کچھ تذکرہ فکر و آگہی کا

مقتدا منصور  جمعرات 15 جون 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

مسلم شمیم دور حاضر کے ان چند نابغہ روزگار دانشوروں اور قلمکاروں میں سے ایک ہیں، جو پورے سیاسی و سماجی شعور کے ساتھ بیک وقت شاعری اور نثر کو اپنے اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں۔ وہ نہ صرف عمدہ شاعر ہیں بلکہ اعلیٰ درجہ کے نثرنگار بھی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کا وسیع مطالعہ اور سیاسی و سماجی معاملات پر گہر ی نظر ہے۔ ان کی حالیہ نگارش ’’سیکیولر مفکرین‘‘ ہے۔اس سے قبل عوام کے شعور و آگہی میں اضافے کی خاطر وہ کتب منظرعام پر لا چکے ہیں۔ جن میں نظریات کا تصادم اور لاڑکانہ کے چہار درویش بے پناہ مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔

زیر نظر کتاب میں سیکیولر ازم کے بارے میں پائے جانے والے ابہام کو دورکرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے دور قدیم سے جدید تک کے فلاسفہ کے خیالات و تصورات سے استفادہ کیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں لکھتے ہیں کہ ’’سیکولرازم سائنسی فکر ہے۔ یہ لادینیت کا نہیں، بلکہ ہمہ دینیت کا نظریہ ہے۔ سیکولرازم اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں۔ سیکولرازم کی مختصر ترین تعریف قائداعظم کے یہ الفاظ ہیں کہ”Religion has nothing to do with the business of state۔

کتاب میں قدیم یونانی فلاسفہ یعنی سقراط، افلاطون اور ارسطو سے شروع ہونے والی فکری تحریک جب مسلم معاشروں تک پہنچتی ہے، تو نکھرکر ایک نیا رنگ اختیار کرلیتی ہے۔ جن مسلم فلاسفہ نے اس نظریے کی آبیاری کی اور اسے نئی جہت عطا کی ان میں ابوبکر الرازی، الکندی، الفارابی، ابن رشد، حکیم بوعلی سینا اور عمرخیام سمیت کئی اہم نام سامنے آتے ہیں ۔ مسلم شمیم ان اکابرین کا مختصراً تذکرہ کرتے ہوئے برصغیر میں داخل ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ یہ وہ خطہ ہے، جہاں رجعت اور رجائیت اور قدامت اور جدیدیت کا فکری معرکہ آج اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے۔

برصغیر کے مسلمان معاشرے ویسے تو بحیثیت مجموعی بارھویں صدی سے فکری جمود کا شکار چلے آرہے ہیں، لیکن برصغیر میں مسلمانوں کی ذہنی، فکری اور علمی پسماندگی اپنے عروج پر رہی۔ انگریزوں کے پورے ہندوستان پر قبضے کے بعد جس شخص نے خرد افروزی اور عقلیت پسندی کا پہلا دیپ جلایا، وہ سرسید احمد خان تھے۔ سرسید کے ناقدین خاص طور پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بعض زعما ان پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بعض ہندوستانی اقوام اور طبقات کے لیے تحقیر آمیز رویہ رکھتے تھے، لیکن بحیثیت مجموعی اگر دیکھا جائے تو سرسید احمد خان انیسویں صدی کے برصغیر میں مسلم اشرافیہ میں وہ نمایاں شخصیت ہیں، جنہوں نے مسلمانوں کو عصری علوم کی تحصیل کی جانب راغب کیا۔

یہ ان کی دور بینی اور دیدہ وری تھی کہ مسلمانانِ ہند نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور ایک سیاسی قیادت پیدا کرنے میں کامیاب ہوسکے جو انگریزوں سے ایک الگ وطن لینے میں کامیاب ہوسکی۔ یہ لبرل آزاد خیال اور جدید افکار سے آراستہ مسلمان ہی تھی کہ جن کی جدوجہد نے پاکستان کے قیام کو ممکن بنایا۔ وگرنہ مذہبی قوتیں، مسلمانوں کو فقہہ اور فرقہ کے نام پر منقسم کیے ہوئے تھیں۔ لیکن یہاں غالب کی بصیرت اور روشن دماغی کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہے، جنہوں نے سرسید احمد خان کو مسلمانوں میں جدید تعلیم کو متعارف کرانے پر اکسایا۔

برصغیر میں ہمہ دینیت کی دوسری بڑی مثال بانی پاکستان محمد علی جناح کی ہے، وہ خلوص نیت کے ساتھ ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے، مگر استعماری قوتیں اس اتحاد میں رخنہ ڈال کر اپنے مقاصد کے حصول میں لگی ہوئی تھیں۔ انھوں نے برٹش انڈیا میں 30برس تک صوبائی خود مختاری اور اقلیتوں کے حقوق کی آئینی اور قانونی جنگ لڑی۔ انھوں نے 1926میں مزدوروں کی تنظیم سازی کے حق میں جو قانون سازی کی، اسے برطانوی حکومت نے من و عن نافذ کیا۔ المیہ یہ کہ انھی کے قائم کردہ ملک پرقابض ہونے والے پہلے آمر ایوب خان نے ان مزدور دوست قوانین کو بیک جنبش قلم منسوخ کردیا، جب کہ جناح کے جان نشینوں نے ان کے تصور ریاست کو نظر انداز کر کے ملک کو تھیوکریسی کی راہ پر لگانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔

مسلم شمیم مذکورہ کتاب میں برصغیر یا برٹش انڈیا کے جن دیگر مسلم اکابرین کا تذکرہ کرتے ہیں، ان میں مولانا آزاد سبحانی، علامہ نیاز فتح پوری، فیض احمد فیض، خلیق ابراہیم خلیق، مخدوم محی الدین، کیفی اعظمی، پروفیسر احمد علی، شیخ ایاز، کامریڈ حیدر بخش جتوئی، سائیں جی ایم سید، کامریڈ سوبھوگیان چندانی، پروفیسر ممتاز حسین، اختر حسین رائے پوری، اعزاز نذیر، امان علی نازش، ڈاکٹر حسان، سبط حسن، جوش ملیح آبادی، صادقین، خالد علیگ، ابراہیم جویو اور عابد حسن منٹو شامل ہیں۔ یہ وہ مسلم دانشور اوراکابرین ہیں، جنہوں نے ہمہ دینیت کے فروغ اور معاشرے میں روشن خیالی، خرد افروزی اور عقلیت پسندی کو فروغ دینے کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔آج ملک میں عقلیت پسندی کا جوچھوٹا سا دیا ٹمٹماتا نظر آتا ہے، وہ انھیں اکابرین کی محنتوں کا ثمر ہے۔

کتاب کے ابتدائیہ میں نیشنل پارٹی کے سربراہ میر حاصل بزنجو کہتے ہیں کہ’’ آج پاکستانی اور مسلم معاشرہ تقریباً بکھر چکا ہے۔ مذہبی انتہاپسندی عروج پر ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلام کو ایک بیماری قرار دیا ہے۔ ان حالات میں اس چیز کی سخت ضرورت ہے کہ دانشور اور مفکرین سماجی تبدیلی کے لیے جدید دنیا سے واقفیت پیدا کروائیں، تاکہ سماج کو علم و آگہی کی بنیاد پر ترقی دی جاسکے۔‘‘ آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان معاشرے اور خاص طور پر پاکستانی سماج اس کے لیے تیار ہے بھی یا نہیں۔ کیونکہ95 فیصد مسلمان مسلمانوں ہی کے ہاتھوں مارے جارہے ہیں۔‘‘

ایوب ملک لکھتے ہیں کہ ’’ پاکستان میں جب سے ریاستی ڈھانچے نے ایک نظریاتی روپ دھارا ہے تو اس نے بہت سارے اداروں اور پرانی تہذیبی اقدار پر اپنی دھاک بٹھانے کے ساتھ ساتھ نہ صرف لفظوں اور اصطلاحات پر قبضہ کرلیا ہے، بلکہ اس کو نئے نظریاتی معنی پہنا دیے۔ انھی اصطلاحات میں سیکولرازم کی اصطلاح پر بھی فتح حاصل کرلی گئی اور یوں سیکولرازم ہمہ دینیت کے بجائے لادینیت قرار پائی۔‘‘

خود مسلم شمیم اس کتاب کی تخلیق کے اسباب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 57مسلم ممالک میں سے بیشتر کے یہاں گو کہ سیکولر نظام ہے، مگر غیر جمہوری نظم حکمرانی کی وجہ سے سیکولر ازم کے ثمرات عوام تک نہیں پہنچ پا رہے، جب کہ چند ریاستوں میں مطلق العنان حکمرانوں نے اپنی حکمرانی کو جواز فراہم کرنے کے لیے تھیوکریسی کا سہارا لے رکھا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت اور سیکولرازم ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ چنانچہ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ ایک مطلق العنان یا آمرانہ حکومت اپنی سرشت میں سیکولر ہوسکتی ہے، مگر کوئی جمہوری حکومت سیکولرازم کے بغیر جمہوری نہیں کہلائی جاسکتی۔

ہم مسلم شمیم کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے انتہائی عرق ریزی کے ساتھ اس کتاب کو مکمل کیا اور ان تمام اہل دانش اور فلاسفہ کے تصورات سے آج کے قاری کو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے، جنہوں نے تاریخ کے ہر دور میں خرد افروزی، تعقل پسندی اور روشن خیالی کی شمع کو جلانے کی کوشش کی۔کتاب کا انتساب ملک کے عظیم سیاسی رہنما اور سیاسی دانشور میر غوث بخش بزنجو مرحوم کے نام ہے، جنہوں نے اس ملک کو ایک حقیقی وفاقی جمہوریت بنانے کے لیے تمام عمر انتھک جدوجہد کی اور قید و بند سمیت کسی قربانی سے گریز نہیں کیا۔

کتاب بدلتی دنیا پبلی کیشنز کی جانب سے شائع کی گئی ہے، جس نے طویل عرصے تک ماہنامہ بدلتی دنیا شایع کرکے عوام الناس کی علم و آگہی تک رسائی کی پیاس بجھائی ہے۔ 448صفحات کی اس کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے رکھی گئی ہے،جو بہت زیادہ ہے۔ خاص طورپر محنت کش طبقات اور طلبا وطالبات کے لیے اس کا خریدنا مشکل ہے، اگر طالب علموں اور محنت کشوں کے لیے کتاب کی قیمت نصف سے بھی کم رکھی جائے، تو یہ فروغ علم کے لیے پبلیشر کی بے بہا خدمت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔