شائقین کو سنیما گھروں تک لانے کیلیے فلم میکرز انقلابی طرز کی فلمیں بنائیں، ثنا

قیصر افتخار  جمعـء 16 جون 2017
80 کی دہائی کے بعد فلموں میں میوزک کو یکسر نظرانداز کیاگیا،نقصان سب کے سامنے ہیں،نوجوان فلم میکرز اس شعبے پر توجہ دیں۔ فوٹو : فائل

80 کی دہائی کے بعد فلموں میں میوزک کو یکسر نظرانداز کیاگیا،نقصان سب کے سامنے ہیں،نوجوان فلم میکرز اس شعبے پر توجہ دیں۔ فوٹو : فائل

 لاہور:  اداکارہ وماڈل ثنانے کہا ہے کہ دورحاضرمیں شائقین کوسینما گھروں تک لانے کے لیے ہمارے فلم میکرز کوجدید ٹیکنالوجی سے بنی انٹرنیشنل معیارکی فلمیں دکھانا ہونگی۔

ثنا نے ’’ایکسپریس‘‘ سے گفتگو میں کہا کہ ہمارے ہاں اب جو نوجوان ڈائریکٹر آرہے ہیں ان سب کااپنا مزاج اورانداز ہے اور وہ ایک دوسرے کوکاپی کرنے کے بجائے اپنی صلاحیتوں سے فلم بنا رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں جوجدید سینما اورفلم فروغ پارہی ہے اس سے جڑے تمام لوگ ہالی وڈ سے متاثر ہیں، جوکہ بہت خوش آئند بات ہے لیکن انھیں اپنے ملک کی شائقین کے مزاج کومدنظررکھتے ہوئے فلم بنانی چاہیے۔

اداکارہ نے کہا کہ ہمارے ہاں بننے والی فلموں میں جب تک میوزک پرتوجہ نہیں دی جاتی، اس وقت تک فلم کواچھا رسپانس نہیں ملتا۔ اس کی متعدد مثالیں گزشتہ چند برسوںمیں ریلیز ہونے والی فلموں سے دی جاسکتی ہے۔ فلم کی کہانی جاندار تھی اور فنکاروں نے اپنے کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھی بھرے مگرمیوزک پرتوجہ نہ دی گئی، جس کا نتیجہ فلم کے کاروبارمیں نقصان کی شکل میں سامنے آیا۔ اس لیے ضروری ہے کہ ماضی کی غلطیوں کودہرانے کے بجائے ایسا کام کیا جائے جولوگوںکی پسند کے مطابق ہو۔

ایک سوال کے جواب میں ثنا نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران بننے والی فلموں میں جہاں جدید ٹیکنالوجی، کہانی اوردیگرتکنیکی چیزوں پرزیادہ فوکس کیا گیا، وہیں اس کے ساتھ اگرفلموں میں میوزک پرکچھ خاص توجہ بھی دی جاتی توآج صورتحال مختلف ہوتی۔ خیر ابھی بھی دیرنہیں ہوئی اوراس صورتحال پرقابو پانا بھی مشکل نہیں ہے۔ مگرضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے نوجوان فلم میکرز تمام پہلوؤں پرتوجہ دیتے ہوئے فلمیں بنائیں۔ کیونکہ ایک بھی شعبہ پرتوجہ نہ دی جائے تواس کے اثرات ایک اچھے پروجیکٹ پرضرورپڑتے ہیں، جس سے نقصان ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔