اعتکاف؛ رضائے الہٰی کے حصول کا راستہ

مولانا حافظ عبدالرحمن سلفی  جمعـء 16 جون 2017
اعتکاف کی شرائط میں سے ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ فوٹو : فائل

اعتکاف کی شرائط میں سے ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ فوٹو : فائل

اعتکاف کے لغوی معنی ٹھہرنے کے ہیں۔ لیکن شرعی اصطلاح میں دنیا کے تمام تر کاروبار و مصروفیات کو ترک کرکے عبادت الٰہی کی نیت اور رضائے الٰہی کے حصول کے جذبے کے تحت مسجد میں ٹھہر کر عبادت ‘ ذکر و اذکار‘ تلاوت قرآن مجید وغیرہ میں مشغول رہنے کو اعتکاف کہتے ہیں۔

حالت اعتکاف میں کثرت سے نوافل کی ادائی اور تلاوت ‘ دعا‘ ذکر و تسبیح و تہلیل، درود شریف وغیرہ کے ذریعے اپنے رب سے تعلق استوار کرنا چاہیے۔ اسی طرح مسجد میں قرآن و حدیث کا درس دینا اور وعظ و نصیحت کرنا بھی جائز و مستحسن ہے۔ کیوں کہ یہ ذرایع عقائد و اعمال کی اصلاح میں بے حد ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ اعتکاف کی بڑی فضیلت ہے۔

رحمت کائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کا ارشاد گرامی ہے، ترجمہ : ’’ جو شخص اپنے بھائی کی حاجت روائی میں کوشاں ہو اور اس مقصد میں کام یاب ہو جائے تو (یہ عمل) دس سال کے اعتکاف سے اس کے حق میں بہتر ہے۔ اور جس نے اللہ تعالیٰ کی خوش نودی کے لیے ایک دن کا اعتکاف کیا تو اللہ تعالیٰ اس بندے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کی دوری کر دیتا ہے جو زمین و آسمان سے بھی زیادہ دور ہیں۔‘‘

(طبرانی۔ ترغیب)

نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا، ترجمہ : ’’ جس نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کر لیا۔ اسے دو حج اور دو عمرے کا ثواب عطا ہوگا۔‘‘ (بیہقی)

چوں کہ ماہ رمضان المبارک نیکیوں کا موسم بہار ہے اور اس ماہ مقدس میں اللہ رب العالمین کی رحمتیں اور بخششیں اپنے بندوں کے لیے دیگر ایام کی نسبت بہت زیادہ بڑھی ہوتی ہیں اور خالق جن و بشر ا پنے گناہ گار بندوں کو جو اپنی شامت اعمال کی بہ دولت اللہ کے غضب اور جہنم کے مستحق ٹہر چکے ہوتے ہیں، مالک کائنات اس ماہ مبارک میں انہیں اصلاح کا موقع عطا فرما دیتا ہے۔ تاکہ اس کے بندے سارا سال کیے گئے گناہوں اور نافرمانیوں پر شرمندہ ہوکر اپنے رب کے حضور گڑگڑا کر اور اپنی جبین نیاز کو خم کرکے اپنے خالق و مالک سے توبہ و استغفار کرلیں۔ اور وہ مہربان آقا اپنی مخلوق کو جہنم سے آزادی کا پروانہ جاری فرما دے۔

ماہ رمضان المبارک کی تمام تر عبادات کا محور رضائے الٰہی کا حصول ہی ہوتا ہے۔ اعتکاف بھی رمضان المبارک میں انجام پانے والے ایسے ہی پاکیزہ اعمال میں سے ایک ہے۔ البتہ اس عبادت کی ادائی کے چند آداب ہیں، جنہیں ملحوظ خاصر رکھنا ازحد ضروری ہے۔ وگرنہ بے پروائی یا عدم آگاہی کی بنا پر خدانخواستہ ہماری یہ عظیم عبادت ضایع نہ ہوجائے اور ہمیں سوائے مشقت کے کچھ بھی حاصل نہ ہو۔

معتکف کا عاقل ‘ مسلمان ہونا اور عورتوں کا حیض و نفاس سے پاک ہونا نیز معتکفین کا جنابت سے پاک و صاف ہونا اور اعتکاف کی نیت کرنا اور مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اعتکاف کی حالت میں مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔ البتہ بول و براز‘ فرض نماز اور نماز جمعہ کی ادائی کے لیے اپنے اعتکاف کے مقام سے باہر جا سکتے ہیں۔

اعتکاف کی دو اقسام ہیں، فرض اور سنت
فرض اعتکاف یہ ہے کہ کوئی نذر یا منت مان کر اسے اپنے لازم کر لے۔ یعنی یوں کہے کہ میں اللہ کے واسطے اعتکاف کروں گا تو اس کا ادا کرنا فرض ہے۔ کیوں کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے، ترجمہ : ’’ اپنی نذروں کو پورا کرو۔‘‘

سنت اعتکاف یہ ہے کہ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں دس روز کا اعتکاف کیا جائے۔ چوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاحیات رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا۔

ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں۔ ترجمہ: ’’ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان شریف کے آخری عشرے میں پوری زندگی اعتکاف فرمایا۔ ایک مرتبہ ایک سال رمضان میں نہیں کیا تھا تو شوال کے مہینے میں اس کو ادا فرمایا۔ اسی طرح عورتیں بھی اعتکاف کر سکتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اعتکاف کیا کرتی تھیں۔‘‘ (بخاری و مسلم)

اسی طرح جس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا اس سال آپ نے بیس دن کا اعتکاف فرمایا۔ (ترمذی‘ ابو دائود)

اعتکاف ایسی عظیم عبادت ہے کہ انسان اپنی جائز دنیاوی ضروریات سے دست بردار ہوجاتا ہے اور خالصتاً اللہ تعالیٰ سے لو لگا کر مسجد کے ایک کونے میں پڑا رہ جاتا ہے۔ اس لیے اس عبادت کو اعتکاف کہا جاتا ہے کہ اس بندے نے اپنے آپ کو ایک خاص مقصد (یعنی رضائے الہٰی کے حصول) کے لیے ایک خاص مقام (یعنی مسجد کے کونے) میں محدود کر لیا ہے اور وہ دنیا کے جائز معاملات سے بھی لاتعلق ہو کر مشغول عبادت ہوگیا ہے۔

معتکف کا حالت اعتکاف میں سونا‘ جاگنا یا خالی بیٹھنا بھی عبادت ہے۔ لیکن حالت اعتکاف میں‘ جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اعتکاف کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ معتکف کو محض اعتکاف کے اجر و ثواب میں دو حج اور دو عمروں کا ثواب ملتا ہے جو وہ حالت اعتکاف میں یک سوئی کے ساتھ ادا کرتا ہے۔ تاہم ان خوش نصیب لوگوں کو اعتکاف کی برکت سے شب قدر کی فیوض و برکات سے بھی مستفید ہونے کا سنہری موقع مل جاتا ہے، جس کی ایک رات کی عبادت کا ثواب ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ لہٰذا دوران اعتکاف لایعنی باتوں اور مشاغل سے مکمل پرہیز کرنا چاہیے۔

بعض حضرات اعتکاف میں بھی موبائل فون لیے کاروباری یا خاندانی معاملات نمٹاتے رہتے ہیں یا دوستوں کی محفل لگا کر خوش گپیوں میں مصروف رہتے ہیں۔ یہ امور اعتکاف کے اجر و ثواب کو ضایع کرنے والے ہیں۔ لہٰذا ان سے اجتناب کرتے ہوئے مکمل یک سوئی کے ساتھ اپنے رب سے تعلق استوار کر کے اپنی بخشش کا سامان مہیا کرنا چاہیے۔ حالت اعتکاف میں تیل‘ خوش بو لگانا اور غسل کرنا جائز ہے۔ البتہ جنازے کے ساتھ جانا یا کسی بھی ضرورت کے تحت مسجد سے باہر جانا ممنوع ہے۔

اعتکاف کی شرائط میں سے ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اعتکاف کو سنت مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے تاکہ ہمیں صحیح معنوں میں اس کی فیوض و برکات حاصل ہوسکیں۔ آمین یا رب العالمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔