روزہ اور صحت

سلمان علی  پير 19 جون 2017
ﷲ تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل 24، 36 یا 40 گھنٹے نہیں ہونا چاہیے بلکہ 15 سے 18 گھنٹے ہونا چاہیئے۔

ﷲ تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل 24، 36 یا 40 گھنٹے نہیں ہونا چاہیے بلکہ 15 سے 18 گھنٹے ہونا چاہیئے۔

رمضان کے احکامات صحت مندوں کے لیے ہیں، اور مریضوں کو ﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک حد تک رخصت دی ہے، مگر مریضوں کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ رمضان میں روزے کا اہتمام کریں۔ ﷲ رب العالمین نے رمضان میں روزے، سحری، افطار، تراویح، قیام اللیل اور اعتکاف کے جو احکامات دیے ہیں اُن کے نہ صرف روحانی اثرات ہیں بلکہ اُن کے طبی اثرات بھی ہیں۔

میڈیکل سائنس جوں جوں ترقی کر رہی ہے یہ بات عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ روزے کے طبی اثرات بھی عظیم الشان ہیں۔ بیماروں کے لیے روزے کے کیا احکامات ہیں۔ کوئی بیمار روزہ رکھنے کے عمل کو کس طرح بہترین انداز میں انجام دے سکتا ہے، اور اپنی بیمار حالت کو کس طرح بہتر کرسکتا ہے۔ یہ موضوع سائنسی تحقیقات کا پورا نچوڑ ہے، جس کے ذریعے ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ صبح سے شام تک روزہ رکھنے اور بھوکا پیاسا رہنے سے انسان کے جسم میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور یہ تبدیلیاں جسم، دماغ، صحت، قوت مدافعت اور اِس کی بیماری پر کون سے قلیل المدت اور طویل المدت اثرات مرتب کرتی ہیں۔

اِن کو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ 24 گھنٹے کے دوران انسانی جسم کی ضروریات کیا ہوتی ہیں۔ اِس کو کتنی غذا، کتنا پانی اور کتنی توانائی چاہیئے ہوتی ہے۔ جب ہم یہ جان لیں گے تو یہ سمجھنا آسان ہوگا کہ روزہ رکھنے کی صورت میں وہ ضروریات کس طرح پوری ہوتی ہیں اور ان کے لیے انسانی جسم خود کو کس طرح ڈھالتا ہے۔

انسان کی پہلی ضرورت غذا کی صورت میں کیلوریز (حراروں) کی ہوتی ہے۔ انسانی جسم کو یومیہ اوسطاً 2 سے 3 ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن اِس کا انحصار انسان کی فعالیت پر ہے۔ بہت زیادہ فعال لوگوں کو یومیہ 3 سے 4 ہزار کیلوریز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بستر پر بیمار پڑے لوگوں کی ضروریات 2 ہزار کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ کیلوریز غذا کے ذریعے پوری ہوتی ہیں۔ اگر 24 گھنٹے کے دوران ایک یا دو وقت غذا پہنچ جائے تو بھی انسانی جسم کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے۔اِسی طرح انسانی جسم کو یومیہ 1.5 سے 3 لیٹر پانی کی ضرورت ہوتی ہے، اِس کا بھی انحصار اِس بات پر ہے کہ انسان کتنا فعال ہے؟ اور بیرونِ خانہ (آؤٹ ڈور) سرگرمیوں میں کتنا مصروف ہے۔

بالعموم گھر کے اندر موجود رہنے والے فرد کی پانی کی ضرورت 1.5 سے 2 لیٹر ہوتی ہے۔ گھر کے باہر دھوپ اور گرمی میں کام کرنے والے فرد کی ضرورت 3 سے 4 لیٹر پانی کی ہوتی ہے۔ اگر اتنا پانی 24 گھنٹے میں انسان کے جسم میں پہنچ جائے تو یہ ضرورت پوری ہوجاتی ہے، لیکن جب ایک فرد روزہ رکھتا ہے، اور علی الصباح سے بھوکا رہنا شروع ہوتا ہے تو اِس کے جسم میں بہت سی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ جسم خود کو برقرار رکھنے اور اپنی توانائی کو استعمال کرنے کے لیے بہت سی تبدیلیاں کرتا ہے۔ بہت سے ہارمونز (Hormones) جسم کے اندر توانائی برقرار رکھنے کے لیے خارج اور استعمال ہوتے ہیں۔ جسم کے اندر بہت سے کیمیائی مادے جو نیورو ٹرانسمیٹرز کہلاتے ہیں اِس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔

جس کے نتیجے میں انسان کا جسم اِس قابل ہوتا ہے کہ روزے کے ثمرات اور فوائد کو طبی ثمرات میں تبدیل کرسکے۔ انسانی جسم میں سب سے نمایاں تبدیلی یہ پیدا ہوتی ہے کہ انسانی جسم پانی کو محفوظ کرنا شروع کردیتا ہے، خون میں ایسے ہارمونز خارج ہوتے ہیں کہ جو پانی کو محفوظ کرتے ہیں۔ جسم کے اندر خون کی گردش کو فعال بناتے ہیں اور جسمانی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے عمل کو کنٹرول کرتے ہیں۔ انسانی جسم اور دماغ کو متحرک رکھنے کے لیے توانائی درکار ہوتی ہے۔ یہ توانائی چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین کی شکل میں ہر وقت جسم کے اندر موجود ہوتی ہے۔ سحری میں لی گئی غذا جزوِ بدن بن کر توانائی میں تبدیل ہوتی ہے اور روزے کے دوران جسم میں استعمال ہوتی رہتی ہے۔ پہلے یہ غلط فہمی عام تھی کہ روزہ رکھنے سے جسمانی کمزوری واقع ہوجاتی ہے یا اعصاب کمزور ہوجاتے ہیں یا جسم کو کوئی ایسی کمزوری لاحق ہوجاتی ہے جو نقصان پہنچاتی ہے۔

سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے ایسی کوئی کمزوری واقع نہیں ہوتی بلکہ حیرت انگیز طور پر جسم کو توانائی حاصل ہوتی ہے۔ توانائی کے دوسرے ذرائع پیدا ہوتے ہیں جو اپنا کام انجام دینا شروع کرتے ہیں۔ درحقیقت روزہ رکھنا انسانی جسم کے لیے توانائی کا باعث بنتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج پوری دنیا میں روزے پر تحقیق ہو رہی ہے۔ مختلف بیماریوں میں روزے کو بطور ایک طریقۂ علاج استعمال کیا جارہا ہے جن میں لوگ کمزور ہوجاتے ہیں، خواہ وہ آنتوں کی بیماری ہو یا سانس کی، دل و دماغ کی بیماری ہو یا شریانوں کی، تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ خود ایک طریقۂ علاج ہے۔

روزہ رکھنے سے انسانی جسم میں گلوکوز کی سطح گر جاتی ہے، جسم کو گلوکوز کی متواتر ضرورت ہوتی ہے، اور جب جسم کو یہ باہر سے نہیں ملتا تو جسم اپنے اندر از خود گلوکوز بنانا شروع کردیتا ہے۔ جسم کے اندر محفوظ چربی، کاربوہائیڈریٹ اور پروٹین گلوکوز میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ جسم کے اندر میٹابولزم (Metabolism) کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جسم گلوکوز جمع کرنا شروع کرتا ہے، لیکن جن لوگوں کے خون میں شوگر کی مقدار زیادہ ہوتی ہے، روزے سے اِن کے جسم میں شوگر کی سطح کم ہوتے ہوتے متوازن ہوکر نارمل ہوجاتی ہے۔

روزے کے نتیجے میں دوسری تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ بلڈ پریشر کم ہونا شروع ہوجاتا ہے، بلڈ پریشر کو قابو میں رکھنے کے لیے پانی چاہیئے ہوتا ہے۔ جب جسم کو 4، 2 چار گھنٹے پانی نہیں ملتا تو اُس کے بلڈ پریشر میں کمی آنا شروع ہوجاتی ہے۔ اِس کمی کو پورا کرنے کے لیے جسم میں ایسے ہارمونز خارج ہونے لگتے ہیں جو بلڈ پریشر کے اِس عمل کو بہتر کرتے ہیں لیکن جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے اُن کو روزہ رکھنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اُن کا بلڈ پریشر قابو میں آجاتا ہے۔ دنیا میں اب یہ ایک مستند طریقہ علاج ہے کہ جن لوگوں کا بلڈ پریشر زیادہ ہو اور کنٹرول نہ ہو رہا ہو اُن کو روزہ رکھنے کا مشورہ دیا جاتا ہے۔

انسانی جسم میں تیسری بڑی تبدیلی چربی کی سطح میں رونما ہوتی ہے۔ جسم میں محفوظ چربی عموماً استعمال نہیں ہو رہی ہوتی کیونکہ انسان مطلوبہ توانائی اپنی غذا سے حاصل کر رہا ہوتا ہے۔ روزے کی حالت میں بڑا فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ چربی کا ذخیرہ توانائی میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتا ہے، چنانچہ جسم کے اندر چربی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے، اور کولیسٹرول کم ہونے لگتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ چربی انسانی جسم کے اندر بیماریاں پیدا کرتی ہے۔ چربی سے جسم میں کولیسٹرول اور موٹاپا بڑھتا ہے، خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔ یہ روزے کے اثرات ہی ہیں جن کی وجہ سے چربی پگھلتی ہے، کولیسٹرول کم ہوجاتا ہے اور زائد چربی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات سے بھی بچا جاسکتا ہے۔

سائنسی تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ روزہ رکھنے سے جسم میں زہریلے مادے ختم ہونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ جسم میں طرح طرح کے مادے پیدا ہوتے ہیں جن میں بعض زہریلے بھی ہوتے ہیں۔ روزے کے نتیجے میں جسم کا پورا میٹابولزم تبدیل ہوکر ایک مختلف شکل میں آجاتا ہے۔ جسم کے اندر ڈی ٹاکسی فکیشن (Detoxification) کا عمل شروع ہوتا ہے، جسم کو اپنے بہت سے زہریلے مادّوں سے نجات حاصل کرنے کا موقع ملتا ہے اور یہ بڑی تبدیلی ہے جو انسان کو صحت مندی کی طرف لے جاتی ہے۔ روزے سے جسمانی قوتِ مدافعت بھی بڑھتی ہے۔ روزہ رکھنے سے مدافعت کا نظام فعال ہوجاتا ہے، اِس فعالیت کے نتیجے میں جسم کے اندر مدافعتی نظام میں بڑھوتری پیدا ہوتی ہے۔ پھر خون میں ایسے مدافعتی خلیے پیدا ہوتے ہیں جو انسان کو نہ صرف بیماریوں سے بچاتے ہیں بلکہ اگر جسم میں بیماریاں موجود بھی ہوں تو اُن کو دور کرنے میں مدد دیتے ہیں۔

ﷲ تعالیٰ نے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ بھی سائنسی تحقیق کے مطابق انسانی جسم کو تندرست رکھنے والے ہیں۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بھوکا رہنے کا عمل 24، 36 یا 40 گھنٹے نہیں ہونا چاہیے بلکہ 15 سے 18 گھنٹے ہونا چاہیئے۔ روزہ اِسی مقررہ وقت کے اندر ہوتا ہے۔ بھوکا رہنے کا عمل اس سے طویل ہو تو اِس کے نتیجے میں پٹھے (Muscles) ضائع ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور انسانی جسم کے اندر نقصان دہ سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں۔

ﷲ رب العالمین نے روزہ فرض کرتے ہوئے روزے کے جو اوقات مقرر کیے ہیں وہ ہماری صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیں۔ مسلم ممالک، یورپ اور امریکہ میں بھی اِس پر بڑے پیمانے پر تحقیق ہو رہی ہے کہ روزے کو انسانی صحت کی بہتری کے لیے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔