رمضان المبارک اور روزوں کی ضرورت و اہمیت

سلمان علی  جمعرات 15 جون 2017
روزہ کی فرضیت اسلئے ہے کہ انسان بہت کمزور اور خطا کار ہے، جلد بھول جانے والا ہے اِس لئے اُسے اِس کے مقصدِ زندگی یعنی عبادت، اللہ کی بندگی اور اطاعت کی تربیت اور یاددہانی کے ساتھ اِس قابل بنانا ہے کہ اِس کی پوری زندگی عبادت بن جائے۔

روزہ کی فرضیت اسلئے ہے کہ انسان بہت کمزور اور خطا کار ہے، جلد بھول جانے والا ہے اِس لئے اُسے اِس کے مقصدِ زندگی یعنی عبادت، اللہ کی بندگی اور اطاعت کی تربیت اور یاددہانی کے ساتھ اِس قابل بنانا ہے کہ اِس کی پوری زندگی عبادت بن جائے۔

عباداتِ اسلامی میں نماز کے بعد روزہ دوسری اہم ترین عبادت شمار کی جاتی ہے۔’عبادت‘ خود ایک اہم اور تفصیلی موضوع ہے، مگر یہاں مختصراً صرف اِس حوالے سے جان لیجئے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اِنسان کی تخلیق اور پیدائش کا مقصد ’عبادت ‘ کو ہی قرار دیا ہے۔

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَاْلِانْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنَ o (الذاریات 56:51)
ترجمہ: ’’اور ہم نے جنوں اور انسان کو اِس کے سوا اور کسی غرض کے لئے پیدا نہیں کیا کہ وہ میری عبادت کریں۔‘‘

بدقسمتی سے مختلف سیاسی، سماجی حالات نے بتدریج اتنی کروٹیں لیں کہ ہماری تہذیب و روایت میں عبادت کا مفہوم اور تصور اَب صرف مخصوص اوقات میں کچھ مراسم عبودیت ادا کرنے کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ گویا کہ وہ اُمور انجام دے لیے جائیں تو عباد ت ہوجاتی ہے۔ یہ تصور عبادتِ اسلام کے پیش کردہ حقیقی تصورِ عبادت کی صرف ایک شکل ہے یا ایک جز کی مانند ہے، جس کی اہمیت اپنی جگہ موجود ہے مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں اِس کو ہی عبادت کے مکمل معنی نہیں قرار دیے جا سکتے۔ عبادت لفظ ’عبد‘ سے نکلا ہے، جس کے لغوی اور اصطلاحی معنی و مفہوم، ’بندگی اور غلامی‘ کے ہیں چنانچہ جس طرح غلام کسی مخصوص وقت اور مخصوص کام میں اپنے آقا کا فرماںبردار اور غلام نہیں بلکہ اُس کی پوری زندگی آقا کی تابعداری اور وفاداری ہوتی ہے، ٹھیک اُسی طرح اسلام کا تصور عبادت بھی ہمہ گیر اور ہمہ جہت ہے۔ وہ بھی اپنے ماننے والے کو اُس کے حقیقی معبود کا کل وقتی بندہ، غلام، تابعدار اور وفادار بناتا ہے۔ تمام انبیاء کی تعلیم بھی یہی تھی کہ وہ اپنے اللہ کے سوا کسی اور کی بندگی اور غلامی نہ کریں۔

الا تعبدو الا ایاہ (یوسف 40:12)
ترجمہ: ’’اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘

چنانچہ اللہ نے جس عبادت کا حکم دیا ہے وہ انسان کی شعوری زندگی کے آغاز سے اُس کی آخری سانس تک اپنے اصل آقا کے احکامات کی پیروی اور اطاعت میں بسر کرنے سے متعلق ہے۔ اسلامی تصور عبادت باالفاظ دیگر احکام الٰہی کی پیروی میں زندگی بسر کرنے کا نام ہے۔ اِس کے لئے ہر وقت، ہر جگہ، ہر صورتحال کے لیے احکامات الہی بھی فراہم کردیے گئے ہیں۔ کسی بھی جگہ اپنے ماننے والے کے لیے اندھیرے نہیں رکھے گئے۔ جو دین آپ کو استنجا کرنا، پاکی ناپاکی، شادی بیاہ، میت، خوشی و غمی سمیت ہر ہر حوالے سے مکمل رہنمائی دیتا ہے تاکہ اُس پر عمل کیا جاسکے، اُسی کو عام معمولاتِ زندگی میں برت کر جب انسان اپنا کھانا، پینا، سونا، جاگنا اور معاش و معیشت انجام دیتا ہے تو یہ سب عبادت کے دائرے میں آتا ہے۔ مختصر یہ کہ زندگی میں ہر وقت ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت اور ہر اُس قانون کی پیروی سے گریز جو قانون الٰہی کے خلاف ہو، اُسی کا نام بندگی و اطاعت اور عبادت ہے۔

لیکن اب ایسا نہیں ہے کہ جو اللہ کی جانب سے براہِ راست ہم پر لازم کردہ یعنی فرض کردہ عبادات ہیں اُن کی اہمیت کوئی کم ہے۔ یہ بات پہلے ہی بتائی جاچکی ہے کہ نماز، روزہ، زکوۃ، حج، قربانی اور صدقہ بھی عبادات ہیں، مگر یہ سب ہماری پوری زندگی کے ہر ہر لمحے کوعبادت میں گزارنے کی تیاری کے لیے ہیں۔ دن میں پانچ وقت نماز کی ادائیگی یہ یاد دلاتی ہے کہ تم اللہ کے بندے ہو اور اُسی کی بندگی کرنی ہے اور اُس کے سوا کسی اور کا حکم نہیں ماننا۔ روزہ سال میں ایک مرتبہ فرض ہے جو ایک مہینے تک اِسی بندگی کی تیاری کرتا ہے۔ جس چیز کو اختیار کرنے کا حکم دیا اُس پر عمل کرنا اور جس چیز سے منع کیا ہے اُس سے دور رہنا ہے۔

زکوٰۃ بار بار توجہ دلاتی ہے کہ یہ مال جو تم نے کمایا ہے یہ خدا کا عطیہ ہے، اُسے صرف اپنی ذات اور نفس کی خواہشات کی پیروی کے لئے نہیں بلکہ اِس میں اُن کا بھی حصہ ہے جس کی ادائیگی کا اُس نے حکم دیا ہے۔ حج اللہ کے لئے ایثار مشقت کا ایسا نفس تیار کرتا ہے کہ اگر ایک مرتبہ قائم ہوجائے تو زندگی بھر مٹتا نہیں ہے۔ اِن عبادات کو اصل روح کے مطابق انجام دینے سے آپ حقیقی مالک و آقا کی بندگی اور اطاعت کے قابل ہوتے ہیں تاکہ اب ساری زندگی عبادت بن جائے گی۔

 

روزے کی تربیت

دن بھر کچھ شرائط اور پابندیوں کے ساتھ صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے سے گریز کے عمل کو روزہ کہتے ہیں۔ دوسری عباداتِ اسلامی کی طرح روزے کی عبادت بھی اللہ تعالیٰ نے تمام پیغمبروں کی شریعت میں فرض کی ہے۔ سابقہ اور گزشتہ جتنی اُمتیں گزری ہیں سب اِسی طرح روزہ رکھتی تھیں جس طرح خاتم الانبیاء محمد رسول اللہﷺ کے اُمتی روزہ رکھتے ہیں۔ روزے کا تصور الہامی مذاہب کے علاوہ غیر الہامی مذاہب میں بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے گویا روزہ ایک قدیم عبادت ہے اور اُس کی اہمیت یہ ہے کہ اِس کے تصور سے انسانی زندگی کبھی خالی نہیں رہی ہے۔

 

روزے کا اصل مقصد

سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آخر روزے کو فرض اور اِس کی پابندی کو لازم قرار کیوں دیا ہے؟ روزہ اختیاری کیوں نہیں ہے کہ جس کا جی چاہے روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے روزہ نہ رکھے؟

فی الحقیقت روزہ کی فرضیت اِس لئے ہے کہ انسان بہت کمزور اور خطا کار واقع ہوا ہے۔ جلد بھول جانے والا ہے اِس لئے اُسے اِس کے مقصدِ زندگی یعنی عبادت، اللہ کی بندگی اور اطاعت کی تربیت (Training) اور یاددہانی (Reminder) کے ساتھ اِس قابل بنانا ہے کہ اِس کی پوری زندگی عبادت بن جائے۔ روزہ انسان کی کس نہج پر تربیت کرتا ہے؟ قرآن مجید نے اِس بات کو اِس انداز سے بیان فرمایا ہے۔

یا ایھا الذین کتب علیکم الصیام کما کتب علی الالذین من قبلکم لعلکم تتقون
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزہ فرض کردیا گیا ہے جیسا کہ تم سے پچھلی امتوں پر تھا تاکہ تم پرہیزگار (متقی) بن سکو۔

 

روزہ کیسے انسان کو بڑے مقصد زندگی یعنی عبادت کے لئے تیار کرتا ہے؟

روزے کی عبادت اللہ اور بندے کے درمیان حائل پردے کی ہے۔ بندہ روزے کی حالت میں کسی جگہ بھی چھپ چھپا کر کھا پی سکتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا چاہے بھوک و پیاس کی شدت کیسی ہی سخت کیوں نہ ہو۔ خدا کا یہ ڈر اور خوف ہے جو اُس کے اللہ پر غیر متزلزل اور پختہ ایمان و تعین کی علامت ہے۔ آخرت میں روزے کے اجر و ثواب کی یہی اُمید اور ایک مہینے تک کی صبر و شکر کے ساتھ مسلسل مشقت و برداشت مقصد زندگی یعنی اللہ کی بندگی کی تیاری ہے۔ روزہ عبادات میں ایک ایسی عبادت ہے جو احکام شریعت کی لمبی مدت پر محیط ہے۔ سحری سے لے کر تراویح تک اور وہ بھی ایک دو روز نہیں ایک مہینے تک کا عرصہ احکام شریعت کی پابندی کرتے گزارنا جو عبادت کی تیاری کا موقع فراہم کرتا ہے۔

روزوں کا اہم پہلو یہ ہے کہ ایک مخصوص مہینے یعنی رمضان المبارک میں رکھنے کا حکم ہے۔ رمضان کا مہینہ پوری فضا کو نیکی اور پرہیزگاری کی روح سے بھر دیتا ہے۔ پوری قوم میں گویا تقویٰ کی کھیتی سرسبز ہوجاتی ہے۔ یہ تمام عوامل بندے کو اُس بڑے مقصد زندگی کی تیاری میں معاونت کرتے ہیں جسے عبادت، بندگی اور اللہ کی غلامی و فرماںبرداری کہتے ہیں۔

نبی ﷺ نے روزے کے اِس اصل مقصد کی جانب مختلف طریقوں سے توجہ دلائی ہے جس میں سے چند یہ ہے۔

  • ’’جس کسی نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالی کو اِس سے کوئی غرض نہیں وہ پورا دن بھوکا پیاسا رہے۔‘‘
  • ’’روزہ ڈھال ہے (جس طرح ڈھال دشمن کے وار سے بچنے کے لئے ہے اُسی طرح روزہ بھی شیطان کے وار سے بچنے کے لئے ہے) لہٰذا جب کوئی شخص روزے سے ہو تو اُسے چاہئیے کہ (اُس ڈھال کو استعمال کرے اور) دنگے فساد سے پرہیز کرے۔ اگر کوئی شخص اُسے گالی دے یا اُس سے لڑے تو اُسے کہہ دینا چائیے کہ بھائی میں روزے سے ہوں۔‘‘
  • ’’روزے کی حالت میں آدمی کو زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے چائیے اور ہر بھلائی کا شوقین بن جانا چائیے۔ اپنے بھائیوں کی مدد کا جذبہ شدید تر ہوجانا چاہئے۔‘‘
  • ’’سرکارِ رسالت مآبﷺ رمضان میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہوجاتے تھے۔ کوئی سائل اُس زمانے میں حضورﷺ کے دروازے سے خالی نہ جاتا تھا اور کوئی قیدی اُس زمانے میں قید میں نہ رہتا تھا۔‘‘

اِس اہتمام کے ساتھ روزہ رکھنا ایک ایسی عبادت ہے جس میں خاموشی بھی ایک عبادت ہے، سونا جاگنا اور کھانا پینا بھی عبادت ہے۔ روزے کا اصل چیلنج سال کے وہ گیارہ مہینے ہیں جس میں دنیا کی زندگی میں اپنے مالک حقیقی کے احکام کو یاد رکھ کر اُس پر عمل کرنا ہے اور بندگی کا حق ادا کرنا ہے۔ اگر ایک ماہ تک روزہ رکھنے کے بعد سال کے بقیہ گیارہ مہینے میں اُس کی زندگی میں تبدیلی نہیں آتی ہے تو اللہ تو اِس ایک مہینے کی بھوک پیاس کی حاجت نہیں ہے۔

حضور اکرمﷺ نے رمضان المبارک کے روزوں کی فضیلت و برکات اور اجر و ثواب سے متعلق خوشخبری دی ہے۔ ذیل میں چند کی جانب اشارہ کریں گے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:

  • ’’جس شخص نے ایمان اور احتساب (محض خدا کی خوشنودی اور آخرت کے اجر کے لئے رمضان کے روزے رکھے تو خدا اُس کے اُن گناہوں کو معاف کردے گا جو پہلے ہوچکے ہیں۔‘‘ (بخاری)
  • ’’روزے دار جنت میں ایک مخصوص دروازے سے داخل ہوں گے جس کا نام ریان (سیراب کرنے والا) ہے۔ جب روزے دار جنت میں جاچکے ہونگے تو یہ دروازہ بند کردیا جائے گا، اور پھر اُس دروازے سے کوئی نہیں جاسکے گا۔‘‘ (بخاری)
  • ’’خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادت چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والوں کی دعائوں پر آمین کہو۔‘‘
  • ’’قیامت کے روز روزہ سفارش کرے گا اور کہے گا پروردگار میں نے اِس شخص کو دن میں کھانے پینے اور دوسری لزتوں سے روکے رکھا، خدایا! تو اِس شخص کے حق میں میری سفارش قبول فرما اور خدا اُس کی سفارش کو قبول فرمائے گا۔‘‘
  • ’’افطار کے وقت روزے دار جو دعا مانگے اُس کی ہر دعا قبول کی جاتی ہے اور کوئی بھی دعا رد نہیں کی جاتی۔‘‘ (ترمذی)

یوں تو تمام عباداتِ اسلامی اللہ کی رضا کے علاوہ بھی بے شمار خصوصیات کی حامل ہیں۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آدمی عباداتِ اسلامی کو شعوری طور پر ادا کرے اور اُس کے اثرات روحانی اور جسمانی طور پر محسوس نہ کرے۔ عباداتِ اسلامی قلب و ذہن کی تسکین اور جسمانی تقویت کا ذریعہ ہیں۔ عباداتِ اسلامی قربت الٰہی کا ذریعہ ہیں۔ بندہ نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ کے ذریعے اللہ کا قرب و رضا حاصل کرکے ایک انبساط و فرحت محسوس کرتا ہے۔ جسمانی امراض سے نجات اور قوت و طاقت حاصل ہوتی ہے۔ روزہ ایک عظیم الشان عبادت ہے، جس کے روحانی اثرات سے ہم سب واقف ہیں۔ روزے میں معاشی اور تجارتی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہیں۔ افطار و سحر کے انتظامات سے لیکرعید کی تیاری تک ہر کاروبار عروج پر ہوتا ہے۔ لوگ اجر و ثواب کے لئے غریبوں اور محتاجوں کی مختلف طریقوں سے مدد کرتے ہیں۔ کھانا کھلاتے ہیں، زکوٰۃ ادا کرتے ہیں، فطرانہ ادا کرتے ہیں جس سے معاشرے کے کمزور اور محروم طبقوں کی بھی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ روزے کے آخرت میں ملنے والے نتائج، برکات و ثمرات بھی ہم سب کے ذہن نشین ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر مسلمان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ ماہِ رمضان میں تمام روزہ رکھے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔