جنوری کے 30روز، 240افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا

منور خان  جمعرات 31 جنوری 2013
کراچی پولیس کے سربراہ اقبال محمودکی عدم دلچسپی، شہریوں کو ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ فوٹو: فائل

کراچی پولیس کے سربراہ اقبال محمودکی عدم دلچسپی، شہریوں کو ٹارگٹ کلرز اور جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ فوٹو: فائل

کراچی: کراچی پولیس کے سربراہ اقبال محمود کی عدم دلچسپی نے شہریوں کو ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔

کراچی پولیس کے سربراہ کی جانب سے پیشہ وارانہ صلاحیتوں کے فقدان کے باعث شہر میں جاری ٹارگٹ کلنگ، اغوا کے بعد قتل کر کے لاشیں پھینکنے اور دیگر قتل و غارت گری کے علاوہ بم دھماکوں کے نتیجے میں رواں سال کے پہلے مہینے جنوری کے 30 روز میں 240 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جس میں حق پرست رکن سندھ اسمبلی ، ڈاکٹر ، صدارتی ایوارڈ یافتہ حکیم ، پولیس افسران و اہلکار ، سیاسی و مذہبی جماعتوں کے عہدیدار و کارکنان کے علاوہ خواتین بھی شامل ہیں، گذشتہ سال2012 میں جنوری کے مہینے 126 افراد زندگی کی بازی ہارے تھے۔

پولیس کے اعلیٰ افسر کی عدم دلچسپی کے باعث شہری ٹارگٹ کلرز اور دیگر جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں جبکہ رواں ماہ کے دوران 6 بم دھماکوں اور ایک درجن سے زائد دستی بم و کریکر حملے پولیس کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہیں، تفصیلات کے مطابق اسکوارڈن لیڈر (ر) اقبال محمود نے گذشتہ سال 16 جولائی کو کراچی پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے عہدے کا چارج سنبھالا تاہم وہ شہریوں کی جان مال کے تحفظ کو یقینی بنانے میں ناصرف ناکام دکھائی دیے بلکہ ان کی تعیناتی کے دوران شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت گری کی وارداتیں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔

اس دوران بھتہ مافیا اور دہشت گردوں کی جانب سے دکانوں ، بنگلوں اور فیکٹریوں پر دستی بم اور کریکر حملے معمول بن گئے، رواں ماہ جنوری کے 30 روز میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت گری کی وارداتوں میں 229 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جبکہ بم دھماکوں اور دستی بم حملوں میں 9 افراد زندگی سے محروم ہوگئے ، اعداد شمار کے مطابق یکم جنوری کو شہر کے مختلف علاقوں میں قتل و غارت گری کی وارداتوں میں 8 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا۔

 

4

2 جنوری کو 7 افراد ، 3 جنوری کو 4 افراد ، 4 جنوری کو 13 افراد ، 5 جنوری کو 8 افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے ، 6 اور 7 جنوری کو 6 ، 6 افراد ، 8 جنوری کو 5 افراد ، 9 جنوری کو جوہر آباد میں صدارتی ایوارڈ یافتہ ضعیف العمر حکیم محمود برکاتی سمیت 3 افراد جبکہ 10 جنوری کو 13 افراد سے جینے کا حق چھین کر انھیں ابدی نیند سلا دیا گیا ، 11 جنوری کو 9 افراد ، 12 جنوری کو 7 افراد ، 13 جنوری کو 2 افراد ، 14 جنوری کو 8 افراد جبکہ 15 جنوری کو 4 افراد اپنی زندگی سے محروم ہوگئے ، 16 جنوری کو 6 افراد جبکہ 17 جنوری کو رکن سندھ اسمبلی سید منظر امام اور ان 3 محافظوں کے علاوہ مجموعی طور پر 12 افراد کو زندگی سے محروم کر دیا گیا۔

18 جنوری کو 6 افراد ، 19 جنوری کو بھی 6 افراد 20 جنوری کو 7 افراد ، 21 جنوری کو 8 افراد جبکہ 22 جنوری کو ڈاکٹر حسن عالم سمیت 19 افراد کو ابدی نیند سلا دیا گیا ، 23 جنوری کو 5 افراد ، 24 جنوری کو 3 افراد جبکہ 25 اور 26 جنوری کو مجموعی طور پر 17 افراد 27 جنوری کو 8 افراد ، 28 جنوری کو 11 افراد ، 29 جنوری کو 5 افراد جبکہ 30 جنوری کو 9 افراد زندگی کی بازی ہار گئے ، شہر میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت گری کی وارداتیں جہاں عروج پر رہیں وہیں پر بم دھماکوں نے بھی شہریوں کو شدید خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔

سال نو کا آغاز یکم جنوری کو گلبرگ کے علاقے عائشہ منزل کے قریب موٹر سائیکل بم دھماکے سے کیا گیا جس میں متحدہ قومی موومنٹ کے جلسہ عام کے اختتام پر واپس گھروں کو جانے والے کارکنان و ہمدردوں کو نشانہ بنایا گیا جس میں 5 افراد اپنی زندگی سے محروم جبکہ 60 سے زائد افراد زخمی ہوگئے ، 9 جنوری کو راشد منہاس روڈ میلینیئم شاپنگ مال کے سامنے پیٹرول پمپ پر کھڑی ہوئی کار میں دھماکے سے ایک مشتبہ شخص ہلاک ہوگیا ، 14 جنوری کو ڈیفنس کے علاقے گزری میں پیٹرول پمپ کے قریب پراسرار دھماکے میں 8 افراد زخمی ہوئے۔

24 جنوری کو قائد آباد کے علاقے نیو مظفر آباد کالونی میں بوبی ٹریپ 2 بم دھماکے ہوئے جس میں ڈی ایس پی کمال منگن اور اے ایس آئی سمیت 3 افراد جاں بحق ہوئے جبکہ 30 جنوری کو سہراب گوٹھ کے علاقے انڈس پلازہ کے قریب ٹیکسی میں دھماکے سے 2 افراد ہلاک ہوئے ، جنوری کے 30 روز میں شہر کے مختلف علاقوں منگھوپیر ، کھارادر ، نیپئر ، سائٹ ، موچکو ، سرجانی ٹاؤن ، کلری ، کیماڑی ، ماڑی پور ، اورنگی ٹاؤن ، سمن آباد اور قائد آباد کے علاقے میں ایک درجن سے زائد دستی بم و کریکر حملے کیے گئے جس میں نصف درجن سے زائد افراد زخمی ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔