نگران وزیر اعظم کون ہوگا؟

نصرت جاوید  جمعرات 31 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

سینیٹر رضا ربانی کو میں برسوں سے جانتا ہوں ۔عام سیاستدانوں سے برعکس وہ سنتے زیادہ اور بولتے بہت کم ہیں۔آئین میں اٹھارویں ترمیم کروانے کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ رکھنا کوئی آسان کام نہیں تھا مگر انھوں نے یہ کر دکھایا ۔پارلیمان نے قومی سلامتی کے بارے میں جو کمیٹی بنائی اس کے سربراہ ہوتے ہوئے وہ بڑی حساس اور چونکا دینے والی معلومات کے امین تھے مگر میرے جیسے دوستوں سے تنہائی میں ملتے ہوئے بھی وہ ان کے بارے میں خاموش رہتے ۔کبھی کبھار ان کی راز داری سے چڑکر میں جان بوجھ کر کوئی ایسی بات کر دیتا جو ان کی دانست میں انتہائی خفیہ ہونا چاہیے ۔وہ اس کی تصدیق یا تردید کرنے کی زحمت بھی گوارا نہ کرتے ۔

مگر مجھ سے ایسی باتوں کا ذکر سنتے ہوئے ان کی آنکھوں میں پہلے ایک مخصوص چمک آتی جو میری معلومات کی تصدیق کردیتی لیکن پھر چہرے پر پریشانی جو ظاہر کردیتی کہ وہ حیران ہوئے ہیں کہ میرے پاس وہ بات کیسے پہنچی۔میرے کچھ اور سیاسی دوستوں سے وہ بڑے سفارت کارانہ انداز میں یہ پوچھتے بھی پائے گئے ہیں کہ کہیں انھوں نے تو ’’اندر کی بات‘‘ مجھے نہیں بتا دی تھی ۔ایسے خاموش،محتاط اور میڈیا سے اجتناب برتنے والے شخص کا کھل کر یہ اعلان کردینا کہ پاکستان پر غیر منتخب لوگوں کی ایک حکومت مسلط کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں کوئی چھوٹی بات نہیں ہے ۔ہمیں اس کو سنجیدگی سے لینا ہوگا ۔ایک حوالے سے ذاتی طور پر مجھے بڑے فخر سے آپ کو ’’میں نہ کہتا تھا؟‘‘ والا انداز اپنا کر بس یاد دلانا چاہیے تھا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے میں اسی کالم میں تواتر کے ساتھ ’’اہل ،ایمان دار اور محب وطن ٹیکنوکریٹس‘‘ کی حکومت لانے کا تذکرہ کر رہا تھا۔مگر حقیقت یہ ہے کہ رضا ربانی جیسے سنجیدہ اور فہیم شخص کی جانب سے اپنے خدشات کی برسرعام تصدیق کے بعد میں اور زیادہ پریشان ہوگیا ہوں ۔

مجھے ’’نظریہ پاکستان‘‘ نامی شے کا کچھ زیادہ علم نہیں ہے ۔بس اتنا یاد ہے کہ یہ اصطلاح ایک بہت ہی ’’نیک پاک‘‘ جنرل یحییٰ خان کے وزیر اطلاعات نواب زادہ شیر علی خان پٹودی نے ہماری سیاست میں متعارف کروائی تھی۔ موصوف متحدہ پاکستان کے آخری وزیر اطلاعات ہوا کرتے تھے ۔انھیں ’’شوکت اسلام ‘‘ کے جلوس نکلوانے کا بہت شوق ہوا کرتا تھا اور صحافت کوان’’گھس بیٹھیوں‘‘ سے پاک کرنے کا جنون بھی جو ان کی دانست میں ہماری ریاست کے دشمنوں کے لیے ’’ففتھ کالمسٹ‘‘ کا رول ادا کرتے تھے۔نواب صاحب کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستان متحد نہ رہ سکا ۔بنگلہ دیش بن کے رہا ۔مگر ان کے دور میں ’’پارسا صحافت‘‘ کے جو بیج بوئے گئے غازی ضیاء الحق کے گیارہ سالوں میں برگد کے درخت بن کر جرأت تحقیق کے راستے روکتے رہے ۔

آج بھی ایسے لوگوں کی باقیات62/63کا ورد کرتے ہوئے پاکستانی سیاست کی ’’بھل صفائی‘‘ میں مصروف ہیں ۔ایک عام ،کمزور اور گنہگار رپورٹر ہوتے ہوئے میں پوری دیانتداری سے یہ محسوس کرتا ہوں کہ پارسائی کے نام پر انتخابی عمل میں رخنہ ڈالنے والے ہتھکنڈے میرے ملک کو شدید نقصان پہنچائیں گے۔آبادی کے اعتبار سے بلوچستان ہمارا سب سے چھوٹا صوبہ ہے۔ وہاں کے بلوچ سیاستدانوں سے کبھی تنہائی میں مل کر دلوں کی باتیں کریں تو آپ کو احساس ہوگا کہ ’’جو پارلیمان کا یار ہے۔غدار ہے غدار ہے‘‘ کے نعروں کی گونج میں ان کے لیے انتخابی عمل میں حصہ لینا کتنا مشکل ہو رہا ہے ۔خدانخواستہ ایسی یہ صورت حال دیہی یا شہری سندھ میں پیدا ہوگئی تو 62/63کا ورد ہمارے کوئی کام نہ آسکے گا ۔

چھوٹے صوبوں کی بات چھوڑیں، پنجاب میں جو انتخابی منظر نامہ بن رہا ہے وہ کسی بھی سوچنے سمجھنے والے کو صاف نظر آرہا ہے ۔اس منظر نامے کے ارتقاء میں رکاوٹیں پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے بہت سارے شہری حلقوں میں ویسے ہی جذبات پیدا کرسکتے ہیں جو آج کل بلوچستان کی ساحلی پٹی میں بہت شدید نظر آتے ہیں مگر ان کی حدت سے ابھی تک لاہور یا اسلام آباد کے لوگ پوری طرح واقف نہیں ۔ہم سب کا بھلا اسی میں ہے کہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت ختم ہوجانے کے بعد زیادہ سے زیادہ صاف اور شفاف انتخابی عمل ہوتا ہوا نظر آئے اور مرکز اور صوبوں میں ایسی حکومتیں بنیں جو خلقِ خدا کی اکثریت کی نمایندگی کرتی ہوں۔اسی حوالے سے میرے پاس خیر کی خبر یہ ہے کہ آیندہ کی عبوری حکومت کے وزیر اعظم کے نام پر اتفاق ہوگیا ہے ۔

میں اس نام سے واقف ہوں ۔مگر اس وقت وہ نام لکھ کر خود کو بڑا ’’باخبر‘‘ ثابت نہیں کرنا چاہتا ۔مجھے اس وقت خود کو اپنے شعبے کا مہا کلا کار ثابت نہیں کرنا۔زیادہ اہم بات میرے ملک کی خیر ہے اور خیر کی تمنا میں اس شخص کے بارے میں ٹھوس اشارے بھی نہیں دوں گا جن کا نام عسکری حلقوں تک بھی پہنچا دیا گیا ہے۔آئین کی کتاب کو گود میں رکھ کر آرام کرسیوں میں بیٹھ کر ’’سچی جمہوریت‘‘ کی تمنا کرنے والے شاید چراغ پا ہوں کہ عسکری حلقوں سے مشاورت کیوں ۔ان کی اطلاع کے لیے صرف اتنا یاد دلانا کافی ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے۔اس کا وزیر اعظم وزیر اعظم ہوتا ہے خواہ چند دن کی عبوری حکومت کے سربراہ کے طور پر سہی۔قومی سلامتی کے امور کو مجھ سے کہیں بہتر سمجھنے والے خوب سمجھتے ہیں کہ پوری دنیا میں ایک “Negative List”ہواکرتی ہے جن میں موجود لوگوں کو ریاستوں کی سربراہی یا حکومتی امور کی نگہبانی کے لیے ہرگز گوارا نہیں کیا جاتا ۔اس تناظر میں پاکستان میں آنے والی عبوری حکومت کے سربراہ کے بارے میں ’’ان‘‘ سے پوچھ لینا بھی کوئی انہونی بات نہ ہوگی۔’’ان‘‘ سے پوچھے بغیر لگائے بندے آخر میں حسین حقانی بنا دیے جاتے ہیں ۔

عبوری حکومت کے وزیر اعظم کے نام پر سیاستدانوں میں تقریباً کلی اتفاق کے باوجود اصل مسئلہ اس بات پر اٹکا ہوا ہے کہ شہباز شریف اپنی اسمبلی کو کب تحلیل کروانا چاہیں گے۔ ایک حوالے سے وہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے پر اصرار کرتے ہوئے جو 18اپریل کو ختم ہونا ہے پر ڈٹے ہوئے نظر آتے ہیں ۔مگر ہمارے ہاں ماضی میں جو محلاتی سازشیں ہوتی رہی ہیں اور ان ہی کے ذریعے ان دنوں ٹیکنوکریٹس کی حکومت کو مسلط کرنے کے جو منصوبے بنائے جارہے ہیں ان کے حوالے سے دیکھا جائے تو شہباز شریف کا اصرار بے جاضد نہیں ایک طرح کا ’’چیک(Check)‘‘ ہے ۔ہمارے سیاستدانوں کو اس پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کرلینا چاہیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔