کھیلوں کو سیاست سے پاک رکھنے کے لیے فیڈریشنز کو آزادانہ کام کرنے دیا جائے

پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو کھیلوں پر توجہ دینا ہوگی، کھیلوں سے وابستہ شخصیات کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال۔ فوٹو : فائل

پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو کھیلوں پر توجہ دینا ہوگی، کھیلوں سے وابستہ شخصیات کا ایکسپریس فورم میں اظہار خیال۔ فوٹو : فائل

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کا قیام 1948ء میں عمل میں لایا گیا، چیف پیٹرن قائداعظم تھے، انہوں نے ہی اولمپکس گیمز میں شرکت کے لیے ملک کا پہلا دستہ روانہ کیا، پی او اے کے ساتھ34 فیڈریشنز کا الحاق ہے، اولمپکس کامن ویلتھ، ایشین گیمز میں کھلاڑی اسی کے بینر تلے شرکت کرتے ہیں، گرانٹ بھی آئی او سی کی طرف سے ملتی ہے۔

دوسری طرف پاکستان سپورٹس بورڈ 1962ء میں تشکیل دیاگیا، مقصد کھیلوں کے فروغ کے لیے انفراسٹرکچر بنانا اور مختلف یونٹس کی مالی مدد کرنے کے لیے نظام وضع کرناتھا، اس وقت 22 فیڈریشنز پی ایس بی کے ساتھ منسلک ہیں۔ دونوں تنظیموں میں اختیارات کے لیے کھینچا تانی کئی تنا زعات کا سبب بنتی ہے، بین الاقوامی سطح کے بیشتر میگا ایونٹ آئی او سی کے تحت ہوتے ہیں جبکہ دیگر انٹر نیشنل سپورٹس فیڈریشنز بھی اسی کے چارٹر کے مطابق اپنی پالیسیاں تشکیل دیتی ہیں۔ پاکستان میں سپورٹس پالیسی 2005 میں بنائی گئی تھی لیکن کئی سال تک اس پر عمل درآمد ممکن نہ ہوسکا، بعدازاں عدالتی چارہ جوئی کے بعد فیصلہ سپورٹس بورڈ کے حق میں ہوا جس کے تحت قرار دیا گیا کہ کسی بھی کھیلوں کی تنظیم میں کوئی عہدیدار 2 سے زیادہ ٹرم کے لیے اختیار اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔

پی او اے کے صدر عارف حسن، پاکستان ہاکی فیڈریشن کے صدر قاسم ضیاء اور ایتھلیٹ فیڈریشن کے صدر جنرل(ر)اکرم ساہی کو شکست دے کر تیسری بار منتخب ہوئے، ناکام امیدواروں نے الیکشن سے قبل اور بعد میں خوب شور مچایا کہ سپورٹس پالیسی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں وہ ایک بار پھر عہدہ سنبھالنے کے اہل نہیں، دوسری طرف عارف حسن کا موقف تھا کہ پی او اے کسی داخلی پالیسی نہیں بلکہ آئی او سی چارٹر کے مطابق معاملات چلانے کی پابند ہے، سپورٹس بورڈ سے فنڈز نہیں لیتے تو اس کی پالیسیوں پر عمل درآمد کیوں کریں؟اس صورتحال میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے پاکستان میں کھیلوں کے نظام اور فیڈریشنز میں حکومتی مداخلت، سیاسی اثرورسوخ سے عہدیداروں کی نامزدگی اور انتخاب کا نوٹس لیتے ہوئے وارننگ جاری کی کہ اولمپکس سے قبل سپورٹس پالیسی میں متنازع شقوں کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ تنظیموں کی آزادانہ اور خود مختار حیثیت بر قرار رکھنے کا طرز عمل اپنایا جائے۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کی درخواست پر ڈیڈ لائن میںتوسیع کرتے ہوئے کھلاڑیوں کو لندن گیمز میں ملکی نمائندگی کی اجازت دید ی گئی، تاہم بعد ازاں اس ضمن میں کوئی مثبت پیش رفت نہ دیکھتے ہوئے آئی اوسی نے ایک بار پھر 31 اگست تک کی مہلت دیتے ہوئے سخت اقدامات اٹھانے کا اشارہ دیا، کھیلوں کی انٹرنیشنل باڈی کا کہنا تھا کہ کسی بھی ملک کی داخلی پالیسیاں ایسی نہیں ہونی چاہئیں کہ سپورٹس سے وابستہ تنظیموں کی آزادانہ حیثیت پر قدغن لگے مگر پاکستان میں بیشتر کھیلوں کی فیڈریشنز کے کرتا دھرتا اپنے اثر ورسوخ سے کئی کئی سال تک مختلف عہدوں پر قبضہ برقرار رکھتے ہیں، آئی او سی کی طرف سے تحریر کئے گئے ایک اور خط میں 15 ستمبر تک کی ڈیڈلائن دیتے ہوئے کہا گیا کہ کئی امور حل طلب ہونے کے باوجود کوئی ایسا نا خوشگوار فیصلہ نہیں کرنا چاہتے۔

جس سے ملک میں کھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے، اس لیے معاملات درست کرنے کے لیے دیئے وقت میں توسیع کی جارہی ہے، امید ہے کہ حکام ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوری فیصلے کرکے تفصیلات بھجوائیں گے، بصورت دیگر پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کو معطل کرکے دنیا کی دیگر فیڈریشنز کو بھی بائیکاٹ کرنے کا پابند کردیاجائے گا۔ سپورٹس حلقوں میں اس صورتحال پر سخت تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ انٹر نیشنل باڈی نے معطلی کا فیصلہ کردیا تو نہ صرف پاکستانی کھلاڑیوں پر عالمی مقابلوں میں شرکت کے دروازے بند ہو جائیں گے اور وہ ملکی پرچم کے بجائے آئی او سی کے بینر تلے ایونٹس میں شرکت پر مجبور ہونگے، سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک آئی او سی کے چارٹر پر عمل درآمد کے ثبوت فراہم نہیں کر دیئے جاتے۔

دوسری طرف حکام افہام و تفہیم سے کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کے بجائے بدستور اپنے اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں، حال ہی میں پاکستان سپورٹس بورڈ کے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں پی او اے پر ایڈہاک لگانے اور گذشتہ ماہ لاہور میں ہونے والے نیشنل گیمزکو غیرآئینی قرار دیتے ہوئے انھیں دوبارہ اسلام آباد میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا، پی ایس بی کی جانب سے آصف باجوہ کی زیرسربراہی7 رکنی ایڈہاک کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا، پی او اے کے عہدیدار تاحال اس موقف پر قائم ہیں کہ سپورٹس بورڈ کے دائرہ کار سے باہر ہونے کی وجہ وہ کسی فیصلے کے پابند نہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی او اے کا الحاق انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی سے ہے اور وہ آئی او سی چارٹر پر مکمل طور پر عمل پیرا ہیں، دریں اثناء نیشنل گیمز کے دوبارہ انعقاد کیخلاف قانونی چارہ جوئی کی تیاری بھی شروع ہوچکی ہے۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پر ایڈہاک لگائے جانے سے پیدا ہونے والی نئی صورتحال کے تناظر میں انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا فیصلہ15فروری کو سوئٹزر لینڈ کے شہر لوزانے میں ہونے والے اجلاس میں متوقع ہے، معاملات کا جائزہ لینے کے لیے آئی اوسی کے پاکستان میں ممبر سید شاہد علی اور پی او اے کے صدر عارف حسن کو ریکارڈ سمیت طلب کیا گیا ہے، عارف حسن نے اولمپک ہائوس لاہور میں ایڈوائزری کمیٹی میٹنگ کے بعد میڈیا سے بات چیت میں کہا کہ جن یونٹس نے 32 ویں قومی گیمز میں شرکت نہیں کی ان کا کیس ڈسپلنری کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا جو آئین و قانون کے مطابق سفارشات پیش کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان سپورٹس بورڈ کے اجلاس میں چند فیڈریشنز نے شرکت کی جن کی اکثریت پی او اے سے الحاق نہیں رکھتی،ایڈہاک لگائے جانے کی کوئی حیثیت نہیں،آئندہ ماہ جنرل کونسل کے اجلاس میں ایک بار پھر اپنی اکثریت ثابت کریں گے، انہوں نے کہا کہ ہم پہلے بھی پی او اے کی معطلی کے خلاف تھے اور اب بھی آخری حد تک کوشش ہوگی کہ پاکستان کے خلاف سخت ایکشن نہ لیا جائے۔ اس متنازعہ صورتحال کے حوالے سے گفتگو کے لیے ایکسپریس فورم کا اہتمام کیا گیا جس میں کی جانے والی گفتگو قارئین کی نذر ہے۔

خالد محمود
(چیف کوآرڈینیٹر پی او اے)
دنیا کے ہر ملک میں حکومتی ادارے کھیلوں کی سرپرستی کرتے ہیں، لندن اولمپکس جیسا میگا ایونٹ بھی حکومت کی طرف سے خطیر فنڈز کی فراہمی کے بغیر کرانا ممکن نہیں تھا، مالی سپورٹ اور بنیادی انفرا سٹرکچر سرکاری طور پر فراہم کئے جانے کے باوجود لندن اولمپک ایسوسی ایشین کی پالیسیاں اور طریقہ کار آئی او سی چارٹر کے مطابق ہی تھا،اس حوالے سے کوئی حکومتی مداخلت دیکھنے میں نہیں آئی اور نہ ہی دنیا کے دیگر ملکوں میں ایسا ہوتا ہے، دوسری طرف پاکستان میں حکومتی ادارے پی او اے کی آزادانہ حیثیت پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

کھیلوں میں سیاسی مداخلت کے سبب انٹرنیشنل باڈی نے پاکستان پر پابندی لگادی تو کھلاڑی بین الاقوامی مقابلوں میں ملکی پرچم کے بجائے انٹرنیشنل اولمپک کے بینرتلے شرکت کرینگے جو پاکستانی کھیلوں کے لیے سیاہ دن ہوگا، اگر سب کچھ جوں کا توں رہا تو انٹر نیشنل اولمپک کمیٹی سخت ایکشن لے سکتی ہے جو پاکستانی کھیلوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا، دنیا بھر میں حکومتیں سہولتیں فراہم کرتی اور زیادہ سے زیادہ ایونٹس آرگنائز کرکے نوجوانوں کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع فراہم کرتی ہیں مگر مگر سپورٹس تنظیموں میں عہدیداروں کے انتخاب کے لیے وہی طریقہ کا ر اپنایا جاتا ہے جو آئی او سی کے چارٹر کے تحت درست ہے، ہمارے ہاں بااثر شخصیات دیگر شعبوں میں تسلط جمانے کے ساتھ ساتھ اب کھیلوں پر بھی شب خون مارنے کی تیاری کر رہی ہیں جو کسی طور درست اقدام نہیں کہا جاسکتا،سپورٹس کو سیاست سے پاک رکھنے کے لیے فیڈریشنز کی خود مختاری یقینی بنانا ہوگی۔

ادریس حیدر خواجہ
(صدرپاکستان سائیکلنگ فیڈریشن)
پاکستان اسپورٹس بورڈ میں 2 ڈائریکٹرز کی تقرری کی گئی، کھیلوں کے فروغ سے زیادہ وسائل ذاتی خدمت کے لیے رکھے گئے ہیں،بھاری رقم ذاتی ملازمین اور بیرون ملک دوروں پر خرچ کی جا رہی ہے، دوسری طرف سپورٹس مقابلوں اور انفرا سٹرکچر کے منصوبوں میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے مختلف حیلے بہانے اختیار کیے جارہے ہیں، پنجاب اولمپک ایسوسی ایشن نے لاہور میں نیشنل گیمز کا انعقاد متعدد مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے وسائل سے کرایا، بیشتر تنظیموں کے کھلاڑیوں نے شرکت کی لیکن حکومتی اداروں کے زیر اثر کئی یونٹس کو روکنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے، یہاں تک کہا گیا کہ گرائونڈز بھی مہیا نہیں کئے جائیں گے، تمام مسائل کے باوجود مقابلوں کے کامیاب انعقاد سے ثابت کیا کہ ملک میں کھیلوں سے محبت کرنے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔

اب نیشنل گیمز دوسری بار اسلام آباد میں کرانے کا شوشہ چھوڑ دیا گیا ہے جن کی آئینی حیثیت کیا ہوگی؟سپورٹس بورڈ کے حکام قومی سرمائے کو بے دریغ استعمال کررہے ہیں، بھارتی اولمپک ایسوسی ایشن کی معطلی کے بعد سیف گیمز کا ابھی تک پتہ ہی نہیں کہ کہاں ہوں گے لیکن تربیتی کیمپس کا انعقاد شروع کردیا گیا، بورڈ اپنے من پسند کوچز کو نوازنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، پاکستان سپورٹس بورڈ پارٹی بنا ہوا ہے، اسے اپنے بنیادی کام کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے۔

کئی سال گزر گئے لیکن کوئی نیا منصوبہ شروع نہیں ہوا نہ ہی کسی میدان کی تزئین آرائش کی گئی ہے ، اقتدار کی بندر بانٹ میں لگے ہوئے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، پاکستان کا بچہ بچہا سپورٹس سے محبت کرتا ہے کھیل ہی وہ واحد ذریعہ ہیں جو پورے ملک کے عوام کو یکجا کرتا ہے، پاکستان کی کوئی بھی ٹیم جیتے جشن ملک بھر میں ہوتا ہے کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں سندھی ہوں پٹھان یا کوئی اور لیکن حکام صرف اور صرف کھنچا تانی کے ذریعے عہدے بچانے پر لگے ہوئے ہیں، ارباب اختیار سے مطالبہ کرتا ہوں کہ سپورٹس بورڈ کو فوری طور پر ختم کرتے ہوئے استعمال کئے گئے فنڈز کا سپیشل آڈٹ کروایا جائے،دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔

خاور شاہ
(سیکرٹری پاکستان بیس بال فیڈریشن )
اداروں کی محاذ آرائی میں نقصان ملکی سپورٹس کا ہو رہا ہے، آئی او سی صورتحال پر مسلسل نظر رکھے ہوئے ہے، پابندی لگ گئی تو ملک کی بدنامی ہوگی، 2 سے زائد مدت کے لیے عہدیداروں کے انتخاب کو جواز بنانا درست نہیں، اگر کوئی شخص کھیلوں کا حقیقی خادم اور وسیع تجربہ رکھتا ہے تو اس کے 5 بار بھی انتخاب پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے، نا اہل لوگوں کو عہدوں پر باربار تبدیل کرنے کے باوجود نتائج حاصل نہ ہوں تو ایسے تجربات کا کوئی فائدہ نہیں، جنرل عارف حسن کا گذشتہ ریکارڈ اٹھا کردیکھ لیں سب کو پتا چل جائے گا کہ انھوں نے ملک میں کھیلوں کے فروغ کے لیے کیا اقدام اٹھائے ہیں، آئی او سی کو بھی ان کی اہلیت یا قابلیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر یہاں بھی کسی کو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے، فیڈریشنز کھیلوں کے فروغ کے لیے ہوتی ہیں، انہیں اسی کا ساتھ دینا چاہیے۔

جو اسپورٹس کے لیے کام کرنے میں سنجیدہ ہو، کسی کے تیسری مدت کے لیے انتخاب یا عمر پر نہیں بلکہ ناقص کارکردگی پر اعتراض کیا جاسکتا ہے، لاہور میں ہونے والی نیشنل گیمز میں پی او اے سی الحاق رکھنے والی13 میں سے 10 یونٹس کی ٹیموں نے حصہ لیا، دوبارہ انعقاد کا شوشہ کیوں چھوڑا جارہا ہے، قومی کھیل ہر دو سال بعد ہوتی ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیے، لاہور گیمز میں مجبوری کے باعث شرکت نہ کرسکنے والے کھلاڑیوں کا ناقابل تلافی نقصان ہوا ، ہماری توجہ کھیل اور کھلاڑیوں کی بہتری پر ہونی چاہئے نہ کہ عہدوں کے حصول کی خاطر ایک دوسری کو نیچا دکھانے پر۔

پی او اے کے الیکشن میں سب نے نئے عہدیداروں کے انتخاب کو قبول کیا، اب جھگڑا کس بات کا ہے، ویسے بھی ہم اسپورٹس بورڈ سے فنڈز نہیں لیتے، پہلے سالانہ 7 لاکھ ملتے تھے اس سے تو ایک بھی انٹرنیشنل ایونٹ میں شرکت کرنا مشکل تھا، ہمارا سالانہ بجٹ 60 لاکھ ہے، کھلاڑیوں کے پاس پریکٹس کے لیے گرائونڈ نہیں ہیں، اس کے باوجود کئی میڈل پاکستان کو لاکر دیئے، سری لنکا، ایران ، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ اور افغانستان کی ٹیموں کو پنجاب سپورٹس فیسٹیول میں شرکت کی دعوت دی، کسی نے بھی اعتراض نہیں کیا، حکومت اور کچھ نہیں کرسکتی تو ہمیں زمین ہی دیدے، خود سٹیڈیم تعمیر کرکے ملک میں انٹرنیشنل کھیلوں کی واپسی کا راستہ ہموار کریں گے، جب تک سپورٹس کو سیاست سے الگ نہیں رکھا جاتا اس وقت تک نام کمانا ممکن نہیں ہے، دنیا کے بڑے سے بڑے ملکوں میں بھی کھیلوں کے ادارے حکومتی زیر اثر سے آزاد ہوکر کام کرتے ہیں، لیکن یہاں الٹی گنگا بہتی ہے، کوئی بھی پالیسی یا ٹیم کو باہر بھیجنے کا کام حکام بالا کی اجازت کے بغیر ممکن ہی نہیں، ہمارا حکومت اور سپورٹس بورڈ سے مطالبہ ہے کہ وہ پلیئرز کے لیے گرائونڈز اور بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی طرف توجہ دے، اختیارات کے جھگڑے سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہونے والا، نقصان صرف اور صرف کھیلوں کا ہوگا۔

خلیل احمد
( سیکریٹری پاکستان جوجسٹو فیڈریشن )
سپورٹس بورڈ کا کام کھیلوں کو فروغ دینے کے لیے فیڈریشنز کو گرانٹ اور معاونت فراہم کرنے کے ساتھ انفرا سٹرکچر کو بہتر بنانا ہے لیکن عہدوں پر قابض افراد من پسند تنظیموں کو نوازنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، ملک کے لیے میڈل جیتنے والے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے بجائے سیر سپاٹے کرنے اور کرانے پر توجہ دی جاتی ہے، کبھی ایڈ ہاک کی تلوار لٹکائی جاتی تو کبھی کھیلوں کے انعقاد میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں، یہ سلسلہ جلد ختم ہونا چاہیے، جوجسٹو رینکنگ میں پاکستان 11 ویں نمبر پر ہے لیکن سپورٹس بورڈ کے حکام اسے کھیل ہی تصور نہیں کرتے، جب بھی غیر ملکی ایونٹس میں شرکت کے لیے تیاری کی، این او سی جاری نہیں کیا گیا، کھلاڑی اپنے خرچے اور مخیر حضرات کے تعاون سے مقابلوں میں حصہ لیتے اور میڈلز حاصل کرتے ہیں، ایران میں ورلڈ چیمپئن شپ میں گولڈ میڈل ملنے کے بعد سپورٹس بورڈ نے این او سی جاری کرنے کا فیصلہ کیا، ایشین چیمپئن بننے پر بھی سپورٹس بورڈ نے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی، جو جسٹو کے کھیل کو غیر اہم گردانتے ہوئے فروغ کے لیے کوئی معاونت نہیں کی جارہی، اگر سہولیات فراہم کی جائیں تو پاکستان کا شمار صف اول کی ٹیموں میں ہوسکتا ہے۔

محمدجہانگیر
(صدر پاکستان کراٹے فیڈریشن)
آئی او سی متعدد بار حکام کو پاکستان اولمپک ایسوسی ایشین کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کے لیے خط لکھ چکی، مگر انتخابات ہارنے والے اب چور دروازے سے کھیلوں کی تنظیموں پر قبضہ جمانا چاہتے ہیں، ان کی کوشش کسی صورت کامیاب نہیں ہوسکتی، پی او اے کا حکومت یا سپورٹس بورڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے ایڈہاک غیر قانونی اور غیر آئینی ہے، جب حکومت یا پی ایس بی سے فنڈز نہیں لیتے تو ان کے پاس پابندیاں لگانے کا جواز ہی نہیں رہتا، اٹھارہویں ترمیم کے بعد تو سپورٹس صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری میں چلی گئی، فیڈرل گورنمنٹ کا کردار بالکل ختم ہوگیا، اب کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ ملک میں سپورٹس سرگرمیوں کو نقصان پہنچائے یا آئی او سی سے الحاق رکھنے والے ادارے کے کام میں مداخلت کرے، کھیلوں میں مداخلت کے حوالے سے بیس بال ایسوسی ایشن نے سپریم کورٹ سے اپیل کررکھی ہے ، امید ہے کہ جلد تمام حقائق سامنے آجائیں گے، حکومتی سپورٹس تنظیموں کو اس بات کی فکر ہونی چاہیے کہ اگر آئی او سی نے پابندیاں لگا دیں تو ملکی کھیلوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔

رانا جمیل
( سیکرٹری پاکستان ٹگ آف وار ایسوسی ایشن)
پی ایس بی کی طرف سے من پسند تنظیموں کو الحاق اور فنڈز دیئے جاتے ہیں، رسہ کشی میں گولڈ میڈل جیتنے والی ٹیم کو غیر معروف سپورٹس کا طعنہ دے کر ٹرخا دیا گیا، کوئی بھی کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کو تیار نہیں، یہی سلوک کئی دیگر یونٹس کے ساتھ کیا گیا، حکومتی ادارے نئے کھیلوں کی سرپرستی نہیں کریں گے تو پاکستان انٹرنیشنل سطح پر بڑی کامیابیاں کیسے سمیٹ سکے گا، ٹگ آف وار میں پاکستان نے کئی یاد گار کامیابیاں اپنے نام کیں کئی بار روایتی حریف بھارت کو بھی زیر کیا لیکن کرکٹ یا ہاکی کی طرح ہماری حوصلہ افزائی نہیں کی گئی، حکومتی اور سپورٹس حکام کے رویے سے نالاں نوجوان اس کھیل کی جانب آنے کو ہی تیار نہیں ہیں، جنوبی ایشیا ٹگ آف وار کمیٹی کا صدر بنے پر بھارتی سپورٹس حکام نے فون کئے اور مبارکبادیں دیں لیکن ہمارے ملک میں کسی نے حوصلہ افزائی تک کرنا گوارہ نہیںکیا، ٹک آف وار ایسوسی ایشن الگ حیثیت سے کام کرتی ہے، جب کوئی تسلیم ہی نہیں کررہا تو الحاق کیسے ہوسکے گا، اس لیے ہم خوش قسمتی سے ایڈہاک یا دیگر معاملات کی زد میں نہیں آتے، ہمارا مقصد ٹیم کو صف اول میں لے جانا ہے، اس کے لیے جو کچھ ممکن ہوسکا کریں گے۔

افتخارملک
( صدر پاکستان ووشو فیڈریشن)
پاکستان مارشل آرٹس میں 2 بارایشین چیمپئن بنا لیکن کھلاڑیوں کی کسی نے حوصلہ افزائی نہیں کی، ملکی کھیلوں کے اداروں میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے کھلاڑیوں کو ہی نقصان ہوا، اقتدارکی کھینچا تانی جاری رہی تو پاکستان میں سپورٹس تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی، ہم بین الاقوامی ایونٹس میں اپنی مدد آپ کے تحت حصہ لیتے ہیں، سپورٹس بورڈ نے کبھی مالی مدد نہیں کی اس کے باوجود کئی میڈلز پاکستان کی جھولی میں ڈالے ہیں، سب کو مل کر کھیلوں کے فروغ کے لیے کام کرنا چاہیے، دنیا میں ایسے ملک کو سپر پاور تسلیم کیا جاتا ہے جو سپورٹس کے میدان میں بھی سب سے آگے ہو۔

اولمپکس میں امریکہ اور چین کے مابین گولڈ میڈلز کے لیے سخت مقابلہ ہوتا ہے، سیاسی اور سماجی میدان میں بھی ان دونوں ملکوں کو سب سے آگے مانا جاتا ہے، پاکستان تو جنوبی ایشیا میں بھی تیسر ے نمبر پر ہے، سری لنکا جو ہم سے کہیں چھوٹا ملک ہے لیکن کھیلوں میں ہم سے آگے ہے، اولمپکس میں کئی ایسے ملکوں کے کھلاڑیوں نے میڈلز حاصل کئے ہیں جن کی آبادی لاکھوں میں ہے، پاکستان تو 20 کروڑ عوام کا ملک ہے،50 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے پھربھی کیا وجہ ہے کہ ہم ایک بھی میڈل نہیں جیت پاتے، وجہ صرف اور صرف اس شعبے سے حکام کی رو گردانی ہے، اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا ہے تو کھیلوں پر توجہ دینا ہوگی، ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے جب سب ملک کے لیے ذاتی مفاد کو چھوڑ کر ایک ساتھ سپورٹس کی ترقی اور ملکی مفاد کو ترجیح دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔