرنے کے لیے دعائیں مانگی جارہی ہوں گی۔ اسی طرح سے ہر شخص موت کی زد میں ہوگا۔ اسی طرح سے گھر گھر گریہ ہورہا ہوگا اس سے ہر شخص روز ماتم کررہا ہوگا، اسی طرح سے ہر طرف لاشوں کے انبار لگے ہوئے ہونگے ہر طرف اسی طرح سے کرب ناک چیخ و پکار جاری ہوگی۔

ہماری حالت دیکھ کر عظیم یونانی ایسکائی لیس کا لکھا ڈرامہ ’’پرومی تھیوس‘‘ یا د آجاتا ہے ’’ پرومی تھیوس کا باپ آئی پیٹوس تھا، اس نے انسان کو مٹی سے بنایا اور جب زیوس نے ان پر بہت ظلم ڈھائے اور ان کو آگ سے محروم کردیا تو اس نے ہیفا سٹوس کی بھٹی سے آگ چرا کر انسانوں کو عطا کی اور انھیں صعنت وکاریگری کے فنون سے متعارف کرایا۔ زیوس کو اس کی یہ حرکات سخت نا پسند تھیں گو اپنے باپ کرونس کو شکست دینے کے لیے اسے پرومی تھیوس کی مدد درکار تھی اور کرونس کے خلاف جنگ میں پرومی تھیوس نے زیوس کی مدد کی تھی۔ اس جنگ میں فتح حاصل کرنے کے بعد زیوس اولمپس پہاڑکے دیوتاؤں کا سردار بن گیا لیکن بعد میں اس کی انسان دوستی نے زیوس کو دشمن بنا لیا اس جرم کی پاداش میں زیوس نے پرومی تھیوس کوہ قفقازکی ایک چٹان سے باندھ دیا۔

جہاں ایک گدھ روز اس کا جگر کھاتا اور وہ جگر پھر اپنی اصل حالت میں واپس آجاتا۔ ڈرامے کے ایک منظر میں ہر میز(پیغامبر دیوتا)پرومی تھیوس سے کہتا ہے ’’ایک مدت گزرجائے گی اور تمہیں نصیب ہوگا دیکھنا روشنی کو لیکن زیوس کا پرندکتا ایک خون آشام گدھ بن بلائے مہمان کی طرح تمہاری دعوت اڑانے آئے گا سارا دن وہ تمہارے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کرے گا تمہاری بوٹیاں نوچے گا اور وحشیوں کی طرح سیاہ جگرکھائے گا اس اذیت سے نجات کا کوئی راستہ نہیں‘‘ اب تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب پرومی تھیوس ہیں اور سب کوہ قفقازکی چٹان پر بندھے ہوئے ہیں روز گدھ آتا ہے ہمار ے جگر کھاتا ہے پھر جگر اصل حالت میں واپس آجاتا ہے اگلے روز پھرگدھ آتا ہے اور پھر ہمارے جگر کھاتاہے یہ ہی سب کچھ ہمارے ساتھ سالوں سے اسی طرح سے ہوتا آرہا  ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔