تیار ہو جائیے!

نصرت جاوید  جمعرات 2 اگست 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

خدا کا لاکھ لاکھ شکر کہ ہمارے ہاں گیلانی صاحب جیسے محقق عالم موجود ہیں۔ ہوائی باتیں کرنے کے بجائے انھوں نے ایک ادارہ بنا رکھا ہے۔ اس ادارے نے پاکستان کے طول و عرض میں موجود شہروں، قصبوں اور دیہات میں کچھ لوگ ڈھونڈ رکھے ہیں۔

ان لوگوں سے سوالات کرکے یہ پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ ہمارے عوام کی اکثریت کیا چاہتی ہے۔ گیلپ والے گیلانی صاحب جو دھندہ کرتے ہیں اس کا نام ’’رائے عامہ سروے‘‘ ہوا کرتا ہے۔ ایسے سروے کروانے کی روایت ایک بڑے ہی منظم انداز میں امریکی کمپنیوں نے ڈالی تھی۔

کسی بھی صابن وغیرہ کو مارکیٹ میں لانے سے پہلے وہ ایسے ہی سروے کروا کر یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتیں کہ کس قسم کا صابن کس انداز میں پیش کرکے بازار میں لایا جائے تو خریداروں کی ایک بڑی تعداد اس کی طرف راغب ہو جائے گی۔

نئی نئی اشیائے صرف کی مارکیٹ بناتے اور بڑھاتے ہوئے امریکی عقل مندوں کو پھر یہ خیال آیا کہ کسی صابن یا خوشبو کے نئے برانڈ کی طرح سیاستدانوں کو بھی ’’مارکیٹ‘‘ کیا جا سکتا ہے۔ ان کے خیال کو تقویت دینے کے لیے ٹیلی وژن بھی ایجاد ہو گیا۔

میڈیا کے بہت سارے اُستاد قسم کے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں جو یہ ثابت کرتی ہیں کہ امریکا میں 1960ء کی دہائی میں ایک کیتھولک کینیڈی کا پروٹسٹنٹ آبادی کی اکثریت والے ملک کا صدر منتخب ہو جانا ٹیلی وژن کے ذریعے ممکن ہوا۔ سیاستدان کے پاس عقل ہو یا نہ ہو اس کو ٹیلی وژن پر اچھا لگنا چاہیے۔ بجائے سیاسی معاملات کو منطقی دلائل کے ساتھ بیان کرنے کے ایک کامیاب سیاستدان کو مختصر ترین لفظوں میں اپنا پیغام دینے کی صلاحیت حاصل کرنا چاہیے۔

ایک فقرے (One Liner) کا سیاستدان۔ امریکی صدر ریگن میں یہی تو خوبی تھی ورنہ دوسرے درجے کی فلموں میں کام کرتا کہیں غائب ہو گیا ہوتا۔

سیاستدان کو مارکیٹ کرنے کی صلاحیت آہستہ آہستہ ٹیلی وژن تک محدود نہ رہی۔ اب تو انٹرنیٹ بھی آ گیا ہے‘ فیس بک ہے اور ٹویٹر بھی۔

آپ ان پر مختصر ترین لفظوں میں اپنا پیغام دے کر لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ اوباما نے یہی تو کیا تھا۔ ’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگایا‘ ٹویٹر اور فیس بک پر اپنے پُرجوش حامی نوجوانوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی جو آخرکار امریکی تاریخ میں پہلی بار ایک ’’کالے‘‘ کو صدر منتخب کرنے کا سبب بنی۔

ہمارے ہمسایہ ملک میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد راجیو گاندھی حیران کن حد تک ووٹ لے پایا تو اس کی وجہ اس کا ٹیلی وژن پر خوب صورت لگنا بھی تھا۔ اندرا کے قتل نے اس ’’غیرسیاسی نوجوان‘‘ کے لیے ہمدردی بھی پیدا کی اور 1984ء کے انتخاب میں وہ چھا گیا۔

یہ الگ بات ہے کہ اس کو منتخب کرنے کے کچھ مہینوں بعد ہی بھارتی عوام کو اندازہ ہوا کہ وہ کیا کر بیٹھے ہیں۔ انھوں نے لالو پرساد یادیو، ملائم سنگھ اور مایاوتی جیسے ’’علاقائی رہ نمائوں‘‘ کی طرف دیکھنا شروع کر دیا۔ واجپائی نے اٹل جن سنگھی ہونے کے بجائے کاروبار چلانے کی باتیں شروع کر دیں اور 1990ء کی دہائی سے ابھی تک بھارت میں مخلوط حکومتیں کام کر رہی ہیں۔

کوئی بھی ملک گیر جماعت وہاں کی قومی اسمبلی میں واضح اکثریت حاصل کرنے کے لائق ہی نہیں رہی مگر جمہوریت کا کاروبار چل رہا ہے اور ٹیلی وژن اور ’’رائے عامہ کا سروے‘‘ کرنے کے ذریعے لوگوں کو لیڈر بنانے کا دھندہ آہستہ آہستہ ٹھپ ہو رہا ہے۔

ان لوگوں کی طرف سے چند ماہ پہلے ایک کوشش انا ہزارے نام کے ایک پرانے جن سنگھی کو کرپشن کے خلاف لڑنے والا ’’مہاتما‘‘ بنا کر پیش کرنے کی صورت میں ہوئی۔ موصوف آج کل پھر دھرنا دیے اور بھوک ہڑتال کیے بیٹھے ہیں مگر اس بار زیادہ رش نہیں لے پا رہے۔

ان کے جیالے الزام لگا رہے ہیں کہ بھارت کے ’’بکائو میڈیا‘‘ نے بدعنوان سیٹھوں اور سرکاری لوگوں سے پیسے اور مراعات لے کر انا ہزارے کو بھلا دیا۔ بھارتی میڈیا ناراض ہو گیا‘ بجائے ایک دوسرے پر گند اُچھالنے کے اکٹھا ہو گیا۔ انا ہزارے اب معافی تلافی کی کوششوں میں اُلجھ گیا ہے۔ کرپشن بھارت میں اسی طرح جاری ہے جیسے ازل سے ہوا کرتی تھی۔

مجھے تو ویسے بھی اس کالم میں ساری توجہ گیلانی صاحب اور ان کے ’’رائے عامہ کا سروے‘‘ کرنے والے دھندے پر دینا ہے مگر مجبوری میری یہ ہے کہ میں عالم اور محقق نہیں ہوں۔ بڑے بنیادی قسم کے اعدادوشمار بھی نہیں سمجھ سکتا۔

ان اعدادوشمار پر مبنی جو رنگ برنگے گول دائرے اور خوب صورت لکیروں والے چارٹ بنائے جاتے ہیں میری موٹی عقل سے بالاتر ہیں۔ مجھے تو بس اتنا پتہ ہے کہ 1980ء کی دہائی ہوا کرتی تھی۔ ان دنوں غازی ضیاء الحق پاکستان پر اپنا راج مضبوط کرنے کے بعد افغانستان کو آزاد کروانے کے جہاد میں مصروف تھے۔

جماعت اسلامی کے صالحین اس نیک کام میں ان کی دامے، درمے، سخنے قسم کی معاونت فرماتے ہوئے اپنی دین و دنیا سنوار رہے تھے۔ میں ایک انگریزی اخبار میں معمولی سا رپورٹر تھا مگر جب بھی کبھی امریکنوں یا دوسرے گورے قسم کے سفارت کاروں سے ملتا یا ان کی محفلوں میں جانے کا موقع ملتا تو دو نوجوانوں کی ذہانت کے بڑے چرچے سنتا‘ ایک حسین حقانی تھے، دوسرے اعجاز شفیع گیلانی صاحب۔

حسین حقانی تو پھر باقاعدہ سیاست میں آ گئے۔ نواز شریف کے دربار سے ہوتے ہوئے محترمہ بینظیر تک پہنچے۔ جنرل مشرف ان کی عقل سے فائدہ نہ اُٹھا پایا۔ امریکا چلے گئے اور بوسٹن جیسی مشہور یونیورسٹی کے پروفیسر ہو گئے اور ایک کتاب بھی لکھ ڈالی۔

آصف علی زرداری نے ان کی عقل کو انھیں پاکستان کا امریکا میں سفیر بنا کر استعمال کرنا چاہا مگر منصور اعجاز نے ہماری آزاد عدلیہ اور قومی سلامتی کے اداروں کو سمجھا دیا کہ موصوف اپنے ہی وطن کے ’’خیر خواہ‘‘ نہیں۔ آج کل پھر امریکا میں اپنی عقل مختلف تھنک ٹینکوں کو مستعار دے کر روٹی پانی چلا رہے ہیں۔

گیلپ والے گیلانی صاحب ان سے مختلف ہیں۔ عالموں کی طرح خاموش رہتے ہیں۔ پاکستان کے پہلے شخص ثابت ہوئے جنہوں نے ’’رائے عامہ کا سروے‘‘ کرنے کی ہٹی کھولی۔ اب تو اس دکان کی بڑی ساکھ ہے۔ یقیناً گاہکوں کی تعداد بھی بڑی کثیر ہو گی۔ مجھے ہرگز پتہ نہیں کہ وہ رائے عامہ کا سروے کرتے ہوئے کسی موضوع کا انتخاب ازخود کرتے ہیں یا ان کا کوئی گاہک اس کے لیے ’’آرڈر ‘‘ دیتا ہے۔ میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ بہت ہی مناسب موقع پر اپنی تنظیم کی جانب سے کیے گئے ’’رائے عامہ کے سروے‘‘ کو خلقِ خدا کے سامنے لے آتے ہیں۔

یوسف رضا گیلانی کی طرف سے ’’وہ چٹھی‘‘ نہ لکھنے کے جرم میں ذلت آمیز فراغت کے بعد میں نے انھی کالموں میں انگریزی میں لکھنے والے ان ذہین و فطین لوگوں کا تذکرہ شروع کر دیا تھا جو اپنے مضامین کے ذریعے سپریم کورٹ کو مشورے دے رہے تھے کہ ’’سسٹم بچانے‘‘ کے عظیم تر مقصد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب کی بار ’’راجہ رینٹل‘‘ کو گیلانی کی طرح فارغ نہ کیا جائے۔

بہتر تو یہی ہے کہ سپریم کورٹ خود ہی کوئی کمیشن بنا کر ’’وہ چٹھی‘‘ لکھ دے اور راجہ کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ ذہین و فطین لوگوں کے مشوروں کا ذکر کرتے ہوئے البتہ میں یہ سوال ضرور کرتا رہا کہ اگر انصاف سب کے لیے برابر ہوتا ہے تو راجہ کے ساتھ بھی ’’وہ چٹھی‘‘ نہ لکھنے کی صورت میں وہی سلوک کیوں نہ ہو جو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا تھا۔

صد شکر کہ گیلانی صاحب کی طرف سے حال ہی میں کیے گئے ’’رائے عامہ کے سروے‘‘ نے مجھے سچا ثابت کر دیا۔ اس سروے کے ذریعے ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان کے 51فیصد لوگ یہ چاہتے ہیں کہ راجہ کے ساتھ ’’وہ چٹھی‘‘ نہ لکھنے کی صورت میں وہی کچھ ہونا چاہیے جو یوسف رضا گیلانی کے ساتھ ہوا۔ گویا ’’عوام کا فیصلہ‘‘ آ گیا ہے۔ ’’درمیانی راہ‘‘ کو بھول جائیے۔ راجہ کی ذلت آمیز رخصتی کے لیے تیار ہو جائیے کیونکہ ’’مارکیٹ‘‘ اس کے لیے تیار بیٹھی ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔