ہم نے رمضان کا حق ادا کیا؟

 جمعـء 16 جون 2017
روزے کی مشروعیت سے مقصود انسان کو تنگی اور دشواری میں مبتلا کرنا نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

روزے کی مشروعیت سے مقصود انسان کو تنگی اور دشواری میں مبتلا کرنا نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

اسلام ایک جامع اور مکمل شریعت ہے، جس کے اندر مختلف نوع کی عبادتیں ہیں، جن میں سے بعض کا تعلق قول سے ہے، جیسے ذکر، دْعا، دعوت الی الخیر، وعظ و تذکیر اور تعلیم و تعلّم وغیرہ۔ اور بعض عبادتیں ایسی ہیں جن کا تعلق فعل سے ہے، خواہ وہ بدنی ہوں، جیسے نماز۔ یا مالی ہوں، جیسے زکوٰۃ و صدقات یا بدنی و مالی دونوں ہوں، جیسے حج اور جہاد فی سبیل اللہ۔ اور بعض عبادتیں وہ ہیں جو نہ قولی ہیں اور نہ فعلی، بل کہ ان میں صرف رکنا پایا جاتا ہے، جیسے روزہ۔ اکثر علماء نے روزے کو عبادتِ بدنی میں شمار کیا ہے، کیوں کہ کسی چیز سے رْکنا بھی تو ایک فعل اور عمل ہی ہے۔

عبادت کی نیت سے صبحِ صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رْکے رہنے کا نام روزہ ہے۔ یہ عبادت اسلام سے پہلے دیگر ادیان میں بھی کیفیت و کمیت کے فرق کے ساتھ مشروع تھی، جیسا کہ قرآن خود شہادت دے رہا ہے: ’’ اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے، تاکہ تم پرہیزگار ہوجاؤ۔‘‘

لیکن جس طرح اسلام نے نماز اور زکوٰۃ میں جامعیت و مرکزیت پیدا کرکے، انھیں دیگر ادیان و مذاہب کی نماز و زکوٰۃ سے ممتاز بنادیا، اسی طرح سے روزے کو بھی دیگر مذاہب کے روزوں کے مقابلے میں اختصاص و امتیاز عطا کیا گیا۔ چناں چہ اسی غرض سے فرض روزے کو ایک مہینے کے لیے خاص کیا گیا اور پھر اس کے لیے وہ مہینہ منتخب کیا گیا، جس میں اللہ کی جانب سے مسلمانوں کو دستور ہدایت یعنی قرآن مرحمت فرمایا گیا۔

ارشاد خداوندی ہے: ’’ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں نازل کیا گیا قرآن جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی واضح دلیل اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے؛ لہٰذا جو شخص اس مہینے کو پائے تو اْس کے روزے ضرور رکھے۔‘‘

ہمیں اس بات پر یقین کامل ہے کہ روزے کی فرضیت میں بہت سی حکمتیں و مصلحتیں پوشیدہ ہیں، اگرچہ ہمارا نارسا ذہن ان تمام اسرار و حکم اور مصالح تک نہ پہنچ سکے۔ البتہ بعض حکمتیں جو سمجھ میں آرہی ہیں انھیں یہاں بیان کیا جارہا ہے۔

اس سلسلے میں ہمیں سب سے پہلے خود اپنے وجود پر غور کرنا چاہیے کہ انسان کی اصل حقیقت کیا ہے؟ کیا انسان گوشت، پوست اور ہڈی، جلد کے اس ظاہری مجموعے کا نام ہے ؟ یا اس کی حقیقت اس ظاہری ڈھانچے کے علاوہ کچھ اور ہے؟ ظاہر ہے کہ صرف اس ظاہری ڈھانچے کو انسان کبھی نہیں کہا جاسکتا، کیوں کہ اس صورت میں انسان سے زیادہ حقیر اور کم درجے کی کوئی اور مخلوق نہ ہوگی۔

حالاں کہ انسان اشرف مخلوقات اور خلاصۂ کائنات ہے۔ اس لیے لازمی طور پر یہ ماننا ہوگا کہ انسان اس ظاہری شکل و صورت کا نام ہرگز نہیں بل کہ یہ کسی اور ہی چیز کا نام ہے، جس کی بنا پر وہ تمام مخلوقات میں ایک امتیازی مقام رکھتا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی چیز ہے، جس کے ذریعے انسانیت کا وجود متحقق ہوتا ہے۔

نفسِ انسانی میں غور و فکر کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ درحقیقت انسان ایک جوہر روحانی کا نام ہے، جس کے اندر اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمتِ بالغہ سے غور و فکر کی استعداد و صلاحیت پیدا کررکھی ہے، جس کے ذریعے وہ نہ صرف سمجھتا، بوجھتا ہے بل کہ پوری کائنات پر حکومت کرتا ہے اور اسی امتیازی وصف کی بناء پر مسجودِ ملائکہ بنایا گیا۔

قرآن حکیم اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کرتا ہے: ’’ جب کہا تمہارے رب نے فرشتوں سے، میں بناتا ہوں ایک انسان مٹی کا۔ پھر جب ٹھیک بنا چکوں اور پھونکوں اس میں اپنی رْوح سے تو تم جھک پڑو سجدے میں۔‘‘

چوں کہ خواہشاتِ نفسانیہ کو دبانے سے قوتِ روحانیہ کو تقویت حاصل ہوتی ہے، روزے میں خواہشِ بطن کی شکست و ریخت ہوتی ہے۔ اس لیے لازمی طور پر روحانیت کو قوت و طاقت ملے گی اور اسی جوہرِ روحانی سے آدمی انسان کہلاتا ہے تو گویا روزے کے ذریعہ انسانیت کی تشکیل و تکمیل ہوتی ہے۔

روزے سے جہاں روح کو طاقت ملتی ہے، وہیں اس سے بدن کی بھی اصلاح ہوتی ہے۔ اس لیے کہ اکثر امراض معدے کی خرابی کی بنا پر پیدا ہوتے ہیں۔ چناںچہ کہا جاتا ہے معدہ بیماریوں کی جڑ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے: ’’ انسان کے لیے سب سے خراب بات اپنے شکم کو پُر کرنا ہے۔‘‘ لہٰذا جب پیٹ کا بھرنا امراض اور بیماریوں کا پیش خیمہ ہے، تو اس کا علاج یہ ہے کہ پیٹ کو خالی رکھا جائے اور روزے کے اندر یہی وجہ ہے کہ پیٹ کو خالی رکھا جاتا ہے۔ جس سے بدن کی اصلاح ہوجاتی ہے اور آدمی بہت سے امراض سے محفوظ ہوجاتا ہے۔

روزہ کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعے سے آدمی کے اندر صبر و استقامت کی قوت پیدا ہوتی ہے جو انسان کے لیے بڑی خوبی کی چیز ہے۔ روزہ دار کے سامنے عمدہ اور مرغوب غذائیں ٹھنڈا اور شیریں پانی رکھا رہتا ہے، مگر ان کی طرف نگاہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا۔ حالاں کہ بہ ظاہر اس کو ان چیزوں کے استعمال کرنے سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، لیکن اس کا ضمیر اس کے لیے تیار نہیں ہوتا کہ وہ اپنے روزے کو برباد کرکے خدا کے غضب کا مستحق بنے۔ ایک مہینے کی یہ مشق لامحالہ انسان کے اندر استقلال و استقامت کی طاقت پیدا کرے گی۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ طور خاص جوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے:

(اے جوانو! تم میں سے جس کے اندر استطاعت ہو وہ ضرور نکاح کرے، اس لیے کہ نکاح نگاہوں کو پست رکھنے والا اور عصمت کی حفاظت کرنے والا ہے اور جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتا وہ اپنے اوپر روزے کو لازم کرلے، اس لیے کہ روزہ اس کے لیے بندش کا کام دے گا۔‘‘ (بخاری شریف)

’’ ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ نصف صبر ہے۔‘‘

اس حدیث پاک میں روزے کو نصف صبر اس لیے فرمایا گیا ہے کہ انسان کے اندر تین قوتیں ہیں۔ پہلی قوت شہوانی، دوسری قوت غضبی اور تیسری قوت روحانی اور روزے سے انسان قوت شہوانی پر غالب آجاتا ہے تو گویا اْسے نصف صبر حاصل ہوگیا۔

اسلام صرف نام و نمود کا مذہب نہیں ہے، بل کہ یہ دینِ جہاد ہے اور جہاد کے لیے صبر و استقامت ایک لازمی چیز ہے۔ لہٰذا جو شخص اپنی ذات کے مقابلے میں جہاد نہیں کرسکتا، وہ اپنے دشمن سے کیا مقابلہ کرے گا ؟ اور جس کا اپنے نفس پر قابو نہیں چلتا وہ اپنے دشمن کو کیوں کر زیر کرے گا۔ اور جسے ایک دن کی بھوک و پیاس پر صبر نہیں ہوتا وہ گھر بار چھوڑنے پر کیسے صبر کرے گا۔ اس لیے سال میں ایک ماہ کے روزے کا حکم دے کر صبر و استقامت کی تمرین کرائی جاتی ہے تاکہ آدمی جہاد کے لیے تیار ہوجائے۔

روزے کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کی قدر و منزلت کا عرفان پیدا ہوتا ہے کیوں کہ جب تک آدمی کو بھوک و پیاس کی شدّت کا احساس نہ ہو، اْسے کھانے پینے کی سچی قدر کیا ہوگی اور جب ان نعمتوں کی قدر و منزلت کی معرفت حاصل ہوگی تو اس کا زیادہ سے زیادہ حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا۔ تو اس طرح روزہ اللہ تعالیٰ کے شکر اور اس کی عبادت پر آمادہ کرنے میں ایک قوی اثر رکھتا ہے۔

اسی لیے ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے فقر کو غنا پر ترجیح دی اور ارشاد فرمایا : ’’ مجھ پر میرے رب نے یہ بات پیش کی کہ میرے لیے بطحاء مکہ سونا بنا دیا جائے تو میں نے عرض کیا: اے میرے رب مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ میں تو ایک دن آسودہ شکم رہوں گا اور ایک دن بھوکا رہوں گا۔ جس دن بھوکا رہوں گا آپ سے تضرع کروں گا اور آپ کو یاد رکھوں گا۔ اور جس دن آسودہ رہوں گا آپ کا شکر اور حمد کروں گا۔‘‘ ( ترمذی)

روزے کی وجہ سے جب آدمی بھوک و پیاس کی شدت کو محسوس کرتا ہے تو اس کے اندر غرباء و مساکین کی تکالیف کا احساس بیدار ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ ناز و نعمت میں پلا ہوا جس نے بھوک و پیاس کی تکلیف کبھی برداشت نہ کی ہو، اْسے بھوکوں، پیاسوں کی حالت زار اور اذیت کا کیا علم ہوگا۔ لیکن روزے کی وجہ سے جب اْسے بھوک کی اذیت کا ذاتی تجربہ ہوتا ہے تو پھر اس کے اندر یہ جذبہ پیدا ہوگا، کہ غریبوں اور ناداروں کی امداد و اعانت کرکے انھیں اس تکلیف و اذیت سے بچائے۔ چناں چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اربابِ سیر لکھتے ہیں کہ حیاتِ طیبہ کے آخری دور میں جب اموالِ کی وجہ سے آپ کی تنگ دستی دور ہوگئی تھی، اس زمانے میں آپؐ نے روزوں کی تعداد میں زیادتی فرما دی تھی۔ اور جب آپؐ سے اس کا سبب پوچھا گیا تو آپؐ نے فرمایا: ’’روزہ اس لیے رکھتا ہوں، تاکہ غریبوں کو بھول نہ جاؤں۔‘‘

ان سب مصالح کے علاوہ سب سے اہم بات جو روزے سے حاصل ہوتی ہے وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کردینا ہے اور یہ تسلیم اور خود سپردگی ہر عبادت کا حاصل اور خلاصہ ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے: ’’ ہم نے سنا اور قبول کیا، تیری بخشش چاہتے ہیں، اے ہمارے رب اور تیری طرف لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ (البقرہ)

’’ یقینا میری نماز اور میری دیگر عبادتیں اور میری حیات اور موت سب اللہ ہی کے لیے ہے۔‘‘ یہ تسلیم و رضا روزے کے ذریعے یوں حاصل ہوتی ہے کہ روزے دار کے سامنے اس کی مرغوبات موجود ہیں، جن کے استعمال پر وہ قدرت بھی رکھتا ہے اور ان کے استعمال کی اْسے شدید خواہش بھی ہوتی ہے؛ لیکن وہ محض اللہ کی رضا کے لیے انھیں ہاتھ نہیں لگاتا اور ان کے استعمال سے رْکا رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے روزہ کو بہ طور خاص اپنی جانب منسوب فرمایا ہے۔

’’ انسان کا ہر عمل اس کے لیے ہے، البتہ روزہ یہ خاص میرے لیے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا وہ میرے لیے اپنا کھانا چھوڑ دیتا ہے، میرے لیے اپنا پینا چھوڑ دیتا ہے، میرے لیے اپنی لذّت چھوڑ دیتا ہے اور میرے لیے اپنی بیوی کو چھوڑ دیتا ہے۔‘‘

(ابن خزیمہ)

روزے کی مشروعیت سے مقصود انسان کو تنگی اور دشواری میں مبتلا کرنا نہیں ہے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ روزہ کی فرضیت کے بعد اس حکمت کو بیان کرتے ہیں۔

’’ اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا ہے تم پر دشواری۔‘‘ (البقرۃ)

بل کہ روزے سے مقصود روحانیت کو قوی کرنا، ارادے میں استحکام پیدا کرنا اور صبر و رضا کا خوگر بنانا، جسم کو امراض سے بچانا اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی انسان کے دل میں قدر و منزلت پیدا کرنا ہے۔

روزہ اور ہمارا طرزِ عمل

رمضان المبارک کا روزہ جن مقاصد حسنہ کی تحصیل کے لیے فرض کیا گیا تھا، ہمارے سلف صالحین نے روزے کے آداب و واجبات کی رعایت کرکے ان مقاصد کو پورے طور پر حاصل کیا۔ وہ حضرات دن کو روزہ رکھتے تھے اور رات بھر ذکر و فکر اور نماز و تلاوت میں مشغول رہتے تھے اور رمضان المبارک کے ہر ایک لمحے کو اللہ کی عبادت میں گزارتے تھے، وہ اپنی زبانوں کو بیہودہ گوئی سے بند رکھتے تھے اور کانوں کو لغو اور فحش باتوں کے سننے سے محفوظ رکھتے تھے، ان کی آنکھیں حرام چیزوں کی طرف قطعاً نہیں اٹھتی تھیں۔

اس طرح اْن کے تمام اعضاء روزے سے رہتے تھے، لیکن آج ہمارا یہ حال ہے کہ ہم اس مبارک مہینے کو بھی دیگر مہینوں کی طرح ضایع کردیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کو اس لیے فرض کیا تھا کہ اس کے ذریعے روح و قلب کو فائدہ پہنچے۔ مگر ہم نے روزے کو پیٹ اور معدے کو پْر کرنے کا مہینہ بنالیا۔ اللہ نے اْسے حلم و صبر کے حاصل کرنے کا ذریعہ بنایا تھا، مگر ہم نے اْسے غیض و غضب اور غم و غصّے کا مہینہ بنالیا۔ اللہ تعالیٰ نے اْسے سکینت و وقار کا مہینہ بنایا تھا، مگر ہم نے اْسے گالی گلوج اور لڑائی جھگڑے کا مہینہ بنالیا۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کو اس لیے فرض کیا تھا کہ ہماری عادتوں میں تبدیلی آئے، مگر افسوس ہم نے سوائے کھانوں کے اوقات میں تبدیلی پیدا کرنے کے کچھ نہیں کیا۔

(مولانا حبیب الرحمن اعظمی)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔