ہمارا رمضان

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  جمعرات 15 جون 2017
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں رمضان المبارک کے مہینے میں کلچر بالکل ہی بدل جاتا ہے، بظاہر ہر جگہ نیکی، ثواب اور ایک دوسرے کی مددکا جذبہ کار فرما نظر آتا ہے، اخبارات، ٹی وی چینلز پر، گلی کوچوں میں لگے بینرز پر جگہ جگہ یہ ہی پیغام ملتا ہے کہ ہمیں صدقہ، خیرات، فطرہ اور زکوۃ دو ہم مستحقین کی مدد کرتے ہیں،کہیں ٹی وی چینلز پردھڑا دھڑ انعامات اور نیکیوں کا پرچار ہوتا ہے، لگتا ہے کہ سارا ملک نیکوکار لوگوں سے بھرا پڑا ہے، لیکن کیا واقعی ایسا حقیقت میں بھی ہوتا ہے؟

اس سلسلے میں حال ہی میں روزنامہ ایکسپریس کے رپورٹرطفیل احمد کی ایک تحقیقی خبر نظر سے گزری تو احساس ہوا کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ خبرکے مطابق رمضان کے موقعے پر بعض سرکاری اسپتالوں اوراین جی اوزکی جانب سے شہر کے مختلف مقامات پر غریب مریضوں کے علاج کے نام پر زکوۃ، فطرے کے بینرز آویزاں کرنے پر مریضوں کے اہل خانہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہو ئے کہا ہے کہ آویزاں بینرز سے غریب مریضوں کی تضحیک ہورہی ہے، بعض این جی اوز اور سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ شہر میں غریب مریضوں کے علاج کے نام پر زکوۃ اور فطرہ طلب کررہے ہیں جس سے ان مریضوں اور ان کے اہلخانہ کا استحقاق مجروح ہو رہا ہے۔ مریضوں اور ان کے اہلخانہ نے حکومت سے شکوہ کیا ہے کہ سرکاری اسپتالوں کو ہر سال حکومت غریب مریضوں کے علاج کے لیے بجٹ فراہم کرتی ہے لیکن ہر سال رمضان المبارک میں بعض سرکاری اسپتالوں کی انتظامیہ اور بعض غیر سرکاری تنظیموں کے نام سے غریب مریضوں کے علاج کے نام پر زکوۃ اور فطرے کے بینرز آویزاں کیے جاتے ہیں یہ بینرز شہرکے اہم مقامات شاہراہوں پر آویزاں کیے جاتے ہیں۔

دوسری طرف یہ افسوس ناک خبر بھی اخبارکی زینت بنی کہ تھر پارکر میں طویل خشک سالی اور غذائی قلت کے باعث مزید دو بچے جاں بحق ہوگئے، مرنے والے بچوں کی تعداد154 ہوگئی، شدید بیمار بچوں کو کراچی و حیدر آباد کے اسپتالوں میں منتقل کرنے کے لیے ایمبولینس کا گھنٹوں انتظارکرنا پڑ رہا ہے۔

بات درحقیقت یہ ہے کہ اب این جی او بنانا اور نیکی کا کام کرنا ایک فیشن اورمنافع بخش کاروبار بن گیا ہے۔ رمضان المبارک میں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر ہمیں ایسی ناموراورگمنام تنظیموں کے پیغامات ملتے ہیں کہ بس وہ ہی اس ملک میں ہر خاص وعام کا درد رکھتے ہیں آپ انھیں اپنی امدادی رقم (فطرہ، زکوۃ وغیرہ) دیں اور بے فکر ہوجائیں وہ آپ کی رقم خود مستحقین تک پہنچا دیں گے۔

اس سلسلے میں بیحد جذباتی قسم کے مناظر سے بھرپور ٹی وی اشتہارات اور پروگرام بھی پیش کیے جاتے ہیں،کچھ ادار ے تو اپنی طرف سے ٹی وی کے گیم شوز میںکار اور ہوائی جہاز جیسے قیمتی انعامات بھی خوب دل کھول کر دے رہے ہیں، ان شوز کو دیکھ کر لگتا نہیں کہ پاکستان میں ایسے بھی مجبور لوگ ہونگے جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے بچے محض اس لیے مرجاتے ہیں کہ ان کے پاس کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوتا،ان بھوک سے مرنے والے بچوں کی نہ کوئی بڑی بریکنگ نیوز بنتی ہے نہ ان کی کسی یونیورسٹی میں مرنے والے طالبعلم یا دوردراز علاقے میں چائے فروخت کرنے والے کی طرح کوئی ویڈیو سوشل میڈیا پردھوم مچاتی، بس یہ بچے خاموشی کے ساتھ دم توڑ تے چلے جاتے ہیں اور نہ جانے کب تک یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔ ان کی ہلاکتوں پرکوئی آواز بلند نہیں کرتا کہ یہ ان کی زبان بولنے والوں کے ساتھ نا انصافی ہے، یا یہ سندھ کے قدیم سندھیوں کے ساتھ زیادتی ہے یا یہ صوبہ سندھ کے ساتھ زیادتی ہے یا پھر یہ کہ یہ اقلیتوں کے ساتھ ظلم ہے وغیرہ وغیرہ۔

یہ تو صرف تھرکے مظلوم بچوں کی ایک مثال ہے ورنہ ایسی اور بھی مثالیں موجود ہیں لیکن اس ماہ مبارک میں ایک عجیب میلہ لگا ہوا ہے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ اس مقدس ماہ کے نام پر ہو رہا ہے اور ہم سب اس بات پر خوش ہیں کہ ہم جنت کما رہے ہیں۔ ٹی وی چینلز پر تو دنیا ہی الگ آباد ہے،کوئی دعویٰ کررہا ہے کہ دین بہت آسان ہے، ہم آپ کو دین بتائیں گے اور اس عمل کے لیے علما کو بھی مخلوط محافل میں بلالیا گیا ہے کہ کوئی اعتراض ہی نہ رہے، افطارکے مقدس وقت اور رات میں جنت کمانے کا ایسا میلہ سجا ہے کہ ایک بہت ہی مشہور اور نامور ٹی وی اینکر نے خود ہی کہہ دیا کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں ٹی وی پرگیم شو نہیں کریں گے۔(سوال یہ ہے کہ جوکام رمضان کے آخری عشرے میں درست نہیں، وہ کام ابتداء کے دو عشروں میں درست تھا؟)

ہم تو اپنے بڑوں سے سنتے آرہے ہیں اورآج بھی جید علمائے کرام یہی تعلیم دیتے ہیں کہ عصرکے وقت سے مغرب تک قرآن پاک کی تلاوت اوردعا کرنی چاہیے کہ یہ اچھا عمل اور دعا کی قبولیت کا وقت ہوتا ہے، رات کو زیادہ سے زیادہ وقت عبادت میں گزار نا چاہیے، تصویر حرام ہے اورجس گھر میں تصویرہو اس میں فرشتے نہیں آتے۔ لیکن ہم تو یہ سارا وقت ٹی وی کے آگے بیٹھ کرگزار دیتے ہیں وہ بھی یہ سوچ کرکہ ٹی وی سے اسلام اور نیکی کی باتیں سیکھ رہے ہیں، حالانکہ ٹی وی اسکرین پر خوبصورت لڑکیوں، مخلوط محفل کے مناظر کے علاوہ وقفے میں اشتہارات میں نیم عریاں ماڈلز اور میوزک کا تڑکا بھی شامل ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسکرین پر تصویر تو ہوتی ہے نا کہ جہاں تصویر ہو وہاں فرشتے نہیں آتے، یہ کیسا ثواب کا کام ہے کہ جہاں یہ کام ہو وہاں فرشتے ہی نہ آئیں؟ ہمیں اپنا بچپن یاد ہے کہ جب ہماری رشتے کی ایک دادی ہوا کرتی تھی، جب نیا نیا ٹی وی ان کے گھر آیا تو وہ اپنے دوپٹے کا پلو نکال کر ٹی وی سے پردہ کرلیتی تھیں، کچھ لوگوں نے سمجھایا کہ یہ تو بے جان تصویر ہے آپ اس سے پردہ کیوں کرتی ہیں؟ تو ہماری دادی جواب دیتیں کہ تصویر تو بے شک بے جان ہے مگر میں تو بے جان نہیں ہوں۔

خیر راقم کی توجہ دلانے کا مقصد تھا کہ ہم کس قسم کے کلچر میں گم ہوکر رہ گئے ہیں، ہم یہ نہیں دیکھتے کہ ہمارے معاشرے میں کیا ہو رہا ہے، ایک طرف رمضان شروع ہوتے ہیں فطرہ ، زکوۃ لینے والے ادارے برساتی کھمبیوں کی طرح منظر عام پر آجاتے ہیں، دوسری طرف پیشہ ورگداگروں کی یلغار شروع ہو جاتی ہے، یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ ہم ہی بغیر سوچے سمجھے اپنی جیب سے یہ رقم ان کو فراہم کردیتے ہیں ہم خود کسی مستحق کو تلاش نہیں کرتے، ہمیں یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے محلہ پڑوس میں بھی کوئی مستحق یا ضرورت مند بھی ہے؟ ہم جوتا سینڈیل خریدنے کے لیے تلاش میں تو کئی کئی گھنٹے اوردن لگا دیتے ہیں مگر زکوۃ وغیرہ کے لیے جو سامنے آئے اس کو ہی دے دیتے ہیں۔ معاشرے میں نہ جانے کتنے بچے بھوکے سورہے ہیں، نہ جانے کتنے غیرت مند شرم کے مارے ہاتھ نہیں پھیلا رہے،کیا ہم خود انھیں تلا ش کرنے کی کوشش نہیں کرسکتے؟ ہمارے ہاں تو اکثر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی خون کے رشتے ہیں،ایک بھائی امیر ہوگیا اور دوسرا یا باقی گھر والے وہی غریب، امیر بھائی صرف زکوۃ دینے یا عید ملنے ہی آتا ہے ورنہ ملنا بھی گوارا نہیں۔ آئیے کچھ دیر غور کریں !ہم اپنا مال اور وقت کہاں اورکیسے خرچ کر تے ہیں، خاص کر اس رمضان میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔