اعتکاف کے فضائل و مسائل

مولانا محمد الیاس گھمن  جمعـء 16 جون 2017
اعتکاف سے مقصود لیلۃ القدر کو پانا ہے، جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔ فوٹو : اے ایف پی / فائل

اعتکاف سے مقصود لیلۃ القدر کو پانا ہے، جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔ فوٹو : اے ایف پی / فائل

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ کی رضا کے لیے ایک دن کا اعتکاف کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے اور جہنم کے درمیان تین خندقوں کو آڑ بنا دیں گے، ایک خندق کی مسافت آسمان و زمین کی درمیانی مسافت سے بھی زیادہ چوڑی ہے۔‘‘

ایک دن کے اعتکاف کی یہ فضیلت ہے تو رمضان المبارک کے آخری عشرے کے اعتکاف کی کیا فضیلت ہوگی؟ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو رمضان کی مبارک گھڑیوں میں اعتکاف کرتے ہیں اور مذکورہ فضیلت کے مستحق قرار پاتے ہیں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ اعتکاف کرنے والا گناہوں سے محفوظ رہتا ہے اور اس کی تمام نیکیاں اسی طرح لکھی جاتی رہتی ہیں جیسے وہ ان کو خود کرتا رہا ہو۔‘‘

اس حدیث میں اعتکاف کے فوائد میں سے دو بیان کیے گئے ہیں :

1) معتکف جتنے دن اعتکاف کرے گا، اتنے دن گناہوں سے بچا رہے گا۔

2)جو نیکیاں وہ باہر کرتا تھا مثلاً مریض کی عیادت، جنازے میں شرکت، غرباء کی امداد وغیرہ، اعتکاف کی حالت میں اگرچہ ان کاموں کو نہیں کرسکتا لیکن اس قسم کے اعمال کا ثواب اس کے نامۂ اعمال میں لکھا جاتا ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے: ’’ جس نے اللہ کی رضا کے لیے ایمان و اخلاص کے ساتھ اعتکاف کیا تو اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘

اس حدیث میں اعتکاف کرنے پر جن گناہوں کی معافی کا وعدہ کیا گیا ہے ان سے مراد گناہ صغیرہ ہیں، کیوں کہ گناہ کبیرہ کی معافی کے لیے توبہ شرط ہے۔ اعتکاف کرنے والا جب مبارک ساعات میں خدا تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتا ہے، آہ و بکا کرتا ہے اور اپنے سابقہ گناہوں سے سچی توبہ کرتے ہوئے آئندہ نہ کرنے کا عزم کرتا ہے تو یقینی بات ہے اس کے کبیرہ گناہ بھی معاف ہوجاتے ہیں۔ اس صورت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک میں گناہوں سے مراد کبیرہ بھی ہوسکتے ہیں جن کی معافی  طلب کرے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف فرماتے اور فرمایا کرتے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کی آخری راتوں میں تلاش کیا کرو۔

اعتکاف سے مقصود لیلۃ القدر کو پانا ہے، جس کی فضیلت ہزار مہینوں سے زیادہ ہے۔ اس حدیث میں لیلۃ القدر کو تلاش کرنے کے لیے آخری عشرے کا اہتمام بتایا گیا ہے جو دیگر احادیث کی رو سے اس عشرے کی طاق راتیں ہیں۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ اس آخری عشرے کی ساری راتوں میں بیداری کا اہتمام کرنا چاہیے، ورنہ کم از کم طاق راتوں کو تو ضرور عبادت میں گزارنا چاہیے۔

٭ چند ضروری مسائل:

ماہِ رمضان کے آخری عشرے میں کیا جانے والا اعتکاف ’’سنت مؤکدہ علی الکفایہ‘‘ ہے، یعنی بڑے شہروں کے محلے کی کسی ایک مسجد میں اور گاؤں دیہات کی پوری بستی کی کسی ایک مسجد میں کوئی ایک آدمی بھی اعتکاف کرے گا تو سنت سب کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔ اگر کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گناہ گار ہوں گے۔

اعتکاف کے چند مسائل یہ ہیں:

٭ رمضان کے سنت اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروبِ آفتاب سے شروع ہوتا ہے اور عید کا چاند نظر آنے تک رہتا ہے۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ بیسویں دن غروبِ آفتاب سے پہلے اعتکاف والی جگہ پہنچ جائے۔

٭ جس محلے یا بستی میں اعتکاف کیا گیا ہے، اس محلے اور بستی والوں کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی اگرچہ اعتکاف کرنے والا دوسرے محلے کا ہو۔

٭ آخری عشرے کے چند دن کا اعتکاف، اعتکافِ نفل ہے، سنت نہیں۔

٭ سنت اعتکاف کی دل میں اتنی نیت کافی ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرتا ہوں۔

٭ کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف میں بٹھانا جائز نہیں۔

٭ مسجد میں ایک سے زاید لوگ اعتکاف کریں تو سب کو ثواب ملتا ہے۔

٭ مسنون اعتکاف کی نیت بیس تاریخ کے غروبِ شمس سے پہلے کرلینی چاہیے۔

٭ اعتکافِ مسنون کے صحیح ہونے کے لیے مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں:

مسلمان ہونا۔ عاقل ہونا۔ اعتکاف کی نیت کرنا۔ مرد کا مسجد میں اعتکاف کرنا۔ مرد اور عورت کا جنابت یعنی غسل واجب ہونے والی حالت سے پاک ہونا ،عورت کا حیض و نفاس سے خالی ہونا۔ روزے سے ہونا ( اگر اعتکاف کے دوران کوئی ایک روزہ نہ رکھ سکے یا کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے تو مسنون اعتکاف بھی ٹوٹ جائے گا)۔ جس شخص کے بدن سے بدبو آتی ہو یا ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے لوگ تنگ ہوتے ہوں تو ایسا شخص اعتکاف میں نہ بیٹھے البتہ اگر بدبو تھوڑی ہو جو خوشبو وغیرہ سے دور ہوجائے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو، تو جائز ہے۔

اعتکاف کی حالت میں جائز کام:
کھانا پینا (بہ شرطے کہ مسجد کو گندا نہ کیا جائے) سونا، ضرورت کی بات کرنا، اپنا یا دوسرے کا نکاح یا کوئی اور عقد کرنا، کپڑے بدلنا، خوش بو لگانا، تیل لگانا، کنگھی کرنا (بہ شرطے کہ مسجد کی چٹائی اور قالین وغیرہ خراب نہ ہوں ) مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا، نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا، لیکن یہ کام بغیر اجرت کے کرے تو جائز ہیں ورنہ مکروہ ہیں، برتن وغیرہ دھونا، معتکف کا اپنی نشست گاہ کے ارد گرد چادریں لگانا۔ معتکف کا مسجد میں اپنی جگہ بدلنا۔ بہ قدر ضرورت بستر، صابن، کھانے پینے کے برتن اور مطالعے کے لیے دینی کتب مسجد میں رکھنا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔